|
ایمازون، ایلفابیٹ، علی بابا، فیس بک اور ٹینسینٹ دنیا کی ان انتہائی اہم
کمپنیوں میں سے ایسے پانچ نام ہیں جنھیں بنے ہوئے لگ بھگ 25 برس ہی گزرے
ہیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب اپنے اپنے انداز میں ’ڈیٹا‘
کی وجہ سے دولت مند بنے۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہم ڈیٹا کو ’تیل‘ جتنی اہمیت دیں اور
اسے ’نیا ایندھن‘ کہہ کر پکاریں۔ سنہ 2011 تک دنیا کی 10 بڑی کمپنیوں میں
سے پانچ تیل کی کمپنیاں تھیں جبکہ اب صرف ایک ایگزون موبل ہی اس فہرست کا
حصہ ہے۔
اگرچہ ڈیٹا اور تیل کے درمیان موازنہ کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ ڈیٹا
متعدد مرتبہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور تیل صرف ایک بار لیکن ڈیٹا اور تیل
میں ایک مماثلت ضرور ہے اور وہ یہ کہ خام حالت میں دونوں ہی قابلِ استعمال
نہیں ہوتے۔
آپ کو انھیں قابلِ قدر بنانے کے لیے مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔
آپ ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ آپ کو ایسی معلومات مل سکیں جن کے ذریعے آپ
اچھے فیصلے لے سکتے ہیں، جیسے سوشل میڈیا پر کس قسم کا اشتہار لگانا چاہیے
یا پیج پر کس سرچ رزلٹ کے حوالے سے معلومات رکھی جائیں۔
ذرا تصور کریں کہ آپ کو ان میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
|
|
فرض کریں کوئی صارف یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ رہا ہے۔ تو یوٹیوب اسے اگلی ویڈیو
دیکھنے کے لیے کیا تجویز کرے گا؟ گوگل یوٹیوب کو چلاتا ہے جبکہ گوگل کی
ملکیت ایلفابیٹ کے پاس ہے۔
اگر یوٹیوب انھیں کوئی دلچسپ ویڈیو دکھا کر انھیں اپنی ویب سائٹ پر ہی رہنے
پر مجبور کرے تو وہ ایک اور اشتہار دکھا سکتا ہے، لیکن اگر صارف کی توجہ
ختم ہو جائے تو وہ ویب سائٹ چھوڑ جائیں گے۔
یہ فیصلہ لینے کے لیے آپ کے پاس وہ تمام ڈیٹا موجود ہے جس کے ذریعے آپ اس
صارف کو کوئی دلچسپ ویڈیو تجویز کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس وہ تمام ویڈیوز
موجود ہیں جنھیں یہ صارف یوٹیوب پر دیکھ چکا ہے۔ تو آپ کو اس صارف کی پسند
ناپسند کا اندازہ ہے۔
ساتھ ہی آپ کے پاس یہ ڈیٹا بھی موجود ہے کہ دوسرے صارفین نے اس ویڈیو کو
دیکھنے کے بعد کون سی ویڈیوز دیکھیں۔
تو بس، میسر آپشنز کو تولیں اور ممکنات کا جائزہ لیں۔ اگر آپ دانائی سے اس
ویڈیو کا انتخاب کرتے ہیں اور صارف ایک اور اشتہار دیکھتا ہے تو بہت خوب،
آپ نے ایلفابیٹ کے لیے 20 سینٹ کما لیے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ڈیٹا کا جائزہ لینے کے لیے انسانوں پر انحصار کرنا بے وقوفی ہو
گی۔ ایسے کاروباری ماڈلز کو چلانے کے لیے مشینز کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈیٹا کی معیشت میں صرف ڈیٹا سے آپ کو فیصلوں میں آسانی نہیں ہوتی بلکہ یہاں
ڈیٹا اور ایلگورتھم کا تال میل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
|
|
سنہ 1880 میں ایک امریکی نژاد جرمن مؤجد نے اپنے خاندان کو ایک ایسی مشین
کے بارے میں بتایا جس کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ انسانوں سے کہیں تیزی سے کیا
جا سکتا تھا۔
ہیرمن ہولیرتھ نامی مؤجد نے اس مشین کا ڈیزائن تو بنا لیا لیکن اسے ٹیسٹ
کرنے کے لیے انھیں پیسے درکار تھے۔
اس مشین کے خدوخال ایک سیدھے پیانو کی مانند تھے لیکن اس پر پیانو کیز کی
بجائے کارڈز کے سلاٹ ہیں جن کا حجم ایک ڈالر کے نوٹ جتنا ہے اور ان میں
سوارخ موجود ہیں۔
|
|
آپ کے سامنے 40 گھڑی نما ڈائلز ہیں اور جب آپ یہ کارڈز اس مشین میں ڈالتے
ہیں تو ان ڈائلز کی سوئیوں میں فرق آ بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
ہرمین ہولیرتھ کے خاندان کو اس مشین کی سمجھ نہیں آئی تو انھوں نے اس مشین
کے لیے پیسے دینے کی بجائے ان کا مذاق اڑایا۔ ہولیرتھ یہ بات نہیں بھولے
اور انھوں نے ان سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ بعد میں ان کے بچوں
کو یہ علم نہیں تھا کہ ان کی والد کے رشتہ دار بھی ہیں۔
ہولیرتھ کی ایجاد نے ایک انتہائی مخصوص مسئلے کا حل ڈھونڈا۔ وہ یہ کہ ہر دس
برس بعد امریکی حکومت مردم شماری کرتی ہے اور حکومتیں ہمیشہ سے ہی یہ جاننا
چاہتی ہیں کہ کون کہاں رہتا ہے اور کس کے کتنے اثاثے ہیں تاکہ ٹیکس کی
وصولیابی بڑھائی جا سکیں اور فوج میں بھرتیاں کی جا سکیں۔
تاہم اگر آپ مردم شماری کرنے کے لیے اہلکاروں کو ملک بھر میں بھیج ہی رہے
ہیں تو یقیناً اس حوالے سے مزید سوالات پوچھنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جیسے لوگ کس قسم کی نوکریاں کرتے ہیں، انھیں کوئی بیماری یا معذوری ہے یا
نہیں اور وہ کون سی زبانیں بولتے ہیں۔
یقیناً علم بڑی طاقت ہے اور اس بات کا علم 19ویں صدی کے بیوروکریٹس کو بھی
ویسے ہی ہوا جیسے 21ویں میں کمپنیوں کو ہو رہا ہے۔
|
|
تاہم سنہ 1880 کی مردم شماری میں بیوروکریٹس نے اتنا ڈیٹا جمع کر لیا کہ
اسے استعمال کرنا مشکل ہو گیا۔
اس مردم شماری میں، لائبریریاں، نرسنگ ہومز، جرائم کے اعداد و شمار اور
دیگر شعبوں کو بھی شامل کیا گیا۔ سنہ 1870 کی مردم شماری میں پانچ مختلف
قسم کے فارم تھے جبکہ سنہ 1880 میں ان فارمز کی تعداد 215 تھی۔
بہت جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ان فارمز میں دیے گئے سوالات کے جواب
دینے میں برسوں لگ جائیں گے۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ جب تک وہ اس مردم شماری
کے جوابات اکھٹے کریں گے نئی مردم شماری سر پر ہو گی۔
تاہم اگر کوئی ان مراحل میں تیزی لے آئے تو یقیناً حکومت کی جانب سے ایک
نفع بخش نوکری اس کی منتظر ہو گی۔
نوجوان ہرمین نے 1880 کے مردم شماری پر کام کیا تھا اور وہ اس مسئلے کو
سمجھتے تھے۔
انھوں نے ٹرینوں کے لیے ایک نئی طرز کی بریکس ایجاد کر کے منافع کمانے کا
سوچ رکھا تھا۔ شومںی قسمت کہ مردم شماری کے اعداد وشمار سے متعلق مسائل کا
حل بھی انھوں نے ٹرین کے ایک سفر کے دوران ہی ڈھونڈا۔
ہوا کچھ یوں کہ ریل کی ٹکٹیں اکثر چوری ہو جاتی تھیں۔ اس لیے ریلوے کمپنیوں
نے اس سے بچاؤ کا ایک دلچسپ طریقہ ایجاد کیا اور ٹکٹ پر ’پنچنگ ہولز' یعنی
سوراخوں کے ذریعے صارف کے خدوخال کی نشاندہی کی۔
|
|
کنڈکٹرز ایک ہول پنچ کے ذریعے ’گہری آنکھیں، بڑا ناک، ہلکے رنگ کے بال‘
جیسے خدوخال بتانے کی کوشش کرتے۔ تو اگر کوئی گہرے رنگ کے بال اور چھوٹے
ناک والا آپ کی ٹکٹ چرائے تو وہ زیادہ دیر تک ٹرین میں سفر نہیں کر پائے گا۔
اس نظام کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہولیرتھ کو اندازہ ہوا کہ مردم شماری کے
حوالے سے لوگوں کے جوابات کو بھی کارڈز میں کیے گئے سوراخوں کی مدد سے
علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ اس مسئلے کا حل ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ سوراخ شدہ کارڈز کو 19ویں صدی
کے اوائل سے مشینوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، جیکرڈ
کی نقش و نگار والے کپڑے بنانے والی کھڈی میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔
تو اب ہولیرتھ کو صرف ایک ایسی مشین تیار کرنا تھی جس کے ذریعے وہ ان سوراخ
شدہ کارڈز سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کا جائزہ لے سکیں۔
|
|
پیانو کی طرز کی اس مشین میں سپرنگز سے لدی پنز ان کارڈز پر موجود ہوتی ہیں۔
جیسے ہی اس مشین کو چلایا جاتا ہے اور انھیں کوئی سوراخ ملتا تو ایک
الیکٹرک سرکٹ مکمل ہوتا اور اس طرح ڈائل کی سوئی ایک درجہ اوپر ہو جاتی ہے۔
ہولیرتھ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ بیوروکریٹس کو ان کی یہ ایجاد ان کے خاندان
سے زیادہ پسند آئی۔
انھوں نے اس مشین کو کرائے پر لے کر سنہ 1890 کی مردم شماری کے اعداد وشمار
کا جائزہ لیا جس میں انھوں نے مزید فارمز کا اضافہ کر دیا تھا۔
پرانے نظام کے مقابلے میں ہولیرتھ کی مشین انتہائی تیز اور بہت سستی ثابت
ہوئی۔
اس میں زیادہ اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے اعداد و شمار کا جائزہ لینا مزید
آسان کر دیا۔
فرض کریں کہ آپ ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں جن کی عمر 40 اور 45 برس کے
درمیان ہے، وہ شادی شدہ ہیں، اور پیشے کے لحاظ سے بڑھئی ہیں۔ اس کے لیے آپ
کو 200 ٹن کے دستاویزات کا بغور جائزہ لینا ضروری نہیں ہے۔ صرف مشین چلائیں
اور کارڈز کو اس میں سے گزاریں۔
حکومت کو جلد ہی اس مشین کی افادیت مردم شماری سے بھی کہیں زیادہ لگنے لگی۔
مؤرخ ایڈم ٹوزے کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں بیوروکریٹس سے یہ توقع کی
جاتی ہے کہ انھیں ہر چیز کا علم ہونا چاہیے۔ '
امریکہ میں پہلی مرتبہ سماجی تحفظ کے فنڈز سنہ 1930 میں سوراخ شدہ کارڈز کے
ذریعے ہی دیے گئے۔ اگلی دہائی میں ایسے ہی سوراخ شدہ کارڈز کے ذریعے
ہولوکاسٹ جیسے خوفناک واقعے کو عمل میں لانے میں مدد ملی۔
کاروباروں کو بھی اس کی افادیت کا جلد ہی علم ہو گیا تھا۔ انشورنس کمپنیوں
نے ان سوراخ شدہ کارڈز کو اعداد وشمار سے متعلق تخمینہ لگانے کے لیے اور
بلنگ، ریلوے کے ذریعے تجارت جیسے کاموں میں بھی ان کا استعمال ہوا۔ جبکہ
دیگر صنعت کاروں نے فروخت اور قیمت کے حوالے سے انھیں استعمال کیا۔
ہولیرتھ ٹیبولیٹنگ مشین کمپنی نے اس زمانے میں خوب تجارت کی۔ آپ نے شاید اس
کمپنی کا نام سنا ہو جو متعدد مرجرز کے بعد آئی بی ایم کے نام سے جانی جاتی
ہے۔
یہ ایک عرصے تک مارکیٹ لیڈر رہا کیونکہ یہ سوراخ شدہ کارڈز ڈیٹا کے
مقناطیسی ذخیرے میں تبدیل ہوئے جبکہ اعداد وشمار کا جائزہ لینے والی مشین
کمپیوٹرز میں۔ یہ کچھ برس پہلے تک بھی دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں سے ایک
تھی۔
|
|
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ڈیٹا کی طاقت کا اندازہ ہولیرتھ کے گاہکوں کو
تھا تو پھر ڈیٹا کی معیشت کی اہمیت کو اجاگر ہونے میں ایک صدی کیوں لگ گئی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ ڈیٹا میں ایک بات نئی ہے جس کے باعث اس کا
موازنہ تیل کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ گوگل اور ایمازون کو ڈیٹا
اکھٹا کرنے کے لیے اہلکاروں کی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔
جب بھی ہم سمارٹ فونز کا استعمال کرتے ہیں تو ہم اپنے متعلق ڈیٹا فراہم
کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر ہم الیکسا سے یہ بھی کہہ دیں کہ بتی جلا دو۔
ان اعداد و شمار کی ویسی ترتیب نہیں ہوتی جیسی مردم شماری میں پوچھے گئے
سوالات کے جوابات کی ہوتی ہے جنھیں ہولیرتھ نے باآسانی کارڈز میں پنچ کر
دیا۔ اس لیے انھیں مفید بنانا مشکل ہے۔ تاہم ان اعدادو شمار کی تعداد اور
اقسام بہت زیادہ ہیں۔
جیسے جیسے ایلگورتھم بہتر ہو رہے ہیں اور زندگیاں انٹرنیٹ پر گزاری جا رہی
ہیں تو ایک زمانے میں بیوروکریٹس کا سب کچھ جاننے کا خواب بڑی تیزی سے
کارپوریٹ دنیا کے لیے ایک حقیقت بن رہا ہے۔
|