|
زیادہ پرانی بات نہیں، پاکستان میں کرکٹ کے بڑے کہہ چکے تھے کہ ملک میں
کرکٹ کا ٹیلنٹ یعنی قدرتی باصلاحیت کھلاڑی نہیں ہیں۔ یا پھر اتنی تعداد میں
تو یقیناً نہیں ہیں جتنا عام طور پر کہا جاتا ہے۔
ان بڑوں میں سابق کپتان انضمام الحق اور شاہد آفریدی کے علاوہ سابق چیئرمین
کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی جیسے نام شامل تھے۔ پھر سنہ 2016 میں فرینچائز کرکٹ
یعنی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی آمد ہوئی۔ لاہور قلندرز کی ٹیم نے
ٹیلنٹ تلاش کرنے کا آغاز کیا۔
لیکن اگر ٹیلنٹ نہیں تھا تو تلاش کسے کرنا تھا؟ لاہور قلندرز نے کیا سوچ کر
یہ قدم اٹھایا؟ چار برس کے بعد اب لاہور قلندرز کا منصوبہ باقاعدہ پلیئر
ڈویلپمنٹ پروگرام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک عارضی اکیڈمی سے وہ ہائی
پرفارمنس سینٹر تک کا سفر طے کر چکے ہیں۔
دائیں ہاتھ کے تیز رفتار بولر حارث رؤف نے حال ہی میں آسٹریلیا کی ٹی 20
لیگ بِگ بیش میں میلبورن سٹارز کی نمائندگی کرتے ہوئے تباہ کن باؤلنگ کی۔
اس میں ایک ہیٹ ٹرک بھی شامل ہے۔
اس کارکردگی کی بنا پر حارث نے بنگلہ دیش کے خلاف حالیہ ٹی 20 سیریز میں
پاکستانی ٹیم میں جگہ بنائی۔
حارث رؤف لاہور قلندرز کے ڈویلپمنٹ پروگرام ہی سے نکلے تھے۔ جب وہ یہاں تھے
تو واپس آسٹریلیا میں ان کے متبادل کے طور پر دلبر حسین کو ٹیم میں شامل
کیا گیا۔
|
|
دلبر حسین بھی لاہور قلندرز کے اسی پروگرام کے ذریعے سامنے آئے تھے۔ حال ہی
میں پاکستان کے دورے پر آئی برطانیہ کی مشہور میری لیبون کرکٹ کلب (ایم سی
سی) کی ٹیم کے خلاف میچ میں لاہور قلندرز کے لیگ سپنر معاذ خان نے اوپننگ
بلے باز کی وکٹ حاصل کی۔
وہ لاہور قلندرز کے ڈویلپمنٹ پروگرام کی دریافت ہیں۔ اس سے قبل دھواں دار
پاکستانی بلے باز فخر زمان بھی لاہور قلندرز کے راستے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ
بن چکے ہیں۔ تاہم اگر ملک میں ٹیلنٹ نہیں تو یہ کھلاڑی کہاں سے آ رہے ہیں
اور لاہور قلندرز ہی کو کیوں مل رہے ہیں؟
تاہم پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لاہور قلندرز کا یہ پلیئر ڈویلپمنٹ
پروگرام آخر ہے کیا؟
پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام میں ٹیلنٹ کیسے
ملتا ہے؟
عاطف رانا لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر ہیں۔ وہ ٹیم کے ڈویلپمنٹ
پروگرام کے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے انتہائی واضح اور جامع منصوبہ بندی
رکھتے ہیں۔
بی بی سی سے ایک حالیہ گفتگو میں عاطف رانا نے بتایا کہ ان کے 'اس پروگرام
میں سفارش اور ذاتی پسند یا ناپسند کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی وہ اس میں
کھلاڑیوں سے کوئی فیس وصول کرتے ہیں۔‘
اس پروگرام کے تحت لاہور قلندرز ملک کے مختلف شہروں میں دو روزہ کیمپ لگاتے
ہیں جہاں سے ٹرائلز کے ذریعے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
16 کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے کر ٹورنامنٹ کروایا جاتا ہے۔
|
|
عاطف رانا کے مطابق اس ٹورنامنٹ کے 15 بہترین منتخب کھلاڑیوں کو آسٹریلیا
بھجوایا جاتا ہے۔ پھر ان میں بہترین کھلاڑی پی ایس ایل میں کھیلتے ہیں۔ جو
کسی وجہ سے نہیں کھیل پاتا، اسے ٹیم کے لاہور میں قائم ہائی پرفارمنس سینٹر
بھیج دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کیسے ملتا تھا؟
پاکستان میں کرکٹ کے دو قسم کے کھلاڑی ہیں۔ ایک وہ جو سسٹم کے اندر ہیں
یعنی جو باقاعدہ طور پر سکول، کالج، کلب سے ہوتے مقامی اور صوبائی سطح کی
ٹیموں کا حصہ بنتے ہیں۔ دوسرے سسٹم کے باہر وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے کبھی
کلب کرکٹ بھی نہیں کھیلی ہوتی۔
پاکستان کو 'سسٹم' کے ذریعے بھی کئی با صلاحیت کھلاڑی مل چکے ہیں تاہم اس
کا اندازہ لگانا اب تک مشکل تھا کہ سسٹم کے باہر باصلاحیت کھلاڑیوں کی
تعداد کتنی بڑی ہو سکتی تھی۔ لاہور قلندرز کا پروگرام ایسے ہی کھلاڑیوں تک
پہنچتا ہے۔
’حارث رؤف سسٹم کا حصہ نہیں تھے‘
وہ کہتے ہیں کہ ’حارث رؤف کی مثال ہمارے ڈویلپمنٹ پروگرام کی بہترین عکاسی
ہے۔‘
’وہ نہ تو سسٹم کا حصہ تھا اور نہ ہی اسے پاکستان کرکٹ نے اپنایا تھا۔'
ان کے مطابق ایسے کھلاڑی کا آسلٹریلیا کے بِگ بیش میں کھیل جانا ان کے
پروگرام کی افادیت اور اہمیت کا ثبوت ہے۔ ’دلبر حیسن نے تو کبھی کلب کرکٹ
بھی نہیں کھیلی تھی۔‘
صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے باجوڑ کے رہائشی معاذ خان نے بھی کبھی بڑے
لیول پر کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ انھوں نے یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے ایک روز خیبر
ایجنسی کے لیے لاہور قلندرز کے ٹرائلز دیے، منتخب ہوئے اور ٹورنامنٹ کے ایک
میچ میں لیگ اسپن کرواتے ہوئے ہیٹ ٹرک داغ دی۔
وہ ان دنوں لاہور قلندرز کے ہائی پرفارمنس سینٹر سے تربیت حاصل کر رہے ہیں
اور ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں بھی تربیت حاصل کر چکے ہیں۔
معاذ خان کہتے ہیں کہ ’میں نے تو کبھی لاہور بھی نہیں دیکھا تھا، لاہور
قلندرز نے مجھے لاہور دکھا دیا۔‘
’میں جب یہاں آیا تھا تو مجھے اردو تک نہیں آتی تھی۔‘
معاذ خان صرف کرکٹ کھیلتے اور ٹریننگ کرتے ہیں۔ انھیں ماہانہ وظیفہ بھی دیا
جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لاہور قلندرز نے ان کو جسمانی اور اعصابی طور پر ایک
مضبوط کھلاڑی بنا دیا ہے۔
مگر کیسے؟
|
|
سسٹم کے باہر سے آنے والے معاذ خان جیسے کھلاڑیوں کی شناخت تو ٹرائلز کے
ذریعے ہو جاتی ہے مگر اس بات کو یقینی کیسے بنایا جاتا ہے کہ ان کی ابتدائی
متاثر کن کارکردگی محض اتفاقیہ نہیں تھی؟ اگر وہ ہیرے ہیں تو ان کی تراش
خراش بھی تو ضروری ہے۔
عاطف رانا کے مطابق ان کا ہائی پرفارمنس سینٹر ان ہی تمام سوالات کا جواب
ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر قسم کا کھلاڑی کرکٹ جاری رکھ سکے اور
اپنی صلاحیت دکھا سکے۔ وہ اس کی وضاحت روایتی سسٹم میں کلب کرکٹ کے طریقہ
کار سے کرتے ہیں۔
’ایک کلب میں جب کوئی بچہ جاتا ہے تو فرض کیا وہ ایک بلے باز ہے۔ اس کو
کتنی گیندیں کھیلنے کو ملتی ہوں گی، 10 یا 20 اور پھر کوچ کہتا ہے چلو دوڑ
لگاؤ۔ اس میں وہ اپنی صلاحیت کہاں سے دکھائے گا یا نشو نما کیسے پائے گا۔‘
بہت سے باصلاحیت کھلاڑی کرکٹ چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی پڑھائی تو کبھی روزگار
کے حصول کی وجہ سے کلب کرکٹ کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔
|
|
’ویڈیو بھیجنے والے کو ہم خود بلا لیتے ہیں‘
لاہور قلندرز کے سی ای او کے مطابق وہ کھلاڑیوں سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔
آسٹریلیا میں ان پر آنے والے تمام تر اخراجات وہ خود برداشت کرتے ہیں اور
کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے تاکہ ان کے گھر کے اخراجات وغیرہ
چل سکیں۔
لاہور میں واقع ان کے سینٹر میں جدید مشینیوں، ٹیکنالوجی اور ماہرین کی مدد
کھلاڑیوں کو ہمہ وقت میسر رہتی ہے۔ انھیں اپنی صلاحیت کو بڑے اسٹیج پر
دکھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔
ان کے پروگرام کا اہم جزو یہ ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کی حق تلافی نہ ہو۔
’اگر پانچ لاکھ لڑکے ہمارے پاس ٹرائلز دینے آتے ہیں تو ایک بھی ایسا نہیں
ہو گا جو یہ کہے کہ اسے دیکھا نہیں گیا۔‘
عاطف رانا کے مطابق اگر انھیں کوئی محض ویڈیو بھی بھیجے اور ان کے ماہرین
کو لگے کہ اس میں صلاحیت ہے تو وہ اپنے خرچ پر اسے لاہور بلوا لیتے ہیں۔ اس
طرز پر ’پردیسی قلندرز‘ کے نام سے ان کا ایک جزو بیرونِ ملک مقیم
پاکستانیوں کے لیے بھی ہے۔
اتنا پیسہ خرچ کر کے لاہور قلندرز کو ملے
گا کیا؟
|
|
عاطف رانا کے خیال میں یہ ’پاکستان اور اس کے نوجوانوں کی خدمت کے ساتھ
ساتھ کاروباری لحاظ سے بھی سود مند ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے لاہور قلندرز کی برانڈ بلڈنگ ہو رہی ہے یعنی ایک
برانڈ کے طور پر اس کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔
’لیگ کرکٹ میں برانڈ بنائے بغیر آپ دیر تک نہیں چل سکتے اور برانڈ 20 دنوں
میں نہیں بن جاتے۔ ساتھ ہی ہم پاکستان کو ایسے باصلاحیت کھلاڑی دے رہے ہیں
جو جب بھی قومی ٹیم کے لیے کھیلیں گے تو ان کی پہچان پاکستان سے ہو گی،
قلندرز سے نہیں۔‘
عاطف رانا کے خیال میں برانڈ بلڈنگ کی طرف ان کے تمام تر اہداف تقریباً
مکمل ہیں، صرف ’ایک ٹورنامنٹ جیتنے کی کمی رہ گئی ہے۔‘
یاد رہے کہ ان کی ٹیم تاحال پاکستان سپر لیگ کے اب تک ہونے والے چاروں
سیزنز میں ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں جا پائی۔
ان کا کہنا تھا کسی بھی کاروباری منصوبہ بندی کو نتائج دینے میں وقت درکار
ہوتا ہے۔
ان کے پروگرام سے زیادہ بولر ہی کیوں نکلتے
ہیں؟
|
|
عاطف رانا اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں تاہم ان کے خیال میں ایک اچھے بولر
کی شناحت اور نشاندہی نسبتاً آسان ہوتی ہے جبکہ ایک بلے باز ایک عملِ مسلسل
کا نتیجہ ہوتا ہے۔
’بلے باز ایسے ہی نہیں بن جاتا۔ اس پر محنت ہوتی ہے۔ اسے مشق چاہیے ہوتی ہے۔
ہم گذشتہ تین سالوں سے ایک بلے باز پر کام کر رہے تھے اور اب وقت آ گیا ہے
کہ ہم اس کو دنیا کے سامنے لائیں۔ ایک سال میں ہم آپ کو ایک نہیں دو بلے
باز دیں گے۔‘
'ہم بھاٹی کو چیلسی بنائیں گے'
عاطف رانا کا استدلال ہے کہ پاکستان انڈیا اور آسٹریلیا انگلینڈ کی کرکٹ
میں رقابت کے بعد شہروں جیسا کہ کراچی، لاہور کے درمیان کرکٹ کی رقابت بہت
سخت ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی سخت رقابت محلوں کے درمیان ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ لاہور میں اس قسم
کی کرکٹ کی رائیولری یا رقابت کو کریں۔ ’ہم بھاٹی کو چیلسی بنائیں گے، ماڈل
ٹاؤن کو مانچسٹر یونائیٹڈ اور گلبرگ کو آرسنل بنائیں گے۔‘
ان کا اشارہ فٹبال کے ان بڑے یورپی کلبوں کی طرف تھا جن کے لاکھوں پرستار
دنیا بھر میں موجود ہیں اور جن کی سالانہ آمدن کروڑوں ڈالرز میں ہوتی ہے۔
’ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ ہم کر سکتے ہیں اگر درست سمت میں کام کیا جائے۔‘
|