دلیری کا نوبل پرائز

اماں! میں بڑی ہو کر گلوکارہ بنوں گی مجھے گانا بہت اچھا لگتا ہے تواماں صدقے وا ری ہو نے کے بجا ئے یقینا ایک دمھو کا پیٹھ پر لگا ئے گی اور ایسے خیا ل سے بھی با ز رہنے کو کہے گی بچی شا کی نظروں سے ماں کو دیکھے گی ا ٓخر اس میں کیا غلط ہے اور پھر ٹیچر ٹیچر یا گھر ،گھروندے کھیلتے بچپن گزار دے گی بڑے ہو نے کے بعد جب کیئریئر سلیکٹ کر نے کا موقع ملے گا تو وہ خود اپنی گلو کا ری کے شوق کو دبا کر رکھے گی اور اگر وہ ایک اپر کلاس انگلش میڈیم لڑکی ہے تو اس کے لئے گلو کا ری سمیت کئی پلیٹ فا رم دستیاب ہوجا ئیں گے ورنہ پا کستا ن میں ہزاروں وا لدین اپنی بچیوں کو ٹیچر یا ڈاکٹر بنا نا چا ہتے ہیں اب کچھ رو شن پہلو معا شرے میں اجاگر ہونا شروع ہوئے ہیں کہ لڑکیاں دیگر شعبوں میں بھی جا رہی ہے مگر قد غن ابھی با قی ہے زنجیر پو ری طرح سے ٹو ٹی نہیں ہے ۔

ہمارے سماج میں ان لڑکیوں کو دلیری کا نوبل پرائز ضرور ملنا چا ہئے جنھیں ایک مخصوص گھٹن زدہ ماحول میں پروان چڑھایا جا تا ہے بے جا پا بندیوں ، بیٹوں کی برتری اور بیٹیوں کی بے توقیری کے ساتھ جب یہ ہوش سنبھالتی ہیں تو اپنی معا شی مجبوریوں کے سہارا بننے کے لئے انہی بیٹیوں کو گھر سے با ہر کام کر نے کے لئے بھیج دیا جا تا ہے معا شی مجبوریوں میں جکڑی لڑکیاں ایسی ملازمت کر نے پر مجبور ہو تی ہیں جنھیں وہ عام حالات میں کبھی نہیں کر نا چا ہیں گی وجہ یہ نہیں کہ وہ محنت سے گھبراتی ہیں بلکہ اس معا شرے میں رہنے والے بیمار ذہنیت مرد ان کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں مگروہ جاب کر نے پر مجبور ہو تی ہیں ان کے لئے آگے کنواں پیچھے کھا ئی والی کہا نی ہے بس ہو سٹس لڑکیاں اس معاملے میں بہت مجبور دکھا ئی دیتی ہیں کام کر نے والی یہ میزبا ن لڑکیاں اسی پس منظر سے آتی ہیں جہاں کے یہ مہمان مسافر ہوتے ہیں میرے خیال میں ان لڑکیوں کو دلیری کا نوبل پرا ئز ضرور ملنا چا ئے کہ جس بہا دری ہمت اور استقامت سے یہ ڈیوٹی نبھا تی ہیں سلام اے لڑکیوں تمھاری ہمت و بہادری پر! اسی طرح ہما رے معا شرے میں نر سنگ کا شعبہ اہمیت کا حا مل ہے یہ دن رات ڈیوٹی کر تی ہیں مر یضوں کی تیما داری میں خلوص دل سے فرض نبھا تی ہیں لیڈیز وارڈمیں تو خیر ہے کہ مریضوں سے ملا قا تی میل حضرات سے صرف نظر کر لیتی ہیں مگر مردانہ وارڈ میں ان کی ملا زمت بہت کھٹن کام ہے وہ جگہ جہاں مریض کے اپنے گھر کی خواتین چند لمحوں کے لئے آتی ہیں اور بعض جگہوں پر تو مرد حضرات انھیں مر یض کو دیکھنے جا نے بھی نہیں دیتے کہ وہاں سا رے مرد ہو تے ہیں یہ خو اتین نر س دن رات خدمت بجا لا تی ہیں سلا م اے حوا کی بیٹیوں ! کال سینٹر میں کام کرنے والی لڑکیوں کو بھی کسی طرح اگنور نہیں کیا جا سکتا یہ بھی دن اور را ت کی شفٹوں میں کا م کر تی ہیں ان کا بھی گندی مرد ذہنیت سے وا سطہ پڑتا ہے کالرز کے ذومعنی جملوں کو بڑے تحمل سے برداشت کر تی ہیں اور شا ئستہ لہجے میں کسٹمرز کے مسئلے کو حل کر نے کی کو شش کر تی ہیں آخر نو کری بھی توکر نی ہے ہمارے ملک میں دوسروں کی معا شی مجبوریوں سے کس طرح لو گ فا ئدہ اٹھا تے ہیں بلبل ہزار دا ستان سے کم نہیں تو سلام اے حوا کی بیٹی اس حوصلے پر! گا رمنٹ فیکٹریوں میں کام کر نے والی لڑکیاں اس استحصال میں کسی طرح کم نہیں ڈیلی ویجیز اور ما ہانہ ملازمت کر نے والی سبھی صنف نا زک کو ہراساں کیا جا تا ہے ان کے ساتھ بلکل مزارع والا سلوک روا رکھا جا تا ہے اپنے ماتحتوں کا حکم نہ ماننے والی با غی لڑکیوں کوملازمت برقرار رکھنا اجیرن بنا دیا جا تا ہے یا تو وہ نو کری چھوڑ دے یا پھر ؟؟؟

وہ سہولتیں اور مرا عات جن پر ملازم کا حق مالکا ن مہیا کرتے ہیں مگر کام کر نے والے ملا زم یہ سہولتیں اپنے مفاد کے مطابق نچلے لیول کودیتے ہیں اس میں کمپنی کے پک اینڈ ڈراپ کر نے والے ڈرائیور سے لے کر سپر وائزراور مینجر تک سبھی شامل ہو تے ہیں ایک سروے کے مطابق پا کستان میں ملازمت کر نے افراد ذہنی بیماریوں کو شکا ر ہو رہے ہیں جس کی وجہ غربت اور دیگر وجوہا ت کے ساتھ ملازمین کے ما حول کا ناسازگار ہونابھی ہے جب مردوں کے لئے اتنی مشکلیں و رکاوٹیں تو ذرا سو چئے خواتین کس طرح یہ جنگ لڑ رہی ہیں اب ان کے لئے دلیری کا نوبل پرائز تو بنتا ہے ناں!
 

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 2 Articles with 1560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.