ہم نشینی اگر کتاب سے ہو!

ہم نشینی اگر کتاب سے ہو!
(ایکسپو سینٹر لاہور میں کتاب میلے کی روداد)
ایک دانشور کاقول ہے :
"Books give a soul to the universe،wings to the mind ،flight to the imagination and life to everything
یعنی کتابیں کائنات میں روح بھرتی ہیں ،ذہن کو پر عطا کرتی ہیں،تخیل کو پرواز اور ہرچیز کو زندگی دیتی ہیں -

حقیقت میں میں کسی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کی بلندئ فکر ،اعلی' کردار اور وسعت قلب سے ہوتا ہے۔کتب بینی نے انسانی شعور کے ارتقاء میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔کسی زمانے میں درختوں کی چھال پہ لکھا جاتا تھا۔پھر یہ فن کاغذ پہ منتقل ہوااور اب تو ای بکس کا دور آگیا ہے ۔اس کے باوجود قلم و قرطاس کی عظمت واہمیت اب بھی باقی ہے۔مشہور مقولہ ہے :
"Readers are the Leaders!"
پڑھنے والے ہی رہنما بنتے ہیں ۔

یہ بات سو فیصد سچ ہے ۔جس قوم میں مطالعہ کا ذوق وشوق ہو اور لائبریریاں آباد ہوں تو وہاں تہذیب و تمدن کو بھی استحکام حاصل ہوتا ہے ۔کتاب وہ ذریعہ ہے جو اسلاف کی علمی وادبی وراثت ،اقداروروایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا سبب ہے۔ان تمام اصولوں کی حقانیت ہم پہ اور بھی واضح ہوئ جب ہم نے ایکسپو سینٹر لاہور کے پانچ روزہ بک فئر میں "حریم_ادب"کا گلرنگ گلابی سٹال لگایا۔حریم_ادب خواتین کی ایک ادبی واصلاحی انجمن ہے جس کا مقصد قلمکار خواتین کی رہنمائ اور معاشرے میں صالح ادب کی تخلیق وترویج ہے۔اس کے تحت بہت سی سرگرمیاں کروائ جاتی ہیں مثلا" ٹریننگ ورکشاپس ،ادبی نشستیں ،علمی کانفرنسز ،مشاعرے ،مقابلہ مضمون نویسی وافسانہ نگاری اور کتابوں کی اشاعت وغیرہ۔چنانچہ جب ایکسپو سینٹر میں "حریم ادب "کا بک سٹال لگانے کے لئے ہماری ٹیم وہاں پہنچی تو ایک پرامن ،علم دوست ماحول اور پڑھے لکھے طبقات کی آمدورفت بہت تسلی اور سکون کا باعث بنی کہ ٹچ اسکرین کے اس دور میں
~ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں!

جو کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں اور اچھی خوبصورت کتابیں حاصل کرنے کی خاطر وقت نکال کر آۓ ہیں۔ان میں زیادہ تعداد اساتذہ کرام اور والدین کی تھی جوبچوں اورنوجوانوں کی تربیت کی فکر کرتے ہوۓ ایک سٹال سے دوسرے سٹال کا دورہ کر رہے تھے۔جبکہ لڑکیوں اور خواتین کا قانتہ رابعہ ،ذروہ احسن،اور بنت الاسلام کی کتابیں اور ناول خریدنے پہ رش رہا۔بزرگ افراد قرآن و سنت اور حج سے متعلقہ کتب کی فرمائش کرتے رہے ۔کئ سکولز نے اپنے طلباء و طالبات کو یہاں تعلیمی دورہ کروایا۔حریم_ادب نے ان بچوں کے لئے کچھ ایکٹیویٹیز کا اہتمام کر رکھا تھا جن میں کوئز ،مختلف تعلیمی وادبی سوالات ،شعر مکمل کریں اور کہانی لکھیں جیسی سرگرمیاں شامل تھیں۔بچوں نے بہت دلچسپی سے ان سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔جیتنے والے بچوں کو جب ڈائری ،قلم اور رسالوں کے انعامات ملے تو ان کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔کتاب میلے میں امجد اسلام امجد اور قاسم علی شاہ کی شرکت نے مذید رونق بخشی۔کئ صحافیوں اور ٹی وی رپورٹرز نے بھی کتاب میلے کا دورہ کیا ۔ان میں روزنامہ مشرق کی فریحہ احمد،سماء ٹی وی کی تہمینہ احمد،دنیا نیوز کے طارق حبیب اور الفلاح ٹی وی کے رپورٹر شامل تھے۔مصنفین میں عبیداللہ کیہر ،عمران ظہور غازی اور فرزانہ چیمہ نے ہمارے سٹال کا دورہ کیا۔انکے علاوہ کئ ادبی شخصیات ،ایجوکیشنسٹ اور سوشل ورکرز بھی کتابوں میں دلچسپی لیتے رہے۔حریم ادب کے سٹال پہ خواتین والنٹئرز کی صبح وشام دو شفٹوں میں ڈیوٹی تھی جو انھوں نے یکجان ہوکر ٹیم ورک کی صورت میں عمدگی سے ادا کی۔ایکسپو سینٹر کا ایکٹیویٹی ایریا Libfal بھی پانچوں دن مسلسل مصروف رہا۔ ہم نے بھی حریم ادب کی جانب سے ایک خوبصورت ادبی نشست بعنوان "سجائ ہے ہم نے محفل رنگوں کی چہارسو" کا اہتمام کیا تھا۔اس کی روح _رواں محترمہ عالیہ شمیم بطور خاص کراچی سے تشریف لائ تھیں اور اس تقریب کی میزبان تھیں۔ان کے ساتھ مدیرہ ماہنامہ چمن _بتول صائمہ اسماء ،قلمکار آسیہ راشد ،ایگزیکٹو ممبر زرافشاں فرحین ،راقمہ عصمت اسامہ سیکرٹری حریم ادب ،نزہت وسیم شاعرہ ،مدیرہ پکار ملت سمیہ احمد اور ادیبہ صبیحہ نے کتاب دوستی کی اہمیت وضرورت اور ادب کے انسانی معاشرے میں کردار پہ روشنی ڈالی ۔ادبی نشست میں حریم ادب کے مجلے کی تقریب رونمائ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ سٹال کی نگران شاذیہ عبدالقادر نے بھی اپنی محنت سے کام کا حق خوب ادا کیا جبکہ انکے ساتھ گروپ انچارج خالدہ سلیم اور لاہور حریم ادب کی نگران شاہدہ اقبال بھی مستعدی سے پانچوں دن مصروف عمل رہیں۔صدر حریم ادب عالیہ شمیم نے ایکسپو سینٹر کی تمام انتظامیہ خصوصا"فاروق بھٹی صاحب کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس خوبصورت تقریب کا موقع فراہم کیا۔

کتاب میلے اور لائبریریاں ،بچوں اور نوجوانوں کے علمی ،تحقیقی اور ادبی ذوق کو نکھارنے کا اہم ذریعہ ہیں اور قومی تہذیب واخلاق کی نشونما میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن روزافزوں مہنگائ نے اس کو مشکل بنادیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قلم و قرطاس کو مہنگائ سے بچایا جاۓ اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائ کی جاۓ تاکہ معیاری ادب کی تخلیق اور کتب تک رسائ آسان ہوسکے۔ایک اہم بات یہ کہ بچوں کے لئے معیاری ادب خصوصا"انگریزی ادب بہت کم لکھا جاتا ہے ۔اس طرف مصنفین کو توجہ دینی چاہئیے کہ ہماری آئندہ نسل ہمارے علمی ورثے سے محروم نہ رہ جاۓ۔کتابیں لکھنا اور پڑھنا موجودہ دور کے ایک اہم مسئلہ ڈیپریشن کا علاج بھی ہے۔

موجودہ دور میں خواتین قلمکار اور ادیبات نہ صرف معاشرے کے علم وشعور کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں بلکہ خواتین کے مسائل اور انکو درپیش چیلنجز کے حل سے بھی روشناس کرواسکتی ہیں۔عورت صنف نازک اور لطیف احساسات کی حامل ہوتی ہے لیکن جب یہ نظریاتی طور پر مضبوط ہوتو تہذیبوں کا ستون ثابت ہوتی ہے ۔ادب کا مثالی نظریہ بھی یہی ہے کہ ادب براۓ زندگی ہو اور زندگی ،بے بندگی و شرمندگی کے راستے پہ نہ جانے پاۓ! -
~ایک چراغ ،ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے!