’’اف…… کام کر کر کے دماغ تھک گیا، طبیعت بوجھل ہو گئی۔
چلو فیس بک پر چلیں، ٹوئٹر کا رخ کریں، لنکڈان کی نگری میں قدم رکھیں اور
دل بہلائیں، ذہن کو تازگی بخشیں، طبیعت کا بوجھل پن دور کریں۔‘‘
یہی سوج کر لوگ دن میں بار بار یاکبھی ایک ہی مرتبہ ان ویب سائٹس یا ان
جیسے دوسری سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا در کھٹکٹاتے ہیں، دروازہ کھلتا ہے اور
پھر وہ اس الف لیلوی محل میں داخل ہو کر اس کی راہ داریوں میں یوں کھو جاتے
ہیں کہ واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہ سفر جو دل و دماغ کو تازگی بخشنے
اور طبیعت کی بحالی کے لیے کیا جاتا ہے، مسافر کو نفسیاتی پیچیدگیوں کے
گھنیرے جنگ میں بھی لے جا سکتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہتے، محققین نے تحقیق کے
بعد انکشاف کیاہے کہ فیس بک اور دیگر سماجی ویب سائٹس اپنے استعما ل کرنے
والوں کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہو سکتی ہیں اور انہیں استعمال کرتے رہنے کے
باعث یوزرنفسیاتی امراض جیسے وسوسوں اور فریب خیال کا شکارہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ پروفریسر یوری نتزان او ران کی ٹیم
کی تحقیق کے مطابق کمپیوٹر کمیونیکیشن جیسے فیس بک کا استعمال اور انٹرنیٹ
چیٹنگ کے گروپس اس کی تحقیق کا اہم ترین حصہ ہیں۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ اس
حوالے سے نفسیاتی امراض کا شکار ہونے والوں میں اہم ترین علامت یہ ہوتی ہے
کہ اگرکسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ یا چیٹنگ گروپ میں جذباتی سطح پر ان سے بہت
قریب آ جانے والاشخص اگر ان سے بچھڑ جائے اور اس سے رابطہ ٹوٹ جائے تو وہ
تنہائی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ تحقیقی مطالعہ بتاتا ہے کہ زیرمطالعہ آنے والے تمام افراد میں پیدا ہونے
والی علامات اور اثرات میں رفتہ رفتہ شدت آنے او ران کے کمپیوٹر کمیونیکیشن
کا استعمال بڑھنے میں ربط موجود ہے۔ ان اثرات میں فریب خیال یا کسی مغالطے
اور وسوسے میں مبتلا ہو جانا، اضطراب اور ذہنی خلفشار شامل ہیں۔
محققین کی اس ٹیم کے سربراہ یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ اچھی بات یہ ہے کہ ان
نفسیاتی مسائل میں مبتلا وہ افراد (جو تحقیقی عمل میں زیرمطالعہ آئے) جنہوں
نے اپنی مرضی سے علاج کروایا ،ان نفسیاتی مسائل سے مکمل طور پر نجات حاصل
کرنے میں کامیاب ہوگئے جن کا وہ شکار ہوگئے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ فیس
بک او ردیگر سماجی ویب سائٹس خاص طور پران افراد کے لیے نقصان کا باعث بن
رہی ہیں جو تنہائی اور عدم تحفظ کے احساس سے دوچارہوں۔ایسے میں
cyber-bullying او رکوئی بھی تکلیف دینے اور اذیت پہنچانے والا عمل انہیں
نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر سکتا ہے۔
محققین کی اس ٹیم کے سربراہ یوری نتزان کا کہنا ہے کہ سوشل ویب سائٹس او
رچیٹنگ گروپس پر قائم ہونے والے تعلقات اگرچہ اپنی ابتداء میں مثبت اور خوش
کن ہوتے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل دکھانے والے رویے، بے وفائی
اور اس جیسے دوسرے عوامل تعلقات کے ساتھ ان سے وابستہ یوزرز کو بھی شدید
متاثر کرتے ہیں۔ زیرمطالعہ آنے والے مریضوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ
کمپیوٹر کمیونیکشن کے ذریعے تعلق قائم کرنے والے فرد کے حوالے سے فریب خیال
او رمغالطوں کا شکار ہو گئے۔ یہ تحقیقی مطالعہ بتاتاہے کہ نفسیاتی مسائل کا
شکار ہونے والے افراد اپنے بارے میں معلومات سوشل ویب سائٹ پرشیئر کرنے کے
بعد خودکو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے تھے۔ ان میں سے ایک تو فریب خیال کے اس
درجے تک پہنچ گیا تھا کہ اسے محسوس ہوتا تھا کہ کمپیوٹر اسکرین کے اس طرف
موجود شخص جو اس سے رابطے میں ہے اسے چھو رہاہے۔
اس تحقیق کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق کہہ رہے ہیں کہ فیس بک سمیت سوشل
ویب سائٹس کا غیرمتوازن استعمال کر کے ہم نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے
ہیں اس طرح سماجی رابطوں کے لیے وجو دمیں آنے والی یہ ویب سائٹس ہماری نجی
اور سماجی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں لہٰذا ان کے استعمال میں
توازن کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ایک دوسری تحقیق کے مطابق
فیس بک کا استعمال کرنے والے لوگ زیادہ دکھی اور تنہائی پسند ہو جاتے ہیں
اس نئی ہونے والی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے سماجی ویب سائٹ استعمال کرنے والے
افراد جن میں خاص طور خواہش شامل ہیں وہ زیادہ دکھی اور تنہائی پسند ہو
جاتے ہیں۔جرمنی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق فیس بک استعمال کرنے والے میں
دوسروں کی نسبت زیادہ پریشان، تنہائی پسند، عداوت، حسد او رجلن جیسے منفی
جذبات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ تحقیق دانوں نے بتایاکہ فیس بک استعمال کرنے
والوں کو اکثر اپنے دوستوں کی تفریحی مقامات کی تصاویر سے جلن محسوس ہوتی
ہے جہاں ان کا دوست بے فکری سے چھٹیاں گزارتا نظرآ رہا ہو او روہ خودکو لگی
بندھی زندگی کا پابند پاتا ہے۔ تحقیق میں فیس بک استعمال کرنے والے ۶۰۰
افراد کو شامل کیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سماجی ویب سائٹس تعلقات بنانے والے جذبات کے اظہار
کا بھی ذریعہ ہیں۔ زندگی کی شادمانیاں، غم، کرب، اذیتیں، حسرتیں، سرور اور
پریشانیوں ہوں یا اپنے اردگرد ہونے والے کسی واقعے پر دل ودما غ میں جنم
لینے والا ردعمل سوشل میڈیا سے وابستہ افراد عموماً اپنی کیفیات کو تحریری
اور تصویری پوسٹس او رکمنٹس وغیرہ کی صورت میں ویب سائٹس کی دیواروں پرلے
آتے ہیں۔ گویا سوشل میڈیا جذبات او راحساسات کے اظہار کی ایک دنیا ہے مگر
اس دنیا میں مسرت سے مہکتے اور پیار محبت پر مبنی جذبات کے بجائے غصے اور
برہمی کا اظہار کرتے کمنٹس کو کہیں زیادہ پذیرائی ملتی ہے
حال ہی میں محققین کی ایک ٹیم نے سوشل میڈیا پر جذبات کے اظہار اور پذیرائی
کے حوالے سے تحقیق کی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے چین کی سب سے بڑی
میکروبلاگنگ سائٹ ’’وائیبو‘‘ پر آنے والے مختلف پیغامات کا تفصیل کے ساتھ
جائزہ لیا۔ اپنے تحقیقی عمل کے دوران انہوں نے اس ویب سائٹ پر موجود
پیغامات کو برہمی، اداسی، بیزاری اور شادمانی کی کیفیات ظاہر کرتے پیغامات
میں تقسیم کیا۔
’’وائبیو‘‘ کے پیغامات کو بنیاد بنا کر کی جانے والی یہ تحقیق چھے ماہ تک
جاری رہی جس کے دوران اس ویب سائٹ سے وابستہ دو لاکھ افراد کے سات کروڑ
پیغامات کا جائزہ لیاگیا۔ محققین نے اس جائزے میں اس نکتے پرخاص طور پر
توجہ دی کہ کسی صارف کے پوسٹ کیے ہوئے پیغام کے دیگر کتنے لوگ آگے بڑھاتے
ہیں۔
عرق ریزی سے کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق سوشل ویب سائٹس پر برہمی کا
اظہار کرتے پیغامات، برہمی کا اظہار کرتے پیغامات، کمنٹنس، پوسٹس یا ٹوئٹس
دیگر جذبات، احساسات اور کیفیا ت پر مبنی پیغامات وغیرہ کے مقابلے میں کہیں
زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔
یہ تحقیق بتاتی ہے کہ سماجی ویب سائٹس استعمال کرنے والوں پر غصے پرمبنی
پیغامات کا دیگر کیفیات ظاہر کرتے پیغامات کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر
ہوتا ہے چنانچہ وہ اس نوعیت کے پیغامات کے کہیں زیادہ تیزی سے تبادلہ کرتے
اور انہیں آگے بڑھاتے ہیں۔اس رویے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ویب
سائٹس کے استعمال کنندہ ایسے پیغامات اپنے ہی دوستوں میں شیئر کرتے ہیں او
ران کے دوستوں کا مزاج بھی ان سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔
اس ضمن میں چین کے دارالحکومت بیجنگ کی بیہنگ یونیورسٹی کے متعلقہ ماہرین
کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوشل ویب سائٹس پر
سامنے والے پیغامات او رمعلومات کس طرح دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہوئے تیزی
سے پھیلتی ہیں۔
محققین کی اس تحقیق میں شامل پروفیسر کے ہوکا کہنا ہے کہ (دیگر سوشل ویب
سائٹس سے وابستہ افرا دکے رویے سے قطع نظر) ویب سائٹ وائیبو کے استعمال
کرنیوالوں میں غصے سے بھرے پیغامات کو پھیلانے کا رجحان زیادہ ہے۔ تاہم وہ
کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ سماجی ویب سائٹس سے وابستہ لوگ اشتعال پر
مبنی پوسٹس کو زیادہ پھیلاتے ہیں؟ اس کے مقابلے میں خوشی، محبت، مزاح کے
جذبات اور کیفیات ظاہر کرتے کم نسبتاً کم شیئر کیوں کیا جاتے ہے؟ شاید اس
کی وجہ یہ ہے کہ برہمی اور اشتعال وہ کیفیات اور جذبات ہیں جوفوری اظہار
چاہتے ہیں اسی لیے کسی بھی حوالے سے سامنے آنے والی غصے پر مبنی پوسٹ اس
حوالے سے یکساں جذبات رکھنے والوں کی فوری توجہ کا باعث بنتی ہیں اور انہیں
تیزی سے آگے بڑھایاجاتا ہے۔ اس معاملے کی حقیقت کیا ہے اور ایسا کیوں ہوتا
ہے۔ تاہم اس سوال کا صحیح جواب محققین کی تحقیقی کاوشیں ہی دے سکتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل ویب سائٹس لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی
ہیں جن سے منسلک رہتے ہوئے یوزرزایک دوسرے سے رابط رکھتے اور خیالا ت کا
تبادلہ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ سائٹ اپنے
استعمال کرنے والوں میں منفی رجحانات جنم دینے اور ایسے رجحانات کے فروغ کا
باعث بن رہی ہیں۔
حال ہی میں ایک ماہرسماجیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی
ویب سائٹس کے ذریعے ایسے ہی رجحانات کے فروغ کے باعث عام لوگوں کی سطح پر
عالمگیر ہسٹیریا جنم لینے کا خدشہ پیداہوگیا ہے۔
نیوزی لینڈ کے شہرآکلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر سماجیات Robert
Bartholomew نے اس حوالے سے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ کہاہے کہ سوشل میڈیا
دنیا کو ایک ہسٹیریاکی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ ویسے ہی صورتحال ہے جیسی
امریکا کی ریاست میساچیوسٹس کے شہر سلیم میں سولہویں صدی میں پیدا ہوئی تھی
جب بیس افرا دکو جادو ٹوٹنا کرنے کے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔
رابرٹ برتھولومیو نے متنبہ کیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس عالمی سطح پر
اپنی اثرات بڑھاتے ہوئے دنیا کو سماجی اور معاشی حوالے سے نقصان پہنچا سکتی
ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی ویب سائٹس کے اثرات کی وجہ سے ہونے والی ہلچل
کے باعث گزشتہ چند سال کے اندر مختلف قسم کے مسائل پھوٹ پڑے ہیں جیسے ذہنی
دباؤ سے دوچار کرنے والے نفسیاتی عوامل، ذہنی صدمہ اور ہیجان وغیرہ۔ یہ سب
لوگوں میں coversion disorder سے شروع ہوا ہے جسے عام فہم زبان میں ہسٹیریا
کہا جاتا ہے گویا یہ ویب سائٹس لوگوں میں جنون پھیلا رہی ہیں۔
رابرٹ برتھولومیو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے اثرات سے پیدا ہونے والی یہ
علا مات چھوت کی بیماری کی شکل اختیار کر گئی او راسی طرح پھیل رہی ہیں۔ یہ
دراصل mass psychogenic illness یا عوام الناس کو ایک ساتھ متاثر کرتی
نفسیاتی بیماری ہے جسے تاریخی طور پر ہسٹیریا کا نام دیا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس
سے پہلے کے سوشل میڈیا کے منفی اثرات ماس ہسٹیریا میں تبدیل ہو جائیں ہمیں
سمجھنا ہو گا کہ سوشل میڈیا کس طرح ہسٹیریا کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا
ہے۔
|