ہمارے اداروں میں کام کو سمجھنے اور اس کی انجام دہی
کرنے والے لوگ تقریباً بیس فیصدیا اس سے کم ہیں۔ باقی اسّی فیصد تنخواہیں
بٹورنے والے ہیں ۔ ان میں ایسے چالاک افراد بھی شامل ہیں جواپنا کام خود
نہیں کرتے بلکہاپنے آپ کو ایساظاہر کرتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں آتا لہٰذا
ادارے کا کام اُن بیس فیصد لوگوں کے سر ڈال دیتے ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے
یہ سلسلہ دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے تدریسی اور
غیر تدریسی عملے میں بیس اور اسّی کا یہی تناسب دیکھا۔ اس کے علاوہ جس
معاشرتی ادارے سے واسطہ پڑا وہاں یہی حال کار فرما دیکھا اور تاحال صورت
حال جوں کی توں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی ہر ملازم ایک ہی
گن گاتا نظرآتا ہے کہ وہ نہایت ایمانداری ، محنت اور جان فشانی سے اس لئے
کام کرتا ہے کہ حلال رزق ملے جس سے وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ
پالے اور اﷲ معاف کرے کہ وہ اوپر کی آمدن کا تصور تک ہی نہیں کر سکتا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاک وطن نے پچھلے باہتر برسوں میں اپنے اداروں کی ترقی
کی بجائے تنزلی دیکھی ہے اور آج ہمارے اداروں کی ایسی حالت بن چکی ہے کہ
وہاں کے تمام کام عدالتوں میں انصاف کی دستک دے رہے ہیں۔ ایک دن کی اخبار
سے لئے گئے ایسے واقعات ملاحظہ ہوں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر
من اﷲ نے کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات کے لئے دو درخواستوں پر سماعت کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جب بنگلہ دیش ، انڈیا اور دیگر
ممالک اپنے شہریوں کو واپس بلا سکتے ہیں تو پاکستان نے اَب تک کوئی اقدامات
کیوں نہیں کئے۔ چیف جسٹس نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ عدالت کی معاونت کی
جائے کہ چین سے بچے واپس لانے اور باقی پاکستانیوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔
بعدازاں عدالت نے وزارت خارجہ کو اس سلسلے میں فوکل پرسن متعین کرنے کا حکم
دیا۔ گزشتہ دنوں حج پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اس کے خلاف خاتون وکیل زرمینہ
کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ جمع کروائی گئی جس میں انہو نے مؤقف
اختیار کیا کہ پرائیویٹ حج کوٹہ ختم کیا جائے کیوں کہ پرائیویٹ ٹور
آپریٹروں نے حج کو ایک منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی
کورٹ وقار احمد سیٹھ نے رٹ سماعت کے لئے منظور کی اور وفاقی حکومت سے جواب
طلب کرلیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے لیویز اہلکاروں کو پنشن ادائیگی نہ کرنے کے
خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر سیکرٹری ہوم ، سیکرٹری فنانس اور ڈی
سی اورکزئی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم
کے حوالے سے ایک عدالتی کاروائی میں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے بیرون ملک
سکالر شپ کی ادائیگی سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درامد نہ ہونے پر
سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ صدارتی حکم نامے سے منظور
شدہ نیب آردیننس 2019 ء کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ اس ضمن
میں دائر رٹ پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سیکشن ٹو سی میں ترمیم سے
ملک بھر سمیت خیبر پختون خوا میں میگا پروجیکٹس بس رپیڈ ٹرانزٹ ( بی آر ٹی
) اور مالم جبہ سیکنڈلز وغیرہ کو نہ صرف تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ
حکومت اپنے چہیتوں اور منظور نظر افراد کو کلیئر کرنا چاہتی ہے۔ خیال رہے
کہ حکومت نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 ء کی
منظور دی تھی جس کے تحت اَب نیب کاروباری افرادکے معاملات میں مداخلت کا
مجاز نہیں ہوگا۔ اسی حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں ایک تقریب
کے دوران کاروباری شخصیات کو یقین دلایا تھا کہ ایک نئے آرڈیننس کے ذریعے
بزنس کمیونٹی کو کو نیب سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اگست 2019 ء میں خیبرپختون
خوا پبلک سروس کمیشن نے دوسو چار پرنسپل اور وائس پرنسپل کی تعیناتی کے لئے
اپنی سفارشات حکومت کو دی تھیں لیکن تاحال محکمہ ابتدئی و ثانوی تعلیم کی
جانب سے ان اُمیدواروں کی مختلف سکولوں میں تعیناتی کا معاملہ کھٹائی کا
شکار ہے۔ جس کا عذر سکولوں میں آسامیوں کا خالی نہ ہونے کا پیش کیا جارہا
ہے۔ اَب یہ اُمیدار قانونی صلاح و مشورے کررہے ہیں اور اُن کی جانب سے جلد
عدالت سے رجوع کیا جانے کا امکان ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان
میڈیکل کمیشن کے قیام اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل( پی ایم ڈی سی )
کو تحلیل کرنے کا صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار دے کر پی ایم ڈی سی کے
ملازمین کو بحال کردیا ہے۔خیال رہے کہ بیس اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف
علوی نے آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا تھا۔ اس فیصلے
پر ادارے کے ملازمین ، میڈیکل کے طلباء اور دیگر افراد کی جانب سے شدید
تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس آرڈیننس کے خلاف پی ایم ڈی سی کے
ملازمین نے عدالت سے رجوع کیا اور جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے 43 صفحات
پر مشتمل فیصلے میں پی ایم ڈی سی کے احکامات صادر فرمائے۔ ان تمام واقعات
سے یہ بات واضح ہے کہ ہمارے ادارے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں اور ساری
اُمیدیں عدالتوں سے وابستہ ہوتی جارہی ہیں۔ پس حکومت کی اولین ذمہ داری یہ
بنتی ہے کہ وطن عزیز کے اداروں کو مستحکم اور مضبوط بنایا جائے۔
|