تقدیر کے قاضی کا یہ فیصلہ ہے ازل سے

 یہ 1973کی بات ہے، عرب ، اسرائیل کے درمیان جنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے ،امریکہ کا ایک سینیٹر جو کانگرس کے اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا ، اسرائیل پہنچا، اسرائیل کے وزیراعظم گولڈا میئر نے ایک گھریلو عورت کی طرح اس کا استقبال کیا اور اسے کیچن میں لے جا کر ایک چھوٹی سی ڈائینیگ ٹیبل کے قریب کرسی پر بٹھاکر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں بیٹھ گئی اور واشنگٹن سے آنے والے مہمان کے ساتھ طیاروں، میزائیلوں اور توپوں کی خریداری کیحوالے سے مذکرات شروع کر دئیے، ابھیی سودے بازی شروع تھی کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی ،وہ گفتگو ادھوری چھوڑ کر اٹھی اور چائے دو پیالوں میں انڈیلی ۔ایک پیالی سینیٹر کے سامنے رکھی اور دوسری دروازے پر کھڑے امریکی گارڈ کر تھما دی پھر دوبارہ میز پر آبیٹھی اور امریکی سینیٹر سے محوِ گفتگو ہو گئی۔

چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں ۔اس دوران گولڈا مئیر اٹھی ، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ’’ مجھے یہ سودا منظور ہے آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھیجوا دیجئے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے اس سودے کو رّد کر دیا ،گولڈا میئر نے کابینہ کا موقف سنا اور جوابا کہا ’’ آپ کا خدشہ درست ہے ،لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی فاتح قرار دیتی ہے ، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور رازانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔۔۔جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائیندے نے گولڈامئیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا ’’ امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی ، وہ فورا آپ کے ذہن میں آئی یا پہلے سے حکمتِ عملی تیار کر رکھی تھی ‘‘ گو لڈا میئر نے جو جواب دیا ، وہ تمام مسلمانوں خصوصا ہمارے لئے چونکا دینے والا ہے ۔وہ بولی ’’ میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں یعنی مسلمانوں کے آخری نبیﷺ سے لیا تھا ، میں جب طالبہ تھی اور اس کے بعد معلمہ بنی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا انہی دنوں میں نے حضرت محمد ﷺ کی سوانح حیات پڑھی ، اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب حضرت محمد ﷺ کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے ۔ لہذاان کی اہلیہ (حضرت عائشہ رضی اﷲ و عنہا نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا لیکن اس وقت بھی حضرت محمد ﷺ کے حجرے کی دیواروں پر سات یا نو تلواریں لٹک رہی تھیں لیکن انہیں رہن نہیں رکھا گیا تھا۔۔۔۔‘‘ گولڈا مئیر نے مزید کہا کہ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو سوچا ‘‘ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہونگے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح بنے ، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے ۔۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے ، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے ، تو بھی اسلحہ خریدیں گے ۔ گولڈا میئر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا مگر ساتھ ہی انٹرویو لینے والے سے درخواست کی کہ اس کے انکشاف کو ’’آف دی ریکارڈ ‘‘ رکھا جائے۔ کیونکہ نبی آخر الزمان ﷺ کا نام لینے سے جہاں اس کی یہودی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے ، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملی گی ۔‘‘

قارئین ! لکھتے لکھتے تاریخ کا ایک اور عبرتناک منظر آنکھوں کے سامنے آرہا ہے، بغداد کا مسلمان حکمران ’مستعصم باﷲ‘ شکست کھا کر آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، کھانے کا وقت آتا ہے، ہلاکوخان سادہ برتن میں کھانا کھاتا ہے اور خلیفہ کے سامنے کھانے کے لئے سونے کے ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے جاتے ہیں ، بغداد کا تاجدار بے بسی و بے چارگی کا تصویر بنے بولتا ہے ’’ حضور ! میں سونا کیسے کھاوٗں ؟ ہلاکو خان نے فورا کہا ، ’ پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا ؟

پھر ہلاکوخان نے مستعصم باﷲ کو مخصوص لباس پہنا کر گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روند ڈالا اور بغداد کو قبرستان بنا ڈالا ۔۔۔۔

آج وطنِ عزیز میں کئی نا عاقبت اندیش لوگ دفاع کے لئے مختص فنڈ پر اعتراض کرتے ہیں،ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ سوچیں ، غور کریں کہ ان کا کہنا بجا ہے یا حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ کہنا درست ہے کہ ،، ’’ تقدیر کے قاضی کا یہ فیصلہ ہے ازل سے۔۔۔۔ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ‘‘

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284369 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More