بولنے والے گونگے (قسط 3)

میں ایک مرتبہ ایک یونیورسٹی میں کسی کے ایڈمیشن کے حوالے سے گیاہواتھا۔وہاں جتنے بھی فارم جمع کروانے والے تھے۔وہ اس قدرہیجانی کیفیت سے گزررہے تھے گویا بہت بڑاپہاڑ ان پر گِرایا ان کا فہم سلب ہوگیاہے ۔فارم کو فِل کروانے کے لیے باربار کسی نہ کسی کے پاس جاکر مدد طلب کررہے تھے ۔بعض ایسے احباب بھی بیٹھے تھے جنھوں نے کہاکہ فارم فِل کرنے کے پیسے طلب کررہے تھے ۔

اس اضطرابی کیفیت کی بنیادی وجہ ان لوگوں کا انگریزی فارم دیکھ کر گھبراجانا۔اسی طرح میں نے اپنے کرکٹ کھلاڑیوں کو بھی دیکھا کہ جب انھیں مین آف دی میچ کے لیے بلوایاجاتاتھا تو ان کے پسینے چھوٹ جاتے تھے ۔گویا بہت عمدہ بات کہنے پر قدرت رکھنے کے باوجود گونگے بنے رہے ۔پھر پوری طاقت ہمارے معاشرے نے انگریزی سیکھنے پر لگادی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ میں نے ایک دن چھوٹے بھائی کو موبائل نمبر بولاکہ زیرتین سے چھیالیس تو بھائی نے پوچھا یہ چھیالیس کیا ہوتاہے تو مجھے احساس ہواکہ معاشرے میں سنے والے بہرے اور بولنے والے گونگے جنم لے رہے ہیں ۔اردو کا آج یہ حال ہوگیاہے کہ ٹی وی چینل پر خبریں اور تبصرہ کرنے والوں کی اردو جب سنتاہوں تو سر جھک جاتاہے ۔اس قدر اردو کے ساتھ اپنوں کی زیادتی افسوس کے سوا اور کیا کہاجائے ۔خیر قارئین۔ہم نے عزم کیا ہے کہ آپ کو اردو سیکھا چھوڑیں گے ۔

قارئین:ہم روز مرّہ کی گفتگو میں ہم کئی جملے فن کے اعتبار سے غلط بولتے چلے جارہے ہوتے ہیں ۔حالانکہ کہ ان کی درستگی کی حاجت ہر لمحہ رہتی ہے ۔۔۔اس کی مثال ایک جملے سے سمجھئے !!!

عموماً کہا جاتا ہے: مجھے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے لیے کافی انتظار کرنا پڑا!!!!لیکن درست جملہ یوں ہوگا: مجھے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے لیے خاصا انتظار کرنا پڑا!!!اس لیے کہ: کافی کا مطلب ہوتا ہے کفایت کرنے والا، جو ضرورت کے مطابق ہو، لہذا اس لفظ کو زیادہ کے معنی میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔اس کے بجائے، بہت، زیادہ، خاصا جیسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔جو کہ درست ہیں ۔۔

اردو زبان میں متعدد زبانوں کے الفاظ مروج ہیں جن کی صوتیات خاصی متنوع ہیں۔ اس کے حروف تہجی میں ملتی جلتی آوازوں والے حروف بھی شامل ہیں۔ اگر پوری طرح شناسائی نہ ہو اور چھان بین نہ کی گئی ہو تو الفاظ لکھتے وقت غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

جن الفاظ میں ’ز‘ یا ’ذ‘ کا استعمال ہوتا ہے، اکثر لوگ وہ الفاظ لکھتے وقت غلطی کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ’کاغذ۔‘ اس لفظ میں اکثر اوقات لوگ ’ذ‘ کی جگہ ’ز‘ لگا دیتے ہیں۔ اس سے لفظ بولنے میں فرق کاپتہ نہیں چلتا لیکن لکھنے میں غلطی ہوجاتی ہے اور لفظ کا طرز بدل جاتا ہے۔

قارئین :
ایک اورمثال ’نذر‘ اور ’نظر‘ کی ہے۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں اور ان کے معنی بھی مختلف ہیں۔ لیکن اکثر لوگ جو الفاظ کی صحیح شناسائی نہیں رکھتے وہ ان دو لفظوں میں غلطی کر جاتے ہیں۔ اور لکھتے ہوئے کوئی غلط لفظ لگا کر جملے کے معنی ہی تبدیل کر جاتے ہیں۔لفظ ’بالکل‘ بھی اسی طرح کاایک لفظ ہے جس کو اکثر لوگ غلط لکھ دیتے ہیں۔ اس لفظ میں ب کے بعد الف لکھا جاتا ہے لیکن پڑھتے یا بولتے وقت الف کی آواز نہیں پڑھی جاتی۔ اسی لیے اکثر لوگ ’ بالکل ‘ کو ’بلکل‘ لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے۔اسی طرح سے لفظ بین الاقوامی ہے۔ یہاں بیچ والا الف اکثر حذف ہو جاتا ہے اور یہ لفظ بین القوامی دیکھنے میں آتا ہے جو غلط ہے۔

امید ہے کہ ہماری اردو زبان کی خدمت کے حوالے سے کوشش آپ کو پسند آئی ہوگی ۔اپنی زبان سے پیار کریں ۔اپنی زبان میں فخر سے گفتگو کریں ۔یہ زبان ہماری پہچان ہے ۔اپنی پہچان ہرگز مسخ نہ ہونے دیں ۔۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593955 views i am scholar.serve the humainbeing... View More