بین الاقوامی سطح پر جیسے جیسے سماج اور معاشرے میں
ناانصافی،حق تلفی، غربت و افلاس اور بے روزگاری بڑھی، ویسے ویسے انسانی
اقدار پر یقین رکھنے والوں کی فکر مندی بڑھتی گئی۔ اسی فکر مندی کو اقوام
متحدہ تک پہنچایا گیا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عالمی سطح
پر ہو رہی سماجی انصافیوں کے تدارک کے لئے کوئی دن مقرر کرے کہ اس دن عالمی
سطح پر یکساں انصاف فراہم کئے جانے پر غور و فکر کرتے ہوئے لائحہ عمل تیار
کیا جائے اور اقوام متحدہ کے تمام ممبران کی اس جانب خصوصی طور توجہ مبذول
کرایا جائے۔ اسی مقصد کے تحت نومبر 2007 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں ایک اہم قرار داد منطور کرتے ہوئے ہر سال 20 ؍ فروری کو باقاعدہ طور پر
عالمی سطح پرعالمی یوم سماجی انصاف کے انعقاد کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا
اور 20فروری2009 ء کو پہلی باراس کا انعقاد کر پوری عالمی برادری کو ایک
مثبت پیغام دینے کی اقوام متحدہ نے کوشش کی ۔ جس کے نتیجے میں اب ہر سال
غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع فراہم کئے جانے اور عالمی سطح پر بنیادی
حقوق سے محروم لوگوں کو سماجی انصاف کے اقدامات کو لازمی کئے جانے پر زور
دیا گیا ۔
اس طرح دیکھا جائے اقوام متحدہ کی غریبوں اور امیروں کے لئے یکساں سماجی
انصاف کے لئے عالمی سطح پر سماجی انصاف کا یوم منانے کی یہ کوشش زیادہ طویل
نہیں ہے، لیکن ہم اس تلخ حقائق سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اقوام متحدہ
کی معاشرے میں بڑھتی سماجی ناانصافیوں ، بے روزگاری اور افلاس کے خلاف کی
جانے والی کوششوں کو کامیابی ملنے کی بجائے عالمی سطح پر سماجی نابرابری کی
خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2019 ء میں اقوام متحدہ نے عالمی یوم
سماجی انصاف کے موقع پر جو تھیم دیا تھا ، وہ تھا۔
" If you want peace and development ,work for social justice "
اب اس تناظر میں ہم اپنے ملک کے گزشتہ سال سے اس سال تک کے منظر نامے پر
ایک طائرانہ نظر ڈالیں ، تو ہمیں نہ صرف بے حد مایوسی ہوگی بلکہ بہت زیادہ
افسوس بھی ہوگا کہ ملک کے حکمرانوں نے ملک کی ترقی و فلاح و بہبود اور امن
و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے سماجی ناانصافیوں سے پریشان حال لوگوں کے
ایسے مسئلے کے تدارک کے لئے کسی طرح کے اقدامات اور تدابیر کئے ہوں ، بلکہ
حقیقت تو یہ ہے پورے ملک میں اقوام متحدہ کی ان کوششوں اور تدارک کئے جانے
کے بر خلاف بر سر اقتدار حکمرانوں نے ظلم و زیادتی، ناانصافی،مذہب ، ذات
پات کی تفریق، رنگ و نسل کے درمیان خلیج بڑھانے نیز کروڑوں روزگار مہیا
کرائے جانے کے بر خلاف سرکاری کمپنیوں کو کوڑی کے مول اپنے خاص صنعت کاروں
کے ہاتھوں فروخت کر، ان شعبوں میں کام کر رہے لوگوں کو بے روزگار کیا گیا
اور مسلسل کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں ایسے بے روزگار ہونے والے لوگ اپنی
بیوی ، بچوں سمیت خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان بے
روزگاری کی مسلسل مار جھیلنے کے بعد یہ لوگ یا تو خود کشی کر رہے ہیں یا
پھر غلط راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کسانوں کی حالت دن بدن بد
سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ، ان کی آمدنی دوگنا تو ہونا دور ، ان کی آمدنی ہی
ختم کر دی گئی ، جس کے باعث کسانوں کی خود کشی اب اس ملک میں عام بات ہو کر
رہ گئی ہے ۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بنیادی ضرورتوں کا پورا ہونا
مشکل ہو رہا ہے ، نتیجے میں کم آمدنی والے لوگوں کو بھی خودسوزی میں ہی
عافیت نظر آ رہی ہے ۔ یہ تمام سلسلہ ختم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا ہی جا
رہا ہے۔ بعض ملکوں میں بعض اوقات کچھ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ حکومت
کی ایسی کمیوں کے تدارک کی تمام کوششیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں ۔ مثلاََ ملک
پر کسی دوسرے ملک نے حملہ کر دیا ، پٹرول ڈیزل کی قیمت عالمی بازار میں
بڑھنے کی بجائے ملک پر بھی منفی اثر پڑا، جس کی وجہ کر ملک میں مہنگائی و
بے روزگاری بڑھ گئی ۔ جس کے باعث حکومت اپنے عوام کی پریشانیوں سے پریشان
نظر آتی ہے۔ لیکن اس وقت بھارت میں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ حکومت
ان پریشانیوں کو دور کئے جانے کی کوشش تو دور مزید کس طرح پریشان کیا جائے،
اس فکر میں حکومت ہے ۔
اس طرح دیکھا جائے تو بھارت میں مسلسل سماجی انصاف کا خون ہو رہا ہے ، اور
اس ہوتے ہو ئے سماجی نا انصافیوں کے خلاف تادیبی کاروائی کئے جانے کی بجائے
حکومت نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ ایسے ناپسندیدہ عناصر جو
سماجی نا انصافیوں کو اپنی تحریروں، تقریروں،مباحثوں نیز عملی کوششوں سے
فروغ دے رہے ہیں،ان کی ہمت افزائی بھی کی جا رہی ہے ۔ سب سے بڑا المیہ تو
یہ ہے کہ ملک کے انصاف کے مندر یعنی عدلیہ سے بھی انصاف ملنا اب مشکل ہوتا
نظر آ رہا ہے ۔ اگر عدلیہ سے انساف ہی ملتا تو پھر عدلیہ کے باہر احتجاج و
مظاہروں کا سلسلہ دراز کیوں ہاتا ۔ عدلیہ میں انصاف کرنے والی کرسیوں کی
خرید و فروخت عام بات ہو گئی ہے۔ انصاف دینے والوں کو گورنری، ترقی یا پھر
روپئے کا لالچ دے کر اپنے من مطابق فیصلے صادر کرا ئے جا رہے ہیں ۔ ورنہ
کوئی وجہ نہیں کہ ڈاکٹر کفیل خاں جیسا شخص جو لوگوں کی ڈوبتی سانس کے وقت
آس بن جاتا ہے ، جو سیلاب زدہ علاقے میں پانی میں ڈوب کر مریضوں کا علاج
کرتا ہو ، وہ بے گناہی کی سزا میں جیل میں رہے ۔زنا بالجبر جس لڑکی کا ہو ،
وہ جیل میں ہے اور زانی کی چند ماہ کے بعد ہی قید سے رہائی ہوتی ہے تو اسے
سلامی دی جاتی ہے اور خوشی میں مٹھائیاں تقسیم ہو تی ہیں ۔ جس لڑکی کا زنا
ہو تا ہے ، اس کا باپ پولیس کے پاس انصاف مانگنے جاتا ہے تو پولیس والے رات
بھر بے رحمی سے اتنا پیٹتے ہیں کہ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ ابھی ابھی
گجرات کی ایک نچلی عدالت کے دو ججوں ،اے ڈی اچاریہ اور پی ڈی انعامدار کو
گجرات ہائی کورٹ نے واپی عدالت میں پوسٹنگ کے دوران ایک معاملے میں کئے گئے
فیصلے کے لئے روپئے لئے جانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔اب ذرا تصور
کیجئے کہ جب عدالتوں میں ، روپئے، پروموشن اور گورنر بنائے جانے کے زیر اثر
فیصلے ہونے لگیں ،تو پھر انصاف کہاں اور کس طرح ملے گا ۔ اس ملک میں سماجی
انصاف کا یہ عالم ہے کہ دبے کچلے غریب ، نادار لوگ مندر کے دروازے پر نہیں
بیٹھ سکتے، شادی کے موقع پر بھی مندر میں پوجا نہیں کر سکتے، ان کے نل کے
پانی کے چھینٹے کسی اونچی ذات والے پر پڑ جائے تو اس کی جان لینے میں بھی
کو ئی عار نہیں ۔ انتہا تو یہ ہے کہ ایک طرف اقوام متحدہ یوم سماجی انصاف
کے موقع پر غربت اور بے روزگاری کے خاتمہ کی تاکید کرتا ہے ، وہیں اس اقوام
متحدہ کا ممبر بھارت گجرات میں چند گھنٹوں کے لئے دورہ کرنے والے رونالڈ
ٹرمپ کی آنکھوں سے غربت اور غریب کو چھپانے کے لئے نہ صرف اونچی اور لمبی
دیوار چُن دی گئی ہے بلکہ یہاں پربسنے والے جھگی جھونپڑیوں میں کسی طرح تڑپ
ٹرپ کر زندگی گزارنے والوں کو یہاں سے منتقل ہونے تک کی نوٹس جاری کی گئی
ہے ۔گجرات میں ایک طرف غربت و افلاس کا یہ حال ہے اور یہاں کے وزیر اعلیٰ
191 کرور روپئے کا ہوائی جہاز سیر و تفریح کے لئے خرید رہے ہیں ۔ ان حالات
میں ملک کے اندر بنیادی ضرورتوں کو پورا کئے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا
سکتا ہے۔یوں تو اس وقت پورے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور
المیہ یہ ہے کہ سماجی نا انصافیوں کے خلاف بولنے، لکھنے والوں کو غدار وطن
کہہ کر انھیں اذیت دی جا رہی ہے اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ۔
آج کے عالمی یوم سماجی انصاف کے موقع پر ان کشمیریوں پر مسلسل ہورہے ظلم و
بربریت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں گزشتہ اگست ماہ سے غیر
انسانی سلوک اور نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی تمام تر آزادی ،
انسانی حقوق کو سلب کر لیا گیا ہے۔ یہاں کی انسانی بدحالی کو دیکھنے کے لئے
حکومت اپنی پسند کے لوگوں کو کشمیر لے جاتی ہے۔ لیکن کوئی آزادانہ طور پر
کشمیر جانا چاہتا ہے ،تو اس پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ابھی ابھی برطانیہ کے
لیبر پارٹی کی ممبر پارلیامنٹ دیببی ابراہمس ،جو کہ وہاں کشمیر پینل کی
ممبر ہیں ، وہ جب آزادانہ طور پر کشمیر جانے کے لئے دلی ہوائی اڈے پر اتریں
، تو انھیں نہ صرف کشمیر جانے سے روک دیا گیا بلکہ دلی ایئر پورٹ سے ذلیل
کر واپس ہو جانے پر مجبور کیا گیا ۔ کسی بھی معاشرے میں سماجی انصاف اور
سماجی برابری کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور جن ممالک میں ان بنیادی حقوق پر
توجہ دی جاتی ہے ، وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ لیکن اس ملک میں
ان دنوں ہر طرح سے انسانی رشتوں کو ختم کر منافرت کو سیاسی مفادات کے لئے
فروغ دیا جا رہا ہے ۔ مختلف طبقاتی نظام ،معاشرے میں انصاف اور انسانی
اقدار کو ختم کر دینے کے درپئے پئے ہے۔ جن کے تدارک کی کوئی کوشش حکومت کی
جانب سے ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ عالمی یوم سماجی انصاف اس بات پر بھی زور
دیتا ہے کہ انسانی تاریخ فلاحی معاشرہ کے قیام اور تمام انسانوں کو یکساں
حقوق حاصل ہو۔ لیکن افسوس کہ ان تمام باتوں پر سیاسی مفادات کو ترجیح دیا
جا رہا ہے ۔ جو کہ ملک کے مفاد میں ہے نہ ہی یہاں کی عوام کے مفاد میں ۔
اقوام متحدہ نے عالمی یوم سماجی انصاف کا انعقاد 20 فروری 2020 ء کو اپنے
ہیڈ کوارٹر کے کانفرنس روم نمبر 5 میں بوقت صبح دس بجے سے بارہ بجے دن رکھا
ہے اوراپنے تمام ممبران کو اس عالمی مسئلہ کے تدارک کے لئے مدعو کیا ہے کہ
مباحثہ کے دوران بین الاقوامی سطح پر مسلسل ہو رہی سماجی و معاشرتی نا
انصافیوں کے خلاف لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔ اس کے لئے اس سال کا تھیم رکھا
گیا ہے۔
" Closing the inequalities gap to achieve social justice" یعنی معاشرتی
انصاف کے حصول کے لئے عدم مساوات کا خاتمہ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اقوام متحدہ
کی سال کی اس تھیم پر ہمارا ملک کس قدر عمل کرتا ہے ۔
|