کچرا چننے والے سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے تک کے سفر کی کہانی۔۔۔لاہور کا ایک ایسا بچہ جس نے غربت کو شکست دے ڈالی

image


صبح کی اذان کے ساتھ جبکہ بچے اپنے نرم گرم بستروں پر سو رہے ہوتے ہیں اور ان کی مائیں کچن میں ان کی پسند کے ناشتے تیار کر رہی ہوتی ہیں- ایسے گھروں میں لاہور کا ایک ایسا گھر بھی تھا جہاں پر ایک معصوم بچہ اپنی ماں کے بستر چھوڑنے سے بھی پہلے جاگ جاتا تھا اور منہ پر پانی کے چند چھپاکے مار کر کاندھوں پر خالی بوری لے کر کچرہ چننے نکل جاتا تھا۔

صابر نامی اس بچے کا تعلق ایک خانہ بدوش گھرانے سے تھا جو کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا تھا- اس کے والدین نے پاکستان آکر اسلام قبول کر لیا تھا مگر پھر بھی ان کو نیچ ذات کا ہی تصور کیا جاتا تھا -
 

image


اس کی ماں ایک جمعدارن تھی جب کہ اس کے باپ کی گدھا گاڑی تھی جس پر وہ کچرہ اٹھایا کرتا تھا اس کے نو بہن بھائی تھے اتنے بڑے گھر کے افراد کے اخراجات پورے کرنے اس کے ماں باپ کی قلیل آمدنی میں ممکن نہ تھا- اس لیے اس کو بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے کچرا چننے کا کام کرنا پڑتا تھا-

وہ کچرے کے ڈھیر سے گتے ، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر کارآمد اشیا چنا کرتا تھا- اس کے پڑھائی کے شوق کے سبب اس نے اپنا نام ایک سرکاری اسکول میں درج کروا لیا تھا جس کی شدید ترین مخالفت اس کے اپنے ماں باپ نے کی تھی کیوںکہ وہ اس کی آمدنی میں کمی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے- جس کے سبب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسکول جانے سے قبل صبح پانچ بجے جاگ کر پہلے کچرا چنے گا اس کے بعد وہ اسکول کے ٹائم پر اپنی تعلیم حاری رکھے گا-
 

image


صابر کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ اس کو اپنے اسکول کے ساتھیوں کی جانب سے شدید ترین مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا یہاں تک کہ اس کو خود بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پاس سے ایسی بدبو آتی ہے کہ کوئی بھی اس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا-

اسکول سے واپس آنے کے بعد وہ ٹھنڈا پانی بیچنے اور ابلے ہوئے انڈے بیچنے کا کام بھی کرتا تھا تاکہ گھر والوں کے اخراجات کی تکمیل ہو سکے اس کے بعد رات کے اندھیرے میں موم بتی کی روشنی میں وہ اپنی پڑھائی کرتا کیوں کہ اس کے گھر میں بجلی کی کوئی سہولت موجود نہ تھی-
 

image


سرکاری اسکول سے دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد بھی اس نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو رکنے نہ دیا یہاں تک کہ پاکستان چارٹرڈانسٹیٹوٹ آف مینجمنٹ اکاؤنٹنٹ سے اس نے گریجویشن کا امتحان پاس کر لیا-

2007 کے بعد سے صابر نے اپنے علاقے اور لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنا شروع کیا اور انہوں نے اپنے علاقے کے دو بڑے مسائل کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی- جن میں سے ایک تو تعلیم تھی جس کی اس جیسے علاقے کے بچوں کو بہت ضرورت تھی اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اس علاقے کے لوگوں کا بیت الخلا کی غیر موجودگی تھی- جس کے لیے صابر نے ایسے علاقوں میں موبائل بیت الخلا بنانے کا آغاز کیا اور ان موبائل بیت الخلا کے ذریعے انسانی فضلے کو کارآمد بنا کر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو انہی لوگوں کی بہبود کے لیے استعمال کرنے کا بیڑہ اٹھایا-
 

image


اپنے اس سوشل ورک کے سلسلے میں انہیں امریکہ کے ایک پروگرام کے تحت امریکہ جانے کا بھی موقع ملا جہاں انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور واپس پاکستان آکر انہوں نے سلم آباد کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا- جس کی بنیاد پر پاکستان کے ایسے لوگوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کا معیار زندگی تیسرے درجے کا ہے-

صابر کی کہانی پاکستان کے ان تمام لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو کہ حالات کا رونا رو کر چپ بیٹھ جاتے ہیں- ان کو صابر کی زندگی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انسان اگر کرنا چاہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے-

YOU MAY ALSO LIKE: