وہ کالی رات

یہ 1999 کی بات ہے جب میرے شوہر کی حالت بے حد خراب ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ اور آس پاس کالا اندھیرا تھا، پورا شہر تاریکی میں جیسے ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔بارش کی آواز اور آندھی کی شائے شائے میری سکون کو اور بھی ہیبت میں ڈال رہی تھی۔رات کے قریباً ڈھائی کا وقت ہوگا جب ارشاد کی حالت خراب ہوگئی چند ماہ قبل انھیں فالج کا، آٹیک ہوا، تھا اور ان کے جسم کا، آدھا حصہ مفلوج ہوگیا تھا، ایسے میں اگر میں بھی ہمت ہار جاتی تو، ہمارے بچوں کو کون سنبھا لتا، کیونکہ ہمارے ساس سسر دوسرے شہر میں رہائش پذیر تھے۔۔۔ہم ٹھرے لاہور کے مقیم وہ کہتے ہے نہ اللہ نہ کرے جب اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش آتی ہے ایسے میں آپ کے کام کوئی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔

حالانکہ ہمارے شہر کے رہنے والے تمام ہی لوگ بہت اچھے ہیں، مگر اللہ برے وقت سے بچائے ۔۔۔جب بُرا وقت آن پڑے۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں سہارا صرف "رب کی ذات ہوتی ہے، اس کے علاوہ بے شک کوئی دوسرا مددگار ہے بھی نہیں ".....

مجھے کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ایسے میں کیا کروں کس کو پکاروں اگلی جو صبح طلوع ہونے کے لیے بے چین تھی وہ اتوار روز تھا مگر اد پہر تو، بس میں نے چاہا کہی سے اللہ کی بندے کی مدد آجائے مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔پھر میں نے سیاہ اندھیری رات میں چھتری لیے۔۔۔لال سفید جوڑے میں بھاگنا، شروع کر دیا کہ شاید کہی سے اللہ کا بندہ نظر، آجائے مگر نہیں کوئی آدم ذات نظر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔

اب حالت یہ تھی خود اپنی جسمانی صورتحال خراب سی لگ رہی تھی شدید سردی سے دانت بج رہے تھے۔دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔مگر مجھے اپنی فکر نہیں تھی اپنے بچوں کے سایہ دار درخت اور اس کی چھاؤں کی فکر تھی کہ انھیں کچھ نہ ہو۔ورنہ ہمارا کیا ہوگا۔ایک شادی شدہ عورت مرد کے بغیر ادھوری ہوجاتی ہے۔۔۔۔میں نے دل ہی دل میں اللہ کے نام کا ورد جاری کر دیا۔۔۔مجھے نہیں معلوم اس کی کیا، تعداد ہوگی کہ اچانک سڑک کے کنارے ایک بزرگ کو پاہ کر ایسے لگا جیسے جو جسم سے روح میری پرواز ہونے والی تھی دوبارہ واپس آگئی، اُنھوں نے مجھے خود ہی آواز دی اور میں دوڑتے ہوئے اُن کے پاس چلی گئی انھوں نے کہاں سامنے جو گھر نظر آرہا ہے وہ میرا، ایک بیٹا ہے اُسے بُلا، لاؤ میں ان سے سوال کرنے کے لئے لب کھول رہی تھی اُنھوں نے کہاں سوال نہ کر بیٹا جا اور میرے بیٹے زوہیب کو بلا لاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بلا کر لائی اس بچے نے بھی کچھ نہیں کہاں وہ تقریباً 16 سے17 سال کا، رہا، ہوگا اس نے اپنے والد محترم کے کہنے پر میرے ساتھ چلنے کا، فیصلہ کیا۔اور میں کچھ سوچے سمجھے اس کے ساتھ اس ہی رکشہ میں اپنے شوہر کو، سوار ہوکر چل دی۔۔۔۔۔،دل میں رب کی ذات کا بے حد شکر، ادا کرتی رہی واقعی تو ہی مدد گار ہے ایسے کالے اندھیری رات میں تو نے کس، طرح میری مدد کی کیسے ایک اجنبی انسان کو میرے لیے وسیلہ بنادیا۔ہاسپٹل پہنچنے پر معلوم ہوا کے میڈیسن کی ری ایشن کے سبب حالت زار کیفیت نما ہوئی ۔پھر جب ان کی ڈرپ تبدیل ہونے کے بعد ہم ڈاکٹر کے ہدایت کے مطابق واپس اپنے محلے میں آگئے۔۔۔۔۔۔۔

اُن بزرگ نے بس ایک بات کہی بیٹا یہ جو مدد ہے یہ بھی ایک قسم کا، صدقہ جاریہ ہے، کل تم کسی کو، تکلیف میں پاؤ نہ تو، ضرور مدد کرنا اُس دن تمھارا یہ قرض اور مدد پوری ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک چھوٹی سی نیکی جہاں میں پہلے گی۔
 

Tabinda Jabeen
About the Author: Tabinda Jabeen Read More Articles by Tabinda Jabeen: 16 Articles with 16370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.