کیا ہم آزاد ہیں ؟

کیا ہم آزاد ہیں ؟ با حیثیت لڑکی یہ سوال ہم دن میں کئی با رسنتے ہیں کہ کیا ہم آ زاد ہیں ، نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں اور کس طرح ہم لڑکیاں اپنے آپ کو آ زاد کر سکتی ہیں ۔ نظریہ آزادی ہر فرد کا دوسرے فرد سے بلکل مختلف ہے۔ ہمارے معاشرے کی کچھ لڑکیاں اس آزادی پر ہی خوش ہیں جتنی ان کو حاصل ہے مثال کے طور پر اچھی تعلیم کا حصول ، اپنے حق کے لیے بولنے کی آزادی کا ہونا وہ ان سب کو مکمل آ زادی تصور کر لیتی ہیں لیکن کچھ اس سے بہت زیادہ چاہتی ہیں ان کا آ زادی کا نظریہ بلکل مختلف ہے۔ہمارے معاشرے میں جب بھی آزادی کا ذکر آ تا ہے تو ہم مغرب کی آ زادی کو مثال بنا کر سامنے رکھ دیتے ہیں اور صرف یہ ہی سمجھتے ہیں کہ آزادی کی بہتریں مثال تو مغربی معاشرہ ہی ہے۔ ہم مشرقی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی یہ ہی کوشش کرتے ہیں کے ہم کسی بھی طرح مغرب کی طرح آ زاد ہو جا ئیں ۔ مغرب کی ہر عورت دن رات اسی کوشش میں لگی رہتی ہے کہ وہ کسی طرح مکمل طور پر آ زاد ہو جائے اور مشرق کی ہرعورت اس کوشش میں لگی رہتی ہے کہ وہ کسی طرح بھی مغرب کی طرح آزاد ہو جائے۔یعنی ہمارے مشرقی معاشرے کی ہر عورت صرف مغربی معاشرے کی نقالی کرنے میں لگی رہتی ہیں اس بات پر غور کرے بغیر کہ جب ہم اپنی تہذیب کو بھول کر مغرب کی تہذیب کو اپنائیں گے تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے اور مغرب جو اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد تصور کرتا ہے آزاد ہونے کی بعد وہ کس حال میں ہے۔
مغرب اور مشرق دو علیحدہ معاشرے ہیں دونوں کے نظریہ آزادی بلکل مختلف ہے ۔ ۱۸ صدی میں مغرب نے اپنا نظریہ آزادی بلکل بدل دیا پہلے جومعاشرہ will of Godپر چلتا تھا یعنی صرف وہ ہی کام کرنے کی آزادی تھی جو دین کی طرف سے جائز تھا بعد میں بدل کر وہ will of human پر آگیا یعنی صرف وہ کام کرو جس کو تم جائز سمجھتے ہو۔ مغرب کے نامور فلسفی بھی اس نظریہ کی حمایت کرتے رہے جس میں اہم نام Isiah Berlin کا ہے جس نے آ زادی کا باقائدہ ایک نظریہ پیش کیا جس کے مطابق ہر انسان آزاد ہے۔ Isiah کے مطابق انسان کو تین جگہ مکمل آزادی ہونی چاہئے اسکی زندگی کے فیصلوں میں ، معاشرے میں اور وہ زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اسکی زندگی کا مقصد کیا ہے۔اس نظریہ کے بعد مغرب کا ہر فرد مکمل ت طور پر آزا د ہے خاص طور سے عورتیں اسی لیے وہ آ زادی کے نام پر مردوں کے شانہ باشانہ کھڑی ہیں۔

مشرق کی ہر عورت مغرب کی نقالی کرنے لگی ہیں ۔ ہمارا معاشرہ جو ابھی تک will of Godپر چل رہا ہے اس میں اب will of human کا نظریہ شامل کیا جارہا ہے۔ مشرق کی ہر وعورت اپنی تہذیب بھول بھال کر مغربی تہذیب اپنانے کی کوششوں میں ہے اور حال کچھ اس طرح کا ہے کہ ــــ’’ کوا چلا ہنس کی چال،اپنی چال بھول گیا․؛

ہم نے مغرب کی طرح روشن خیال بننے کی ہر حد تک کوشش کری ہے ۔ مغرب میں تحریک نسواں کو دیکھ کر ہمارے ہاں بھی تحریک نسواں نے جنم لیا۔ ہماری عورتیں بھی ہر وہ کام کرنا چاہ رہی ہیں جو مغرب کی عورتیں کر رہی ہیں۔ مغرب جب will of human میں تبدیل ہوگیا تو عورتوں کا کردار بھی گھر سے باہر ہوگیا کیونکہ عورت اگر گھر میں ہے تو اس کو بے کار تصور کیا جانے لگا کیونکہ وہ سرمایہ پیدا نہیں کر سکتی اور کچھ مردوں کی برابری کے چکروں میں بھی عورتیں گھر سے باہر نکل کر کام کرنے لگی۔ مغرب کی دیکھا دیکھی ہماری عورتیں بھی گھر سے باہر نکل کر مردوں کے ساتھ کام کرنے لگی۔ اسلام میں عورتوں کا کردار گھر کے اندر ہے ان کے اپر لازم ہے کہ وہ گھر مین رہ کر شوہر کی خدمت کرے جبکہ مردوں پر لازم ہے کہ وہ باہر سے کما کر اپنی بیوی کے لیے لائیں ۔ ہم نے آزاد ہونے کے چکر میں اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ ہمارے معاشرے میں جو عورت گھر کے اندر ہے اس کو زیادہ عزت حاصل ہے ناکہ اس عورت کو جو باہر کام کرتی ہو ۔ مغرب میں عورتوں پر زیادہ ذمے داری بڑھ گئی وہ گھر سے باہر بھی کام کرتی ہے اور اندر بھی جبکہ ہمیں صرف گھر کے اندر کام کرنا تھا لیکن ہم خود ہی باہر نکل گئیں۔
مشرق کی عورتوں کا مثلہ یے ہے کہ وہ آزادی مغرب والی چاہتی ہیں اور حقوق سارے مشرق والے انھیں مردوں کی برابری بھی کرنی ہے اور لائن میں سب سے آگے بھی لگنا ہے۔ حقوق کے نام پر جائیداد کا مطالبہ بھی کرتی ہیں اور یہ نہیں دیکھتی کہ جن سے متاثر ہوکر وہ یہ سب کر رہی ہیں وہ تو یہ بھی حق نہیں رکھتی کیونکہ وہاں سب برابر ہیں کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں۔

مغرب میں عورتیں گھر سے باہر نکلیں تو مثلہ آیا کہ اب بچوں کی تربیت کون کرے گا اور بزورگوں کی کون خدمت کرے گا اس لیے وہاں پر day care center or old houses قائم کرے گئے ۔ اسی طرح مشرق میں بھی یے ہی سلسلہ چل پڑایہاں کی عورتیں بھی گھروں سے باہر نکلی تو یہاں بھی day care center or old housesقائم ہوگئے۔ مغرب میں مصروفیت کی وجہ سے والدین نے بچوں کو day care میں ڈال دیا اور جب وہ ہی بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے ماں باپ کو old houseمیں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے مغرب میں لوگ ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ کوئی رشتہ ان کے پاس نہیں ہوتا ۔ آج جو ہم ماں اور باپ کا دن مناتے ہیں وہ بھی ان ہی آزاد لوگوں کا دن ہے ۔ مغربی حکومت نے اولاد پر لازم کیا کہ کم سے کم ایک دن تو جاکر وہ ماں باپ سے مل لیں ۔

مغرب کی عورتوں نے آزادی کے نام پر کپڑے اتار دیے تو ہمیں حجاب اور عبایا جو ہماری حفاظت کرتا ہے وہ بھی آزادی کے نام پر رکاوٹ لگنے لگا ہے۔ جن کو ہم آزاد کہتے ہیں وہاں کے ایک سروے میں عورتوں کا کہنا تھا کہ ان کے کپڑوں کی وجہ سے ان کو جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں کی ہر عورت کو اپنی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے وہاں ان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔

اب فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم آزاد ہیں ؟ ہم آزاد ہوئے بغیر اچھے ہیں یا آزاد ہوکر اچھے ہیں۔ ہم مردوں سے ایک قدم پیچھے اچھے ہیں یا ان کے ساتھ کھڑے اچھے ہیں۔

 

Areeba siddiqui
About the Author: Areeba siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.