اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَ بِا
لْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا
حکم دیتا ہے۔یہ حسن سلوک کس قسم کا ہونا چاہیے ، اس کی اللہ تعالیٰ نے
قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر تشریح بھی فرمائی ہے کہ تمہارے سامنے جب
تمہارے ماں باپ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تو
تم ان کے ساتھ نرمی ، شفقت اور محبت نیز درگزر کا سلوک کیا کرو اور انہیں
کسی قسم کی تکلیف نہ دو حتیٰ کہ اگر تمہارے مزاج کے خلاف بھی کوئی بات یا
کام وہ کر دیں تو ان کو اف تک نہ کہو بلکہ اپنی رحمت کے پروں میں ان کو اسی
طرح چھپاؤ جسطرح وہ تمہیں چھپایا کرتے تھے ۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے یہ
دعا سکھائی کہ: رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا
کہ اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے اس وقت مجھ پر رحم
فرماتے ہوئے میری ربوبیت کی تھی جب میں چھوٹا اور بے طاقت تھا گویا اللہ
تعالیٰ نے اپنی صفت ربوبیت کا مظہر اس دنیا میں والدین کو بنا دیا ہے ۔
جناب والا !والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کی وضاحت احادیث نبویہ میں
بڑے شاندار طریق پر ملتی ہے ماں اور باپ دونوں کی الگ الگ فضیلت بیان ہوئی
ہے اور ایسی اعلیٰ تعلیم ان کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے دی کہ کسی اور مذہب
میں اس جیسی تعلیم کہیں نہیں ملتی۔ فرمایا : اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ
الْاُمَّھَاتِ کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی
رضا کی جنتوں کے وارث بننا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ ماں کی اطاعت اور خدمت
سے ہی یہ مقام حاصل کر سکو گے۔ ماں کے مقام کی وضاحت اس طرح بھی آئی ہے کہ
ایک موقع پر ایک صحابی ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری خدمت کا سب سے
زیادہ حق دار کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں ۔ پھر پوچھا کہ پھر کون ؟
فرمایا :: تمہاری ماں ۔ تیسری بار پوچھنے پر بھی فرمایا کہ تمہاری ماں
تمہاری خدمت کی سب سے زیادہ حقدار ہے۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا کہ
تیرا باپ! معزز حاضرین !بچہ تو ماں کی ایک رات کا احسان بھی نہیں اتار سکتا
کجا یہ کہ وہ ان کے کسی بھی احسان کا بدلہ چکانے کا دعویٰ کریں اسی لئے
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی تاکہ ہم ان کے احسانات کا بدلہ اسطرح
اتارنے کے قابل ہو سکیں کہ اللہ تعالیٰ سے ان کیلئے رحمت اور شفقت کی دعا
کریں :
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا
باپ کے بارے میں فرمایا کہ:سَخْطُ الْوَالِدِ سَخْطُ اللہِ کہ باپ کی
ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے ،
پھر احادیث میں آتا ہے کہ تین لوگوں کی دعائیں خاص طورپر قبولیت پاتی ہیں
ایک باپ کی اپنے بیٹے کے حق میں دعا ، دوسرے مسافر کی دعا اور تیسرے مظلوم
کی دعا۔ اس لئے ہمیں اپنے ماں باپ کی دعا ئیں لینی چاہئیں ۔
اللہ تعالیٰ نے بڑا اعلیٰ اور حسین نظام ہمیں عطا فرمایا ہے کہ ماں باپ کو
معلوم بھی نہیں ہوتا کہ بچوں نے بڑے ہو کر ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے
آیا ہمارے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے یا ہمارے ہی دست نگر بن کر رہنا ہے یا
بڑھاپے میں بھی تنگی کا باعث ہی بننا ہے ۔ بجائے ہمیں کھلانے کے ہمارے لئے
تنگی کا سبب ہونا ہے، ان سب باتوں کے باوجود ان سے بے نیاز وہ اپنے بچے کی
اعلیٰ سے اعلیٰ رنگ میں پرورش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے کھانے ، پہناوے
، غرض ہر ایک ضرورت کے مطابق اس کی آسائش کا خیال رکھتے ہیں۔ اس لئے بچوں
کو ہمیشہ اپنے والدین کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان سے حسن سلوک بھی کرنا
چاہئے
جناب والا! یورپی معاشرے نے والدین کی قدر نہیں کی کہ ساری عمر ان کی کمائی
کھا کر جب ان کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کو اس بڑھاپے کےعالم میں old
houses میں جا کر چھوڑ آتے ہیں اور بعد میں ان کی خبر نہیں لیتے۔ اور ان
سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام
میں یہ بات رکھی کہ بڑھاپے میں والدین کی خدمت کر کے جنت کمائی جاسکے۔
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بڑا ہی بد بخت ہے وہ انسان جس نے اپنے بوڑھے
ماں باپ میں سے دونوں کو یا دونوں میں سے ایک کو پایا اور پھر ان کی خدمت
نہ کر کے جنت نہ کما سکا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے محروم رہا۔ پس اللہ
تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ان سے حسن سلوک کی اور ان کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اس کے نتیجے میں اپنی رضا کا وارث بننے کی بھی توفیق
دے آمین
|