یہ حقیقت ہے کہ اس کائنات ارضی کا حسن و جمال مرد
اور عورت کی تخلیق سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ مشاہدہ ہے کہ ذہنی سکون اور قلبی
اطمینان صرف اور صرف اسی طرز زندگی میں ہے جو ہمیں پیدا کرنے والے نے
سکھایا۔ جب عارضی لذت کیلئے انسان فحاشی و عریانی کے خود ساختہ جال میں
اپنے آپ کو پھنسا لیتا ہے تو پھر اس کے نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ آج تک
کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی مرد اور عورت کے تعلقات کی استواری میں
خدائی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر من مرضی کی گئی تو کئی ایک الجھنوں نے جنم
لیا۔جاہلیت اور پتھروں کے دور سے 2020تک کے سفر میں کئی صدیاں گزر گئیں
لیکن کچھ لوگ وہیں کے وہیں کھڑے نظر آتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں
عورت کو لونڈی بنا کر سربازار نیلامی کے لئے لاکھڑا کر کے آوازیں کسی جاتی
تھیں یہاں تک کہ ان کی بولیاں لگائی جاتی تھیں۔ بچیاں پیدا ہوتے ہی زندہ
درگور کر دی جاتی تھیں۔ عورتیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم تھیں۔ آج
بھی تہذیب حاضر نے لبرل ازم اور جدت پسندی کے شوق میں عورت کے حقوق کے نام
پر اسے جنسی تسکین کا کھلونا بنا کے رکھ د یا ہے۔جنسی بھیڑیوں نے اسے برہنہ
یا نیم برہنہ کر کے نہ صرف اس کی عزت تار تار کی بلکہ اس کی عفت و عصمت کا
بھی جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے۔گویا عورت جاہلیت اور خدا ناشناسی کے ہر دور
میں زیر عتاب ہی رہی۔ البتہ آسمان کی نگاہوں نے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ
زمانے کی گردشوں میں پسی ہوئی عورت کی آہیں اور سسکیاں رنگ لے آئیں۔
ظہوراسلام ہوا اور داعی اسلام حضرت محمدﷺ نے بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے
کا ایک مکمل ضابطہ حیات دیا۔بلا مبالغہ دین اسلام نے عورت کو جو مقام و
مرتبہ دیا اس کی مثال کسی مذہب یا ثقافت میں نہیں ملتی۔ عورت کی عزت و عصمت
کی حفاظت کیلئے ا صول و ضوابط متعین کیے گئے۔ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کے
طور اسے معاشرے میں باوقار مقام ملا۔ عورت گھر کی ملکہ بنی اوراس کی تمام
ضروریات کی کفالت کا ذمہ دار مردوں کو بنا دیا گیا۔اسے جائداد میں حصہ دار
ٹھہرایا گیا۔ بحیثیت ماں اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی اور بیٹیوں کے طور پر
پرورش پر والدین کو رفاقت مصطفیﷺ کی نوید سنا دی گئی۔ پردہ کی اسلام میں
خصوصی اہمیت بیان کی گئی اور مرد وزن کو ستر پوشی کے ساتھ شرم و حیا کو بھی
مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا۔ قرآن پاک کی سورہ النور میں ارشاد ربانی
ہے۔’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ ان کی آنکھوں میں حیا ہو اور اپنی شرم
گاہوں کی پردہ پوشی کریں اور اپنا بناو سنگھار ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو
خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘۔
(سورہ النور) ۔ اب معاملہ یوں ہے کہ8مارچ۔ دنیا بھر میں یوم خواتین کے طور
پر منایا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر عورتوں کے مسائل اجاگر کیے جاتے
ہیں۔پاکستان میں بھی عورتوں کے حقوق، ان کے مسائل، ان پر کئے جانے والے،
ونی، کاروکاری جیسے مظالم اور سنگین مسائل پرمیڈیا پر پروگرام ہوتے ہیں جو
کہ خوش آئند ہے۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں
پچھلے دو سالوں سے ’’عورت آزادی مارچ‘‘ کے نام پر عورتوں نے جو بیہودہ
بینرز اٹھائے ہوتے ہیں اس میں سے کسی ایک میں بھی خواتین کے حقوق کی بابت
کچھ درج نہیں ہوتا۔مقبوضہ کشمیر میں بری طرح عورتوں کے حقوق پامال ہو رہے
ہیں لیکن کسی پلے کارڈ میں اس کا نام تک نہیں لیاجاتا۔ اس ساری مہم جوئی
میں سب سے اہم وہ پلے کارڈز یا بینرز ہیں جن کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل
نہیں ہوسکتی۔ خواتین کے ہاتھوں میں موجودپلے کارڈز پر لکھے نعروں کا متن
کچھ یوں ہوتا ہے 1۔ نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں 2۔ عورت بچہ پیدا کرنے
کی مشین نہیں ہے 3۔ کھانا گرم کردوں گی بستر خود گرم کر لو 4۔ میں لولی پاپ
نہیں عورت ہوں 5۔ میں آوارہ میں بدچلن 6۔ dick pics اپنے پاس رکھو۔ 7۔ میرا
جسم میری مرضی۔وغیرہم۔۔۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان بینرز کے ذریعے
اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں بے شرمی، بے غیرتی اور فحاشی کو فروغ دینے کی
مہم جوئی کی جاتی ہے۔ ’’عورت آزادی مارچ‘‘ میں شریک مظاہرین کے ہاتھوں میں
موجود پوسٹروں پر درج ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے گھٹیا نعروں کو پڑھ کر
سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ عورت آزادی مارچ کے نام پر جو کچھ ہونے جا رہاہے وہ
عام پاکستانی کیلئے پریشانی اور سخت تکلیف کا باعث ہے کہ آخر کس قسم کی
آزادی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کون سے حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ انتہائی
شرمناک بات یہ ہے کہ پچھلے سال کے مظاہرے میں شریک ایک عمر رسیدہ شخص نے
’’نکاح‘‘ کے خاتمے کو خواتین کے مسائل اور ان پر کی جانے والی زیادتی کا
واحد حل قرار دیا۔یقیناً یہ گھریلو تربیت کا فقدان ہے۔ ہے کوئی فاطمہ بنت
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیروکار جولاالہ الا اﷲ کے نام پر وجود میں آنے
والی اسلامی جمہوریہ پاکستان اور حالیہ حکمرانوں کی ممکنہ ریاست مدینہ میں
این جی اوز، لبرل ازم اور انسانی حقوق کے نام پرلٹتی بنت حوا کی عزت کو
پامالی سے بچائے۔ مانا کہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا بہت ضروری ہے،
اٹھانا بھی چاہیے، معاشرے یونہی تو بہتری کی جانب جاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے
بنائے ہوئے نظام کی نفی کرنا، طلاق جیسی ناپسندید چیز کو پروموٹ کرنا۔قدرتی
جوڑوں کے نظام کے خلاف جانا، ہم جنس پرستی کو پروان چڑھانا، جنس مخالف کے
خلاف نفرت کا پرچار کرنا اور خاندان کے نظام کو تباہ کرنے کی سعی کرنا
بالکل ناقابل قبول ہے۔یہ اسلام دشمن این جی اوز کا ایجنڈا ہے جو معاشرے کو
تباہ کرنے کے درپے ہیں۔یہاں ریاست کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ دیکھیں کہ
کون اکثریت کی مرضی کے برعکس کس کا ایجنڈا پرومووٹ کررہا ہے۔ ہم اسلامی
معاشرے میں پروان چڑھے ہیں، ہمارے لئے امہات المومنین اور بنات رسول ﷺ کی
زندگیاں بطور نمونہ موجود ہیں۔ ہمیں کسی عورت مارچ سے متاثر ہونے کی ضرورت
ہے اور نہ ہم اس طرح کے نعرے سے متاثر ہونے والے ہیں۔مغرب کے اس ایجنڈے کی
ترویج پر حکومت کو گہری نظر رکھنا ہوگی۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی
نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے حکومت اور محب وطن مسلمان اس سلسلے میں کوئی
اقدام کر رہے ہیں؟ابھی وقت ہے اس طوفان بدتمیزی کے خلاف کچھ کرنے کا۔ جب یہ
مارچ ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے میڈیا پر اس کی تشہیر ہوجائے گی۔ اس کے بعد
واویلا کرنا اور اسلام میں عورت کے حقوق پر لمبے چوڑے دلائل دینے اور لیکچر
جھاڑنے کا کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
وقت پر کافی ہے قطرہ آب خوش ہنگام کا
جل گیا جب کھیت مینہ برسا تو پھر کس کام کا
|