مسجد

امریکا کے سابق صدرجان ایف کینیڈی نے امریکیوں سے کہاتھا:یہ مت دیکھوملک نے تمہیں کیادیا ہے بلکہ یہ دیکھوکہ تم نے ملک کوکیادیاہے؟کینیڈی کایہ فقرہ امریکاکی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔ کینیڈی نے یہ بات1960ءکی دہائی میں کہی تھی مگریہ جملہ وہاں آج تک کوٹ ہوتاہےبلکہ کبھی کبھی تواس سے اوورکوٹ کاکام بھی لیاجاتاہے۔کیایہ کوئی بڑافقرہ ہے؟امریکامیں اس کی مقبولیت سے تویہی لگتاہےلیکن امریکیوں کی حب الوطنی جہاں ختم ہوتی ہے مسلمانوں کی حب الوطنی وہاں سے شروع ہوتی ہے۔

کیاآپ کویاددلانے کی ضرورت ہے کہ سیدمودوددی نے پاکستان کے بارے میں کیاکہاتھا؟”پاکستان ہمارے لئے مسجد کی طرح ہے ۔ یعنی پاکستان کادفاع مساجد کادفاع ہے،پاکستان کی تزئین وآرائش مسجد کی تزئین وآرائش ہے اورجس جس نے یہاں کوڑاکرکٹ اور غلاظت پھیلائی ہے اس نے مسجد کوآلودہ کیاہے اورمسجدخداکاگھرہے۔ذہن مغرب کاہویا مشرق کا، وہ صرف جغرافیے میں یہ تقدیس پیدانہیں کرسکتا۔
جغرافیہ تومسجدکابھی ہوتاہےلیکن مسجد کے جغرافیے میں ایک نظم اورایک ڈیزائن بھی ہوتاہے۔اس کاگنبد،اس کے مینار،اس کا منبر،اس کی محرابیں اور اس کاصحن۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈیزائن یونہی بنادیاگیاہوگاانہیں اسلام کی تخلیقی اورتہذیبی روح کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔لیکن یہ مسجد کے علامتی بندوبست پرگفتگوکاموقع نہیں۔یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پاکستان مسجد ہےاوراس کااپناگنبد،میناراومنبرومحراب ہیں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس امرکی وضاحت ضروری ہے۔گزارش ہے کہ جولوگ مسجد جاتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ گنبد کسے کہتے ہیں اورمینارکسے کہا جاتا ہےاوران علامتوں سے ہمارا کیاروحانی،تاریخی اورتہذیبی رشتہ ہے۔

مغربی ذہن اپنی نہادمیں افادی ہے۔وہ لین دین،فائدے اورنقصان کے حوالے سے سوچتاہےچنانچہ اس کے بلندترین معیارات بھی یہیں سے آتے ہیں ۔ کینیڈی نےکچھ بھی نہیں کیا،اس نے صرف تعلق کوالٹ دیا۔لین کودین میں تبدیل کردیا۔اس فقرے کا حسن وجمال اوراس کی ساری”شاعری” یہی سے آتی ہے۔
البتہ ہندوؤں کی نفسیات اورذہن نے زمین کوبڑی تقدیس عطاکی۔اسے”ماں”کہا۔بندے ماترم اس کے اظہارکی اعلیٰ ترین صورت ہے یعنی اے ماں ہم تیری ہی ثناءکرتے ہیں۔مغربی ذہن یہاں تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ماں اوراولاد کا رشتہ”افادی”نہیں ہوتا ۔ یہ سودوزیاں سے بلندتصورہے۔اس کی تعریف میں درجنوں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن مسجدکی علامات میں جو بات ہے اس کے آگے ماں کاتصوربھی ہیچ ہے۔ماں اوراس کی محبت بڑی چیزیں ہیں مگرماں بھی مخلوق ہے اوراس کی محبت بھی اورمسجد؟مسجدتو خالق کاگھرہے۔خالق کی محبت کے آگے مخلوق کی محبت کی بھلاکیااوقات!ماں اوراس کی محبت توصرف”مفہوم”ہےاورخالق کی محبت،معنی کاسرچشمہ۔

دشمن کیاسمجھتا ہے وہ مسجد پر چڑھ دوڑے گااورنمازی تماشادیکھتے رہیں گے؟پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں سے سخت نالاں رہی ہے اوران پرجی بھرکرسخت تنقیدبھی کرتی ہے جس کا ایک لفظ کیاایک حرف بھی”قابلِ واپسی”نہیں،لیکن اس کے باوجوددشمن کومعلوم ہونا چاہئے کہ یہ ہماراگھریلوجھگڑاہےجو تاریخ کے صفحات پرجاری بھی رہ سکتاہے اورتاریخ کے بہائو میں غرق بھی ہوسکتاہےچنانچہ دشمن مسجدکی طرف آئیں گے توانہیں وہاں صرف نمازی ملیں گےکچھ پانچ وقت کے نمازی اورکچھ جمعے کے جمعے آنے والے۔جنرل ایوب کے دورمیں یہی ہواتھا۔قوم میں بڑے اختلافات تھےمگربھارت نے جارحیت کی توصرف ایک رات میں پوری قوم ایوانِ صدرمیں بیٹھی ہوئی تھی اوراگرہم نے ٹھیک ٹھیک پڑھاہے تومولانانے اس کے بعد ہی پاکستان کومسجد قرار دیاتھا۔

پاکستان وہ ملک ہے جو کرئہ زمین کے نقشے پر پہلی نظریاتی ریاست کے طور پر ابھرا۔یہ ارتقائے انسانیت کا وہ ثبوت ہے جس کی تخلیق میں فقط شاہ ولی اللہ اور اقبال جیسے نامورفلسفیوں کے افکار ہی شامل نہیں بلکہ ان ہزاروں شہداء کامطہر خون بھی شامل ہے جوقیام پاکستان کے موقع پرہجرت کرتے ہوئے سفاک درندوں کے ہاتھوں مسل دیئے گئے۔پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کیونکہ اسے ہم مہاجرین و انصار کے اس مدینہ کی مثال کے طور پر سمجھیں جو آج سے ڈیڑہ ہزار سال پہلے انسان کامل ، رسول ِ خدا ﷺ نے قائم کیا تھا ۔ اور اس مدینہ کے تحفظ کے لیے آپؐ ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے کتنی جنگیں لڑیں اور کس قدر جان فشانی کا مظاہرہ کیا ۔

آج ہم پاکستان میں پیدا ہوگئے تو ہمیں بھول گیا کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ لاکھوں مہاجرین آگ اور خون کا دریا پار کر کے یہاں پہنچے اور مقصد تھا صرف ایک ……پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ…۔ آج ضرورت ہے اس محبت اورجذبےکو آواز دینے کی جس کے بل بوتے پر ہمارے رب نے ماہِ رمضان کی مبارک شب کویہ معجزاتی ریاست ہمیں عطافرمائی لیکن ہم آج تک اپنے رب سے کئے گئے اس عہدکوبھول گئے۔ یہ ملک پاکستان ہم سے ہماری وہی محبت طلب کرتا ہے ورنہ یہ دھرتی ہم سے نارض ہوجائے گی ۔ اور اگر یہ سر زمین ہم سے ناراض ہوگئی تو یقین مانیے روئے زمین پر ہمیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ہم اس حال کو اس لیے پہنچے ہیں کہ ہم نے قرآن کوپس پشٹ ڈال کر اپنے بچوں کو مغربی نظام تعلیم کے تحت تعلیم دلوائی اور یوں خالص پاکستانی نسلوں کی فصلیں پکنا بند ہوگئیں۔

مسجدکاذکرآئے اوراقبال یادنہ آئیں یہ کیسے ہوسکتاہے؟آخرانہوں نے دومسجدوں پرکام کیاہے۔پاکستان اورمسجد قرطبہ۔ مسجد قرطبہ جسے محمدحسن عسکری نے اردو شاعری کاتاج محل قراردیاشاعری کے سات عجوبوں میں ہمیشہ شامل رہے گی۔ پاکستان اقبال کی زیادہ بڑی مسجد ہے۔زیادہ بڑی،زیادہ حسین، زیادہ جمیل۔مسجد قرطبہ توصرف تاریخ اورپاکستان تاریخ کا تسلسل۔
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپاحضورجس میں نہیت رفت وبود
وہ بھی جلیل وجمیل توبھی جلیل وجمیل
تیری بناپائیدارتیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرامیں ہو جیسے ہجومِ نخیل

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.