بکھرے خواب

کمرے میں موجود پنکھا تیزی سے چل رہا تھا. دو صوفوں کے درمیان رکھی ٹیبل پہ اس پہ پاؤں ٹکے تھے.اور وہ سوال کی منتظر تھی.
الفاظ کا جادو کیسے چلا لیتی ہیں آپ ؟
"میں لکھتی ہوں تو احساسات روپ اوڑھ کر میرے سامنے آ جاتے ہیں.میں رنگوں کی پلیٹ سجا لیتی ہوں اور پھر کرداروں کو ان کی پسند کے رنگ اوڑھا دیتی ہوں.وہ سج جاتے ہیں.یہ کوئی کمال نھیں ہے پر لوگوں کو لگتا ہے."
سادہ سی مسکراہٹ کے ساتھ تارہ نے جواب دیا تھا.وہ ایک مشہور رائٹر تھی .اتنی کہ لوگ اس کا نام سنتے اور پورا ادا ہونے سے بھی کہتے کہ "وہ اچھا وہ ماہا ".ہمارے ہاں جس کا ذکر پورا نھیں ہو پاتا وہ ہیرو ہوتا ہے.آج اس کا انٹرویو تھا.اتنی نامی گرامی ہستی کے لیے سوال اسی کی طرح منفرد تھے ."
"تو آپ کو لگتا ہے کہ لفظ احساس سے سجتے ہیں ؟ لفاظی سے نھیں .
"بالکل..لفاظی کورے کاغذ کی طرح ہوتی ہے.کوئی پھاڑے گا تو پھٹ جائے گا.کوئی جلائے گا تو جل جائے گا.پر احساس کسی خوشبو سے بھرے سینٹ کی طرح ہوتا زرا سا ڈھکن کھولو اور بکھرتا چلا جائے."
آپ محبت کو ایسے لکھتی ہیں جیسے محبت سے آپ کا گہرا واسطہ ہو.اتنا گہرا کہ لازم لگنے لگے ؟
"محبت سے کس کا واسطہ نھیں ہوتا ؟ روئے زمین پہ صرف ہمارا دل ہی ایسی جگہ ہوتا ہے جو کسی نہ کسی کی محبت سے بھرتا ضرور ہے.پھر چاہے بھرم رہے نہ رہے نام اسی کا رہتا ہے."
آنے والے دنوں میں آپ کے کیا ارادے ہیں؟
"میرے ارادے مت پوچھیے میں بہت اونچی اڑانیں اڑتی ہوں.اتنی کہ پر کٹ بھی جائیں تو نیچے پہنچنے میں وقت لگے .مستقبل کا کسے پتا ہوتا ہے.پتا تو بس چلتی سانس کا ہوتا ہے.جب تک سانس باقی اڑان باقی ..یہ نہ رہے تو ارادے بھی نہ رہے."
اس نے مسکرا کر بات ختم کی اور اک نظر اس صفحے پہ ٹکائی جو ابھی ابھی اس کے قلم سے نکلنے والے الفاظ کا گھر بن چکا تھا.پھر اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے ایک فائل نکالی.کچھ لمحے اس پہ لگے ٹیگ پہ ہاتھ پھیرتے گزر گئے جس پہ بڑت حروف میں "ماہا اویس رائٹنگز " لکھا تھا .پھر صفحے کو پکڑا اور فائل میں لگایا .اک نظر اس سے نیچے والے صفحات پہ ڈالی اور پھر مسکرا کر فائل بند کر دی.
ہمیشہ کی طرح اس نے صفحہ فائل میں لگا دیا تھا.پبلشرز کو اس کتاب چھاپنے کے لیے پیسہ چاہیے تھا اور اس کے پاس الفاظ زیادہ تھے اور پیسہ کم.وہ ِ کتاب بھی خود چھاپتی تھی اور مشہور بھی خود ہو جاتی تھی .وہ خواب بھی خود دیکھتی تھی اور پھر تعبیر کا خواب بھی خود سجاتی تھی.
پنکھا اب بھی اتنی تیزی سے چل رہا تھا پر پھر بھی اس کی صفحات پہ گرفت اتنی کہ اڑا نہ سکا.بھلا خواب بھی کبھی اڑائے جا سکتے.۔۔۔
 

ماہ گل عابد
About the Author: ماہ گل عابد Read More Articles by ماہ گل عابد: 6 Articles with 7883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.