موبائل فون اور وڈیو کال کی آمد سے پہلے کے زمانے کی بات
ہے ایک لڑکی کی شادی ہوئی اس کا شوہر پچھلے کئی سالوں سے بغرض ملازمت سعودی
عرب میں مقیم تھا اس بار کی چھٹی پر گھر آیا تو شادی ہوئی ایک ماہ بیوی کے
ساتھ گذار کے واپس چلا گیا ۔ لڑکی کچھ دن تو بہت اداس و پریشان رہی شوہر کے
ساتھ خط و کتابت اور کبھی کبھار ٹیلیفون پر بات میں کہاں دل کی تسلی ہوتی ۔
گھر میں اس کے ماں باپ کچھ کنوارے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک بڑا شادی
شدہ بال بچے دار بھائی بھی تھا اور گھر کی بیشتر ذمہ داری اسی کی بیوی کے
سر تھی ۔ اب لڑکی سے بھی اس کا ہاتھ بٹانے اور ذمہ داریوں میں ساتھ دینے کا
کہا گیا ۔ اب وہ اپنی جیٹھانی کا ساتھ اس طرح دینے لگی کہ صبح ناشتے کے وقت
سرعت کے ساتھ اپنے جیٹھ کا ناشتہ بناتی رغبت سے اس کا لنچ تیار کرتی ، بچوں
کے لنچ باکس تیار کرتی جیٹھ کے لئے گرم پانی غسل خانے میں لے جا کر رکھتی
اسے تولیہ تھماتی اس کے کپڑے استری کرتی پھر دھونے کی بھی ذمہ داری لے لی ۔
اس کی پسند کے کھانے بنانے لگی بیمار پڑتا تو اس کی تیمارداری اور خدمت بھی
یہی کرتی ۔
جیٹھانی کو شروع میں تو بڑے مزے آئے کہ اس پر سے کم از کم شوہر کے کاموں کا
بوجھ بہت ہلکا ہو گیا تھا ۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کی اس لڑکی میں
دلچسپی اور لگاؤ کو بھی محسوس کرنے لگی اور اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز
کرتی رہی ۔ اڑوس پڑوس میں بھی چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں تب اس کے کان کھڑے
ہوئے مگر اب دیر ہو چکی تھی ۔ اس کی اپنے شوہر سے تلخ کلامی رہنے لگی
کیونکہ اسے اب بیوی سے زیادہ بھابھی ہی کے کام کاج پسند آنے لگے تھے اور وہ
اس کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا تھا ۔ ایک روز دونوں میاں بیوی کے درمیان اسی
بات پر جھڑپ ہوئی اور بات اتنی بڑھی کہ اس نے کھڑے کھڑے تین طلاقیں دے دیں
۔ شادی کو بارہ سال ہو چکے تھے اور چار بچے تھے اور اس لڑکی کو اس گھر میں
بیاہ کر آئے ہوئے صرف چھ ماہ ہوئے تھے ۔ پھر بعد میں سارا قصور اس کی
جیٹھانی کا گردانا گیا جس نے اپنے وقتی آرام کے لئے اپنا شوہر کل وقتی اس
کے حوالے کر دیا تھا ۔ اور لڑکی مظلوم و بیگناہ قرار پائی اس کا شوہر اس سے
راضی تھا ۔
اور اسی دور کی بات ہے ایک اور لڑکی کی سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے
نوجوان سے شادی ہوئی وہ بھی ایک ماہ بیوی کے ساتھ گذار کے واپس چلا گیا ۔
گھر میں بوڑھے ماں باپ کے علاوہ ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ باقی کے بہن بھائی
شادی شدہ اور اپنے اپنے گھر بار کے تھے اور اس گھر کی تمام ذمہ داریاں بجا
طور پر اس لڑکی پر آن پڑیں ۔ گھر کے کام کاج کے علاوہ مہمانداریاں سودا سلف
دوا دارو لانا اور یوٹیلٹی بلز کے حساب کتاب کے ساتھ ان کی بر وقت ادائیگی
وغیرہ آہستہ آہستہ اسی کی ذمہ داری میں آ گئی تھیں ۔ مگر ہر مسئلے معاملے
میں دیور اس کا معاون و مددگار ہوتا تھا دونوں کی آپس میں خوب بننے لگی بہت
اچھا ٹائم پاس ہونے لگا ۔ یہاں بھی صرف چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک روز لڑکی
نے فون پر اپنے شوہر سے کہا کہ میری شادی تو تم سے ہوئی ہے مگر میں رہ
تمہارے بھائی کے ساتھ رہی ہوں تو کیوں نا میں شادی بھی اسی کے ساتھ کر لوں
جس کے ساتھ میں رہتی ہوں تم مجھے طلاق دے دو ۔ اور شوہر نے طیش میں آ کر
فون پر ہی اسے تین طلاقیں کہہ دیں ۔ قصہ مختصر بعد عدت کے اس لڑکی کا اپنے
دیور سے نکاح ہو گیا اور وہ اسی گھر میں ایک ذمہ دار اور سمجھدار بہو کی
حیثیت سے خود کو منوانے میں کامیاب رہی ۔ ہر عورت گھاٹے کا سودا نہیں کرتی
پھر خسارے میں کون رہا؟ |