سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے پر اتنی اندھی ہوتی ہے یہ
نہ سنا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا
یہ کہانی ہے زمل اور ابراہم کی
زمل ایک متوسط گھرانے میں پلی بڑی لڑکی تھی
انتہائی بلا کی خوبصورت،ریشمی ایڑیوں پر گرتے بال،گول گول موٹی موٹی
آنکھیں،سروقد،اور دودھیئا رنگ کی مالک زمل گویا کہ اس دنیا کی نہ ہو بلکہ
کسی پرستان سے آئی ہوئی کوئی پری ہو
انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود وہ قسمت کی ماری تھی
زمل جب دسویں جماعت میں پہنچی تو اسکی نظر کمزور پڑنے لگ گئی
ایسی کمزور پڑی کہ دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی
بدستور جہاں تک ممکن تھا زمل کے ماں باپ نے ڈاکٹرز اور حکیموں سے مشورے اور
ادویات لینے کی کوئی کثر نہ چھوڑی تھی
ابھی کچھ سال ہی گزرے تھے کہ اسے 50%آنکھوں سے نظر آنا بند ہو گیا
ڈاکٹرز کا کہنا تھا اسکے پڑھائی بند کروا دی جائے
وگرنہ عین ممکن ہے کہ یہ اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
زمل تمام بہن بھائیوں میں سے بڑی تھی
قسمت کا لکھا،کون ٹال سکتا ہے
وہی ہوا چند مہینے گزرے تھے کہ اسکا نظر کی80%بینائی چلی گئی
چار و ناچار اسے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے گھر بیٹھنا پڑا
زمل کا ہاتھ اسکی خالہ نے بچپن میں ہی اپنے بیٹے ہادی کیلیئے مانگ لیا تھا
مگر جونہی انھیں زمل کی بینائی کم پڑنے کی اطلاع ملی یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں
بعد میں یہ اندھی ہو،کر ہمارے گلے ہی نہ پڑ جائے انھوں نے رشتے سے انکار کر
دیا
ایک مصیبت کم تھی کہ ایک نئی آن پڑی زمل خود سے باتیں کرتی،خدا سے شکوے
شکایتیں کرتی جو منہ در آتا تھا بولتی چلی جا رہی تھی
مگر قسمت کا لکھا تھا نا اسے ہر حال میں قبول تو کرنا تھا نا
وقت کہاں ٹھہرتا ہے
وقت بیتتا گیا اور زمل تیس سال کی عمر کو پہنچ چکی اسکے سبھی چھوٹے بہن
بھائیوں کی شادیاں ہو گئی
زمل تمام تر امیدیں کھو چکی تھی بس اب وہ اپنی زندگی کی تمام تر جینے کی
امیدیں کھو کر موت کا انتظار کر رہی تھی
کہ
کب موت آئے اور اسے لے کے چل بسے
زمل کے ماں باپ زمل کو لے لے بہت پریشان حال تھے
یہ سوچ سوچ کر انکے سر میں چاندی آ گئی تھی کہ کل کو خدانخواستہ اگر ہم نہ
رہے تو ہماری اس اندھی بیٹی کا خیال کون رکھے گا
لیکن وہ کہتے ہیں نا جب خدا کن فرما دے تو پتھر میں بھی کیڑے کو پال کر
دیکھا دیتا ہے
زمل لوگوں کے گھر کے سامنے والے مکان میں نئے خریدار شفٹ ہوئے
چونکہ وہ نئے نئے شفٹ ہوئے تھے انکی ذیادہ جان پہچان تو نہ تھی
ابراہم اسی گھر کا لڑکا تھا جو حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے جوب ہولڈر
ہو کر اپنے ممی بابا کو لے کر یہاں شفٹ ہوا تھا
ایک دن ابراہم کی ماما نے بریانی بنائی تو اس خیال سے کہ پڑوسیوں کا بھی
اتنا ہی حق ہوتا ہے جتنا خود فیملی کے ممبرز کا ہوتا ہے
انھوں نے ابراہم کے ہاتھ بریانی کی پلیٹ تھماتے ہوئے زمل لوگوں کے گھر دے
آنے کا کہہ کر خود کچن میں چلی گئیں
ابراہم نے دروازے پر پہنچتے ہی دروازے پر دستک دی زمل کی ماما نے زمل کو
آواز دی بیٹا دیکھنا دروازے پر شاید تمہارے ابا آئے ہوں گے
زمل نے جونہی دروازہ کھولا تو ابراہم کی پہلی نظر زمل پر پڑنا تھی کہ وہ
زمل پر دل و جان سے فریفتہ ہو گیا وہ بنا پلک جھپکائے زمل کا تکتے ہی جا
رہا تھا
کہ
زمل کی آواز نے اسے چونکایا
جی کون
ابراہم خیالات کی دنیا سے جھٹ سے نکلا اوراپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ہم
آپ کے نئے پڑوسی ہیں حال ہی میں شفٹ ہوئے ہیں ماما نے آپ کیلیئے بریانی
بھیجی ہے
اتنے میں زمل کی ماما بھی دروازے کی اور آئی کہ آیا کون ہے جس سے باتیں چل
رہی ہیں
ابراہم کو دیکھ کر زمل کی ماما نے کہا آؤ بیٹا اندر آؤ کیسا لگا ہمارا محلہ
آپکو کوئی پریشانی یا دقت ہوئی تو بنا تکلف ہمیں بتا دینا ہمیں اپنا ہی
سمجھو
ابراہم ابھی تک بدستور زمل کی خوبصورتی میں محو تھا
زمل کی ماما نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا زمل کی باتوں کا برا مت ماننا
اسے نظر نہیں آتا
ابراہم کا نظر نہ آنا سننا تھا تو چونک اٹھا
کیا مطلب آنٹی نظر نہیں آتا
مطلب کہ زمل اندھی ہے
ابراہم شش و پنج میں مبتلا زمل کو دیکھے جا رہا تھا اور چند پل بیٹھنے کے
بعد وہاں سے چل آیا
زمل تو ابراہم کے دماغ پر سوار ہو چکی تھی
اب وہ بہانے بہانے سے کبھی چھت پر جاتا اور زمل کو دیکھتا کبھی بہانے سے
انکے گھر جاتا
ابراہم کسی طور بھی زمل کو پانا چاہتا تھا
آخر اس نے ہمت کر کے اپنی ماں سے کہہ ڈالا کہ اسے زمل سے شادی کرنی ہے
ابراہم کی ماما کا سننا تھا تو وہ آگ بگولا ہو گئیں
کیا بکواس کر رہے ہو ابراہم
تم جانتے نہیں وہ اندھی لڑکی ہے
بوجھ ہے وہ بوجھ
اور تم اسے شریک حیات بنانا چاہتے ہو
مجھے کچھ نہیں سننا مجھے بس زمل سے شادی کرنی ہے
بارہا سمجھانے کے بعد جب ابراہم کے گھر والوں کو ابراہم کے ارادے میں خلل
نظرنہ آیا
تو انھوں نے گھٹنے ٹیک دیئے
اور رشتہ لے کر زمل کے گھر پہنچ گئے
رشتہ کی بات سننا تھی
کہ زمل کی ماما حیران و پریشان ابراہم کی ماما کا منہ تکے جا رہی تھی
کہ ابراہم سب جانتے ہوئے بھی زمل سے شادی کرنا چاہتا ہے
زمل کا یہ سننا تھا تو ناچاہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری
ہو گئی
اور مصلے پر گر کر رب تعالی سے گویا ہوئی یا خدایا یہ کیسا تیرا انصاف ہے
جب جینے کی تمنا تھی تب موت کے قریب تر رکھا
اور اب جبکہ جینے کی تمام تر امیدیں ہار چکی ہوں تو آپ مجھے زندگی سے ملا
رہے ہو
آخر کار زمل اور ابراہم کی شادی طے پائی
شادی کی رات گلا کھکنکھارتے ہوئے ابراہم کمرے میں داخل ہوا
بیڈ پر زمل دلہن کے لباس میں سج دھج کر بیٹھی تھی
زمل ڈری ہوئی تھی
ابراہم نے بیڈ پر پاس بیٹھتے ہوئے زمل کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
زمل آج سے تمہیں ڈر کے جینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اسکے ہاتھ اپنی آنکھوں
پر پھیرتے ہوئے کہا
آج سے یہ آنکھیں تمہاری ہیں
پھر دونوں سو گئے
صبح ولیمے کے دن ابراہم کے چارو طرف سے لعن طعن ملی کہ آخر ہماری بیٹی میں
کیا کمی تھی جو یہ اندھی بیاہ کر لے آیا وغیرہ وغیرہ
مگر ابراہم ان سب سے بے نیاز زمل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے اسے سب
سے ملوانے میں مشغول تھا
وقت بیتتا گیا
زمل ابراہم سے اس قدر مانوس ہو گئی کہ ایک پل بھی ایک دوسرے کے بغیر رہنا
انکا محال تھا
زمل اکثر ابراہم سے کہتی تھی میں نے سنا ہے جنت میں میری آنکھیں مجھے لوٹا
دی جائیں گی
میں کچھ بھی دیکھنے سے پہلے وہاں آپکو دیکھنا چاہوں گی
ابراہم ہنس دیا کرتا تھا اسکی اس بات پر
زمل اب ابراہم کے سینے پر سر رکھ کر سوتی تھی
ایک دن ابراہم جوب پر تھا
کہ
پیچھے سے کالی گھٹائیں اور اندھیری نے آ لیا زمل چھت پر سوکھے کپڑے اتارنے
کیلیئے چڑھی
اسکا نظر آنا بھی نہ نظر آنے کا برابر تھا
واپسی پر سیڑھیاں اترتے وقت اسکا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑم سے نیچے گری اور
بے ہوش ہو گئی
اسکے گھر والوں نے اسے پاس کے ہاسپٹل میں شفٹ کیا
ابراہم کو پتا چلنا تھاکہ گویا اس پر قیامت ٹوٹ پڑی سب کام چھوڑ کر وہ
سیدھا ہاسپٹل پہنچا
ڈاکٹرز سے التجائی طور پر کہا کہ خدا کیلیئے میری زمل کو بچا لیں
سبھی دعاؤں میں مشغول تھے کہ ابراہم کو ڈاکٹرز اپنی طرف آتے دیکھائی دیئے
وہ جھٹ سے انکی طرف لپکا
ڈاکٹرز کہ چہرے پر ہنسی تھی
انھوں نے بتلایا
کہ زمل کی آنکھوں کے لینز سکڑ گئے تھے ہم نے انکا آپریشن کر کے ایڈجسٹمنٹ
کر دی ہے انشاءاللہ اب وہ دیکھ پائیں گی
سبھی کے چہرے پر مسکراہٹ اور لبوں پر شکرانے کے الفاظ تھے
سبھی زمل کے گرد جمع تھے
جونہی زمل نے اپنی آنکھیں کھولی سامنے ابراہم کو کھڑا پایا اور جھٹ سے اسے
سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔۔۔ |