شادی کی صحیح عمر اور تاخیر کا وبال

اس کائنات کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اﷲ رب العالمین کی بے مثل ذات واحد اور احد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ یہ اس کی شان لا ریب ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے شرک اور احتیاج سے پاک ہے جبکہ اس کے برعکس، مخلوق کے لیے وحدانیت صفت نہیں بلکہ نقص ہے اور تنہائی ایک عذاب کی مانند ہے ۔ہر مخلوق کا وجود قدم بہ قدم باہمی اشتراک کا متقاضی ہے لہٰذا انسانی زندگی کی تکمیل و تسکین کا اہم ترین تقاضا صنف مخالف کے ساتھ شراکت حیات کا معاہدہ ہے جو کہ نسل انسانی کی افزائش و آسائش کا واحد ذریعہ ہے۔نکاح ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جس پر خاندانی و معاشرتی زندگی کی اقدار قائم ہیں۔کمزوربنیادوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت بظاہر کتنی ہی خوبصورت اور مضبوط ہو بہرحال تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔مغربی معاشروں کی خوبصورتی کا سراب جس قدر بھی متاثر کن ہو لیکن ان رنگین فضاؤں کی تلخیوں کو جھیلنے والے خوب جانتے ہیں کہ اس مادر پدر آزادی کا راستہ کس منزل کی طرف گامزن ہے۔نکاح کی ضرورت و اہمیت سے بے نیازی کا رجحان سرِ بازارِعالم جو اودھم مچائے ہوئے ہے اس کی تقریباً تمام مثالیں آج کی نام نہاد ترقی یافتہ تہذیبوں میں کھلے عام عبرت کا منظر پیش کر رہی ہیں لیکن ہم ان عبرتناک مناظر سے سبق سیکھنے کی بجائے اس خباثت کو اپنے معاشرے میں درآمد کر نے کے درپے ہیں۔
 
یعنی ہم بھی انسانی زندگی میں نکاح کی افادیت و اہمیت کو نظر انداز کرکے اپنے معاشرے کی اخلاقی اور سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ طاغوتی دجالی گماشتوں کا بس نہیں کہ وہ اسلامی اخلاقیات کو ہماری زندگی سے یکسر نکال باہر کریں لہٰذا وہ چور دروازے سے داخل ہو کر ہمارے ایمان پر انتہائی باریک جال پھیلاتے ہیں جس کو ہم اپنی ایمانی بصارت میں کمزوری کے باعث دیکھنے سے قاصر ہیں۔شیطان اسلامی معاشرے سے نکاح جیسے مقدس فریضہ کو ختم تو نہیں کرسکتا البتہ مسلمان کو اس کے ثمرات و برکات سے محروم کرنے کی کاوشیں اس کی اولین ترجیحات ہیں۔مثلاً نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو نوجوان شروع جوانی میں شادی کرلیتا ہے تو شیطان اس پر واویلا کرتا ہے کہ ہائے اس پر افسوس ، اس نے مجھ سے اپنا دین محفوظ کر لیا‘‘۔ لہٰذا بلیس کا پہلا وارایک مسلمان کوبالغ ہونے کے باوجود نکاح کرنے سے ہر ممکن حد تک اور عمر زیادہ سے زیادہ بڑھنے تک روکے رکھنا ہے ۔خطہ پاک وہند میں اس قباحت کا پہلا براہ راست حملہ آج سے 90سال قبل اس وقت مشاہدہ میں آیا جب 1929میں ہندوؤں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے مسلمانانِ ہند پر شاردا ایکٹ کے نام سے ایک خلاف شرع قانون مسلط کیاگیا۔اس قانون کا مطلب یہ تھا کہ چاہے کوئی شخص 12یا 13سال ہی کی عمر میں بالغ ہو البتہ 18سال عمر سے پہلے نکاح نہیں کرسکتا ۔اسلامی احکام سے منافی قانون سازی پر مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ ، مولانا مفتی کفایت اﷲ ؒ اور دیگر مسلم اکابرین کی زیر قیادت فرزندانِ توحید نے تاریخ ساز مزاحمت شروع کی اور اسمبلی سے منظوری کے پہلے ہی سال میں یہ آئینی ترمیم عضوِ معطل کی مانند غیر فعال ہو کر رہ گئی۔خطہ میں مسلمانوں پر ظلم اور ناانصافی کے اسی جیسے بے شمار ہتھکنڈے ہی دراصل دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کی بنیاد بن گئے اور اسلام کے نام پر پاکستان وجود میں آگیا ۔بیج بونے والے اپنے خون پسینے سے آبیاری کر کے اس پودے کو تناور درخت بنتا اور پھلتا پھولتا دیکھتے لیکن مملکت خداداد کے بانی رہنماؤں کی زندگی اور صحت نے وفا نہ کی اور بعد میں وطن عزیز پر قابض ہونے والے ہوس پرستوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے نظریۂ اسلام پر قائم ہونے والے ملک میں مذہب کی چادر اوڑھ کر مذہب ہی کو تاراج کیے رکھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ دین و شریعت کے دیوانے آج بھی رندوں کی شمشیر کے نیچے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے منافی جو قانون سازی برطانوی انگریزاور ہندو اکثریتی اسمبلی کا طریق تھا اسی شاردا ایکٹ کا سیاہ دھبہ برطانیہ کے نمک خوار جاگیر دار اور سرمایہ دار حکمران محض نام تبدیل کرکے چند سال قبل ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پیشانی پر بھی لگا چکے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جس ایمان افروز مزاحمت سے فرنگ و ہنود کے اسلام دشمن اقدام کو جوتے کی نوک پر رکھ کے ہوا میں اڑایا تھا اس مرتبہ وہ عزم وجنون چشم فلک کی حسرت ہی رہ گیااور ضمیر فروش حکمرانوں کے اس کرتوت سے جمہور کی پیشانی پر شکن تک نظر نہیں آئی ۔ یعنی مسلمان کی مذہبی حمیت اور ایمانی ولولے کو ماند کرنے کی طاغوتی محنت رنگ لے آئی ہے۔اغیار ہمیں یہ باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کے سنِ بلوغت کے معاً بعدشادی میں جلدی اختیار کرنے کا صدیوں پرانا اکابرین امت اور ہمارے آباؤ اجداد کا طرزعمل غلط تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قدرتی طور پر انسان میں نفسانی خواہشات کا ابال پیدا ہونے اور بڑھنے کا وقت اوائل جوانی کا ہے ۔ طغیانی کو روکنے کے لیے باندھا جانے والا کوئی طاقتور ترین بندبھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک کہ دریا کے پانی کو گزارنے کے لیے کوئی متبادل اور مناسب راستہ فراہم نہ کیا جائے۔ نوجوان نسل کو گمراہی اور بے راہروی کی دلدل سے بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ بلوغت کے فوراً بعد نکاح کا انتظام کر دیا جائے ورنہ الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے فتنوں کے درمیان اﷲ کی خاص رحمت ہی کسی نوجوان کو بدکاری اور بے حیائی سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔شادی میں تاخیر کے باوجود کسی نوجوان کو پرہیز گاری اورشرم وحیا کی نصیحت کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شدید بھوکے کو کھانا نہ کھانے کی ہدایت کر رہے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بد اخلاقی اور جنسی جرائم کے گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہاہے اور ہماری نوجوان نسل اجتماعی طور پر ڈپریشن ، افراتفری ، پریشانی اور مایوسی کے ساتھ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ گھر گھر عشق معشوقی کے افسوس ناک واقعات،آئے دن عدالتوں میں کورٹ میرج کے جھگڑے ، بوڑھے والدین کی جگ ہنسائی، خاندانوں کی عزت کا جنازہ، لَو میرج کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے سے توقعات و اختلافات ، باہمی رنجشوں کے اولاد پر اثرات اور اس طرح کے بے شمار مظاہر شادی میں بلا عذر تاخیر ہی کا شاخسانہ ہیں۔شادی میں تاخیر ہی کا اثر ہے کہ نوجوان طبقہ اپنی محبت کی منزل نکاح، عزت اور گھر کی بجائے سڑک پارک اور ہوٹل کو سمجھتا ہے اور ہماری تعلیم گاہیں اور سیر گاہیں حیا باختہ مناظر کی آماج گاہ ہیں۔

گزشتہ اور اس سے پیوستہ زمانوں میں اوائل عمری میں بچوں بچیوں کی شادی کا رواج عام تھا ،بلوغت کے بعد لڑکوں لڑکیوں کو مہلت ہی نہیں ملتی تھی کہ وہ اپنی پسند ناپسند پر مختار ہوں، ایک ماں کو جوانی اور صحت تندرستی کی حالت میں تولیدگی سے ڈاکٹروں،آپریشن کی پیچیدگیوں اور دواؤں کی بھر مارکا سامنا نہیں ہوتا تھا،والدین انتہائی ضعف سے قبل ہی بچوں کی نسبت کے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے، اپنی اولاد کی اولاد کو دیکھنے اور ان کی پرورش میں مدد دینے میں نہ صرف بزرگوں کے ذہنی سکون کا سامان ہوتا تھا بلکہ بچوں کے والدین کو بھی ان کی تربیت میں دقت پیش نہیں آتی تھی۔دادا دادی ماں باپ سب اطراف سے توجہ اور محبت کی آمیزش بچے کی تربیت میں چار چاند لگا دیتی تھی ۔آج کی ورکنگ وومن کی طرح بچوں کی دیکھ بھال ڈے کئیرسنٹرز کی مرہون منت نہیں ہوتی تھی۔ بچوں کا باپ ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے رزق کی تگ و دو کرتا ، خاندان کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اپنائیت ،محبت اور برکت کے اُس ماحول کو ہمارا جدت پسند طبقہ پس ماندگی اور جہالت سے تعبیر کرتا ہے اور اپنے ماڈرن لائف سٹائل کا حال یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی بے خوف قیادت اور بے لوث خدمت سے مستفید ہو کر لڑکی کسی شاہ رخ کے انتظار میں جوانی کی آخری حد کو چھو رہی ہے،مخلوط ماحول میں اعلیٰ تعلیم اور نوکری کر کے گھر کے بجٹ کا سہارا بن رہی ہے،پھر زندگی کے ان نشیب و فراز کے اثرات چہرے پر ظاہر ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے رشتے کے لیے آنے والوں کا انکارلڑکی میں شدید احساس کمتری پیدا کردیتا ہے۔ جبکہ لڑکا انٹرنیٹ، کو ایجوکیشن اور گرل فرینڈز کے سحر سے متاثر ہو کر برے دوستوں کی محفل میں نشے کا عادی بن گیا ہے-

ماہرین نفسیات شاہد ہیں کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عورت کا مزاج اپنے ماحول کے مطابق پختہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے لیے ایک گھر سے دوسرے گھر کے معمول میں ڈھلنا، نئے مزاجوں اور اقدار و روایات کو سمجھنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے اور پھر درمیانی اور ڈھلتی عمر میں شادی کے بعد تولیدی پیچیدگی عورت کو جسمانی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے جبکہ مرد کے لیے والدین کی ضعیف العمری و بیماری اور دوسری طرف بیوی کی گرتی ہوئی صحت مالی اور ذہنی پریشانی کا باعث ہے۔

اب جدید دنیا کی ایک اور مصیبت ایک جوڑے کی نسبت طے کرنے کے بعد شادی کے لیے طویل مدتی انتظار ہے۔ دونوں خاندانوں کی رضامندی سے منگنی کی رسم کرکے شادی کی تیاریوں یا دیگر معاملات میں لمبا وقت گزار دیا جاتا ہے ۔جس میں لڑکے اور لڑکی کی پس پردہ یا کھلے عام ملاقاتیں اور رابطے اکثر انتہا تک پہنچ کر کسی ناراضگی یا بدمزگی پر ختم ہو جاتے ہیں، یا لڑکے لڑکی میں رابطے نہ بھی ہوں تو دونوں خاندانوں میں کسی مسئلے پر اختلاف کی وجہ سے نسبت منسوخ کردی جاتی ہے جس سے دونوں خاندانوں کی چپقلش کے علاوہ بعض اوقات لڑکی کے لیے بھی مختلف معاشرتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں شدید الجھاؤ کا باعث بن رہے ہیں ۔ان جیسے اور بھی ان گنت مسائل ہیں جن پراوائل عمری میں نکاح کرکے قابو پانا ممکن ہے۔اگر حکومت کی طرف سے 18سال عمر سے پہلے نکاح کرنے پر پابندی ہے اور مسائل کا سامنا ہے توعمر 18 سال تک پہنچتے ہی نکاح کرنے سے بھی زندگی آسان ہو سکتی ہے ۔ یہ ناممکن نہیں بلکہ اس کی زندہ مثال ہمارے پختون بھائی اور پنجاب میں میو برادری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر موڑ اور بالخصوص خاندانی امور پر قرآن و حدیث کے احکام کو پیش نظررکھ کر فیصلے کریں ۔ مغربی ممالک کا بھیک لے کر اسلام کے خانگی نظام کے خلاف زبان درازی کرنے والی این جی اوز کو کسی خاطر میں لانے سے پہلے اس کے انجام پر غور کرلیں کیونکہ احادیث میں یہ امر واضح ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح کرنے کی بجائے بدکاری کا مرتکب ہو گا تواس کے نکاح کو بلا عذر ٹالنے والے والدین بھی عنداﷲ اس کے گناہ میں شریک تصور ہوں گے ۔ رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کو نظر انداز کر کے زندگی گزارنے کا شوق ہمیں اس مقام پر لے پہنچے گا جہاں سے واپسی کسی بڑے نقصان اور عبرتناک سبق کے بغیر ممکن نہیں۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 24789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.