اقوام کی تاریخ کچھ پانے اور کچھ کھونے کے ملے جلے واقعات
کا تانابانا ہوتی ہے، ان واقعات کوگردشِ ایام کے قدرتی نظام میں کسی مہینے
اور تاریخ کے ساتھ منسلک کرکے برس ہا برس یادیں تازہ کرنے سے قومی تہوار
جنم لیتے ہیں اوران قومی دنوں سے آگاہی نئی نسل میں ملک و قوم سے محبت پیدا
کرتی ہے ۔اسی طرح مارچ کے مہینے کا تصور ہر محب وطن پاکستانی کوآج سے 80
برس قبل مینار پاکستان گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے عظیم الشان جلسہ میں لے
جاتا ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کے ہزاروں
مسلمانوں نے اے کے فضل حق کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے دوقومی نظریہ کی
بنیاد پر ایک الگ ملک کے قیام کا عزم ظاہر کیا، ایک ایسا ملک جس میں تمام
مسلمان کو اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔ اپنے
دل میں ملک و قوم کا درد رکھنے والے پاکستانی کے ذہن میں 23مارچ 1940 کی
یہی قرارداد ہر سال مارچ کے مہینے کی یادداشت اور شناخت تھی، جس کا رخ
بدلنے کی مذموم کوششیں گزشتہ چند سالوں سے مذہب بیزار این جی اوز نے شروع
کیں اور قیام پاکستان کے مقصد کو پس پشت ڈال کر عوام کو نئی بحث میں
الجھادیا۔گزشتہ اور پیوستہ سال میں عورت مارچ کے نام پر حیاباختہ ذومعنی
نعروں اور جملہ بازی پر مشتمل مظاہروں کا انعقاد عمل میں لا کر پاکستان کے
اسلامی تشخص کا خوب مذاق اڑایا گیا۔قوم کی بہنوں بیٹیوں کی جعلی نمائندگی
کا ڈرامہ رچا کر چند فاحشاؤں نے دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اسلام
اور پاکستان میں عورت ،مرد کے بدترین جبر کا شکار ہے۔ان کی اس جسارت سے اہل
ایمان اور ملک و قوم کے غمخوار طبقہ لوگوں کے دماغ میں ملکی سلامتی سے
متعلق فکر و خدشات پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے لیے خون کی قربانی دینے
والے بزرگوں کی روحیں جہاں کہیں بھی ہوں گی شدت غم سے تڑپ اٹھی ہوں گی، اور
پاکستان کے دشمن خوشی سے جھوم اٹھے ہوں گے۔
کیسی ستم ظریفی اور احسان فراموشی کی بات ہے کہ جس عالمگیر آئین و قانون کی
مدد سے صنف نازک پیدا ئش کے فوراً بعد درگور کیے جانے جیسے ظلم سے نجات
حاصل کر کے گھر کی عزت بنی آج خود انہی قوانین و ضوابط کو ناانصافی قرار
دینے کے درپے ہے، اسلام نے جن باطل مذاہب کی دست اندازی سے عورت کوآزاد
کرواکے بنیادی حقوق دلوائے تھے وہ آج انہی کی آلہ کار بن کر دین حق سے نبرد
آزما ہے ،جس تہذیب میں مرد عورت کے قدموں تلے اپنی جنت تلاش کرتے ہیں اس
ملت کی عورت کا مساوات و برابری کا واویلا عقل و سمجھ پر ماتم کے مترادف ہے
،بنی نوع انسان کو راہ نجات پر گامزن کرنے والے رحمۃاللعالمین صلی اﷲ علیہ
وسلم سے بڑھ کر عورت ذات کا محسن کون ہو سکتا ہے جنہوں نے اپنے فرمودات کے
ذریعے صنف نازک کو اس کی پیدائش سے لے کر بڑھاپے کی آخری منزل تک ہر حیثیت
اور ہر رشتے میں تحفظ و سلامتی سے نوازا۔لہٰذا اپنی زندگی کو قرآن و حدیث
کے تابع کرنے والی عورت کو آج بھی اپنے خاندان اور معاشرے میں وہی عزت و
وقار میسر ہے جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سے اس کااعجاز تھا۔ افراتفری اور
بے چینی کا شکار وہ خواتین ہیں جن کے خاندان کی ساکھ ان کو اپنے گلے کا طوق
محسوس ہوتی ہے۔جو دوپٹے کو اوڑھنے کی بجائے مرد کی آنکھوں پر باندھنے کی
داعی ہیں، جوخود کو اپنے پیدا کرنے والے خالق کے حکم پر ڈھالنے کی بجائے
ـ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ جیسے ملحدانہ نعرہ کی دلدادہ ہیں۔جو شوہر کا موزہ
تلاش کرنا اور کھانا گرم کرنااپنی توہین سمجھتی ہیں ۔ عورت مارچ کے منتظمین
وہ بھوکے ہیں جن کا کاروبار زندگی بین الاقوامی شیطانوں کی امداد کا مرہون
منت ہے اور وہ ہمہ وقت اسلام اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرکے اپنا
الُو سیدھا کرنے کی فکر میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور پاکستانی عورت کی نام
نہاد بے بسی کا تماشہ ان اقوام و مذاہب کو دکھانا چاہتے ہیں جوخود خواتین
کے حقوق کے عالمی غاصب ہیں، جن کی تہذیب میں خاندانی نظام زوال پذیر ہے،جن
میں عورت بحیثیت ماں ، بہن ،بیٹی ، بیوی بدترین استحصال کا شکار ہے اور گرل
فرینڈز بوائے فرینڈز کا مضحکہ خیز ماحول جن کی پہچان ہے۔
اس غلاظت سے مغربی فضائیں اس قدر مکدر ہو چکی ہیں کہ انسانیت کا سانس لینا
محال ہوا چاہتا ہے اور وہاں کے شہری امن و سلامتی کی چادر چاردیواری کے
سکون کو اپنانے کے لیے دین اسلام کی طرف تیزی سے متوجہ ہو رہے ہیں ۔نیٹو کی
جاسوس ایون ریڈلی ، برطانیہ کے سابق متعصب وزیر اعظم ٹونی بلئیرڈکی خواہر
نسبتی لارن بوتھ، فلپائنی اداکارہ کوئینی پیڈیلا، اٹلی کی اداکارہ مارشیلا
انجلو، آئر لینڈ کی گلوکارہ شنیڈ اوکونر ، امریکی یہودی دانشور مارگٹ مارکس
سمیت مغرب کی ہزاروں بیٹیاں حقوق نسواں کے جھوٹے علم برداروں سے خلاصی پا
کر اسلام میں داخل ہو گئیں ، مغرب میں قبول ِ اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی
یہی شرح ابلیس کی مجلس شوریٰ کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے لہٰذا انہوں نے
اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں اس گندگی کا وائرس منتقل کرنے کے لیے
ہمارے معاشرے میں موجود دجالی گماشتوں کی طرف ڈالرز کی ہڈی پھینکی اور ان
کو اسلام کے خانگی نظام پر بھونکنے کا ٹارگٹ دیا اور وہ دُم ہلاتے اپنے مشن
کی تکمیل کے لیے سرگرم ہو گئے ۔ الیکٹرانک میڈیا پر بے حیائی کی
یلغار،ویلنٹائن ڈے کی ترویج اور عورت مارچ کی مصیبت اسی ضمیر فروش طبقہ کی
اپنے آقاؤں سے وفاداری کے مظاہر ہیں۔
ہماری شامت اعمال سے ملک پاکستان پر مسلط ہونے والا برسر اقتدار سیاسی ٹولہ
وطن عزیز کی اس جگ ہنسائی پر بے حس اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا
ہے۔ نئے پاکستان کی لغت میں اسلام دشمنی پر مبنی ہر آواز اظہار رائے کی
آزادی کا مظہر ہے جبکہ اپنے دین کا دفاع انتہا پسندی بنیاد پرستی جیسا نا
قابل معافی جرم قرار دیا جاتا ہے،اس ڈکشنری میں ریاست مدینہ سے مراد حرمین
شریفین کے موجودہ حکمران ہیں جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سرزمین پر
عورت کو آزادی دینے کے عوض عالمی شیطانوں سے شاباش وصول کرکے بغلیں بجا رہے
ہیں ۔ یہودی منصوبہ ساز ایک عرصہ سے پاکستان میں اسی تبدیلی کے منتظر تھے
جو بالآخران کے سابقہ داماد نے پلیٹ میں رکھ کر بصد احترام پیش کی ،
پاکستان کے اسلامی تشخص کو مسخ کرنے کی ان سازشوں کا فوری سدباب ہی ملک کے
استحکام و سلامتی کا فوری تقاضا ہے،ہمارا وطن اسلامی ممالک میں نمایاں
حیثیت کا حامل ہونے کی وجہ سے دنیا کے بڑے اور خطرناک شیاطین کے نشانے پر
ہے،جو اس ملک کو ہمہ وقت کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا دیکھنے کے خواہش مند
ہیں،جبکہ ہمارا سب سے بڑا اور مکار دشمن ہمارا اپنا ہمسایہ ان کا سہولت کار
ہے، اتنے زیادہ دشمنوں کی موجودگی ہم سے قدم قدم پھونک کر اٹھانے کی متقاضی
ہے نہ کہ ہم نئے سے نئے فتنوں میں الجھ کر باہم دست و گریبان ہونے کا تجربہ
کرتے رہیں۔
قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کا فرض ہے کہ ماضی کی تلخیوں کے پیش نظر
عورت مارچ جیسے مکروہ فتنے کے قدم ابھی بڑھنے سے روک لیں ورنہ کہیں ایک روز
یہ طوفان ملک و قوم کی جڑوں میں بیٹھ کر ہمیں کھوکھلا نہ کر دے۔
|