جس کے وجود سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ

٨ مارچ یوم خواتین کے حوالے سے ایک تحریر


مارچ کا مہینہ ہے اور حقوق نسواں سے متعلق عالمی تنظیمیں 8 مارچ کو یوم خواتین کے حوالے سے سرگرمیوں کو حتمی شکل دے رہی ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی ممکنہ خواتین مارچ کا ذکر سوشل میڈیا پہ کیا جا رہا ہے ۔تمام دنیا میں اور وطن عزیز میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے سیمینار ، واک ، اور دیگر سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی جن کا مقصد بظاہر معاشرے میں خواتین کو ان کا جائز مقام دلانا ہے لیکن درپردہ کچھ مخفی عزائم بھی اس ایجنڈے کا حصہ ہیں جن کا پردہ چاک ہونا بےحد ضروری ہے ۔
ا س حوالے سے نوکِ قلم سے کچھ لکھنے کی کوشش کی تو ذہن ماضی کی سب سے پہلی عورت تک جا پہنچا جس کے وجود سے انسانیت نے جنم لیا ہے ۔ اماں حوّا کا ذکر جنہیں رب العزت نے اشرف المخلوقات کے طور پہ پیدا کیا اور ان کی تخلیق کا مقصد یہ بتایا کہ اسے آدم کو سکون پہنچانے کے لیے تخلیق کیا ۔عورت کو انسانیت کی پیدائش اور نشونما کا ذمہ دار بنا کر دنیا میں بھیجا گیا اور اسے ماں جیسا اعلی ٰ مقام دیا گیا ۔تمام بنی نوع انسان ایک آدم اور حوّا کی اولاد ہیں ۔ لیکن شیطان کے ایجنٹوں نےایک طرف دینی تعلیمات کی آڑ لیتے ہوئےدین کی ایسی تشریحات کیں کہ اس ہستی کو جنت سے انسان کو بے دخل کرنے کا سبب بنا ڈالا ۔عورت کو کم عقل اور بے وقوف قرار دیا اور تمام معاملات میں اس کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا۔دوسری جانب شیطانی ٹولے نے غیر دینی ، مادی اور عقلانی بنیادوں پہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا ہی انکار کر ڈالا اور اسے محض ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ گردانا ۔ دونوں صورتوں میں عورت کو محض جنسی سرور کا ذریعہ سمجھا گیا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انسان نے حق کو بھلا دیا اور اس کے ذہن پہ جہالت کا پردہ آپڑا۔ عورت کی بدنی کمزوری کو اسے کمزور مخلوق گردانا گیا ۔
ماضی کے ہی دھندلکوں میں ایک اور تصویر نور کا غلاف اوڑھے نظر آتی ہے جو ایک ننھی جان کو لئے عرب کے لق و دق صحرا میں اکیلی کھڑی ہے ۔ جب شوہر نے اسے اس مقام پہ لا کر کھڑا کیا تھا تو یہ مجسم اطاعت بنی صرف اتنا پوچھ سکی کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو اور جواب ملا تھا اللہ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں ۔ اور اس مجسم اطاعت نے دوسرا سوال تک نہ کیا ۔ یہ بیبی ہاجرہ تھیں جو ننھے اسمعیل ؑ کو لیے اس دشت بیاباں میں بیٹھ گئیں ۔ جب بچے نے پیاس کی شدت سے پانی مانگا تو تو بے اختیار کبھی صفا کی پہاڑی پہ چڑھ دوڑتیں تو کبھی مروہ کی جانب دوڑتیں ۔ اللہ نے اس سمع و اطاعت کے پیکر کی یہ دوڑ اتنی پشند فرمائی کہ قیامت تک کے لئے ان تمام مردوں کے لیے جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یہاں آکر اسی طرح دوڑنا لازم کر دیا ہے ۔ اور اس ہستی کی دوڑ کے نتیجے میں یہا ں پانی (آب زمزم )کا جو چشمہ رواں کیا گیا تھا وہ تا قیامت لوگوں کی پیاس بجھاتا رہے گا اور انہیں شفا دیتا رہے گا۔لیکن اس کے کردار کو بھی اسی طرح مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس ساری داستان کو سوتن کے بغض اور حسد کی کارستانی گردان کر عورت کا اصل مقام ذہنوں سے محو کیا گیا ۔

یہاں اس ہستی کا ذکر بھی لازم ہے جو وقت کے ایک طاقتور حکمران کی بیوی تھی ۔ وہ مصر کی ملکہ (آسیہ )تھی اور تمام وسائل اس کے قدموں میں ڈھیر تھے ۔ جب اس کے شوہر فرعون مصر نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم دیا تھا تو یہی خاتون دریا میں تیرتے ایک ننھے بچے کو گود لیتی ہے اور اسے پال کر جوان کر دیتی ہے ۔ اور جب یہ جوان موسیٰؑ کلیم اللہ رب کا پیغام لے کر دربار ِفرعون میں جاتا ہے اور حق کی دعوت دیتا ہے تو یہ خاتون بھی اسکی دعوت پہ ایمان لے آتی ہیں اور پھر دورِ ابتلاء شروع ہوتا ہے اور یہ خاتون صبر و استقامت کی تصویر بن جاتی ہے ۔انسانیت کے لئے چھوڑے گئے ان نقوش پا کو محو کرنے کے لئے شیطان نے پھر وہی گھاؤ آزمائے اور تشریحات کے ذریعے اس عظیم ہستی کا کردار بھی ذہنوں سے مسخ کرنے کی کوشش کی ۔

اسی طرح ایک مجسم شرم و حیاء کا نورانی وجود آنکھوں میں جھلملا جاتا ہے جو اپنے نوزائیدہ بچے کو لیے کھڑی ہے اور خاندان اور قبیلے کے لوگ اس کےکردار پہ انگلی اٹھا رہے ہیں اور طعنے مار رہے ہیں ۔جی ہاں یہ مریم ؑ ہیں جو دین کے لیے وقف کر دی گئیں تھیں اور جنہیں کسی مرد کی نگاہ نے دیکھا تک نہ تھا اب ننھے عیسیؑ لو لیے کھڑی ہیں ۔ ایک طرف لوگوں کے تیر و نشتر تھے تو دوسری طرف مریم ؑ کی خاموشی اپنی بے گناہی کا دفاع کر رہی تھی ۔ اللہ تعالٰی اس کی پاک دامنی کو بیان کرنے کے لئے اس کے شیر خوار بچے کو قوت کلام عطا کرتے ہیں اور ایک شیر خوار خود اپنی ماں کی پاکدامنی اور اللہ کے معجزے کا بیان کرتے ہیں ۔ تب جا کر لوگوں کی تشویش ختم ہوتی ہے ۔اب شیطانی ٹولہ حرکت میں آتا ہے تو اس شخصیت سے محبت رکھنے والوں کو اس قدر غلو میں مبتلا کرتا ہے کہ وہ مریم علیھا السلام کو الوہیت کے درجے پہ لے گئے اور جن کے دلون میں ان کے لئے نفرت تھی انہوں نے سیدہ کے خلاف برے گمان کی بنیاد پر دشمنی شروع کر دی ۔
مقدس ہیں ناقد سبھی اس کے منصب
ہے اک روپ تسکین و راحت کا عورت

تاریخ خود کو دہراتی بھی ہے اور وہی نقوشِ پا ہمیں بعد کے زمانے میں بھی ملتے ہیں جہاں ہاجرہ ؑ کا ذکر خیر ہوا وہیں ہمیں ام المومنین خدیجۃ الکبری ٰ ؓ بھی نظر آتی ہیں جو ایک تاجر تھیں لیکن اپنا مال اپنے شوہر کے سپرد کر دیا اور خود بنت ِحوّا بن کر اسکی اولاد کی نشو نما میں زندگی بسر کر دی ۔ جب دوجہاں کے آقا محبوب ِ خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ پہ غار حرا میں وحی نازل ہوئی تو وہ گھبرا گئے اور اسی حالت میں گھر پہنچے اس وقت آپ کی زوجہ خدیجۃ الکبری ٰ ؓ نے ہی آپ کی ڈھارس بندھائی اور آپ کو حوصلہ دیا ار پھر یہی نہیں بلکہ زندگی کی آخری سانس تک ڈھال بن کر نبی ﷺ کی حفاظت بھی کرتی رہیں اور ہر آزمائش اور امتحان میں آپ ﷺ کے ساتھ رہیں ۔ بی بی مریم ؑ کی طرح ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا عکس دکھائی دیتا ہے جو ایک اونٹنی پہ سوار قافلے کی جانب رواں دواں ہیں لیکن منافقین اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہی الزام اور وہی طعنے شروع کر دیے جو حضرت مریم ؑ پہ لگائے گئے ۔ اللہ رب العزت نے اس عفت ماب خاتون کی پاکدامنی کی گواہی خود دی۔ تب جا کر منافقین کی زبانیں خاموش ہوئیں۔ بی بی آسیہ کی طرح حضرت سمیّہ ؓ نے اپنے وقت کے فرعون یعنی ابوجہل کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا تو ابوجہل نے انتہائی دردناک طریقے سے انہیں شہید کر دیا ۔ انہی ہستیوں میں اسماء بنت ابوبکر ؓ بھی نظر آتی ہیں جو حالات کی سنگینی کی پروا کیے بغیر ہجرت کے سفر میں رسول اللہ ﷺ کو کھانا فراہم کرتی ہیں اور یہ وہی ہستی ہیں کہ اپنے بیٹے عبداللہ ابن زبیر ؓ کو جہاد کو بنو امیہ کی فوج کے خلاف جہاد کے لئے روانہ کرتی ہیں تو ان کی زرہ اتروا دیتی ہیں ۔وہ ام عمارہ ؓ بھی دکھائی دیتی ہیں جو تلوار لہراتی ہوئی کفار سے نبرد آزما ہیں اور نبی ﷺ کا دفاع کرتی ہیں ، وہ خنساء ؓ بھی ہیں جو اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر سن کر شکر بجا لاتی ہیں ،وہ زینب بنت علی ؓ بھی ہیں جو واقعہ کربلا کے بعد خانوادہ ٔ اہل بیت کی ڈھارس بنتی ہیں ۔ اور عزیمت کا استعارہ قرار پاتی ہیں ۔ رابعہ بصری ؒ اپنی عبادت اور ریاضت میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں ۔
نفاست ، نزاکت ،فراست ،شرارت
مرقع ہے حسن و صباحت کا عورت

ان منارہ ٔ نور ہستیوں کے کردار کا مطالعہ کیا جائے توعورت کے اصل مقام کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ اولاً عورت کو بحیثیت انسان تخلیق کیا گیا ہے اور یہ بھی اشرف المخلوقات ہے ۔ عورت کو آدم ؑ کے جسم کے ایک حصے سے تخلیق کیا گیا ہے اس لیے عورت اور مرد کوئی علیحدہ علیحدہ مخلوقات نہیں ہیں ۔ثانیا ً عورت کو مرد کے ساتھی کے طور پہ پیدا کیا گیا ہے تاکہ اس کے سکون کا ذریعہ بن سکے ۔ ثالثاًعورت کو نسل انسانی کی تخلیق اور نشو نما کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے تاکہ نسلِ انسانی آگے بڑھ سکے ۔ رابعاًعورت کو با حیا بنایا گیا ہے اور اس کی عصمت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے ۔ خامساً عورت کو بردباد، حلیم الطبع اور نرم دل بنایا ہے تاکہ وہ اپنے مقام اور مرتبے سے متعلق امورکو باَحسن ادا کر سکے ۔عورت کو اعلی ٰ مقام دینے کے لیے اللہ تعالی ٰ نے دین کے ذریعے احکامات نازل کیے ہیں ۔ اولاً عورت کو جینے کا حق دیا ہے اور بچیوں کے پیدا ہونے پہ قتل کرنے کو منع قرار دیا ہے اور ایسا فعل کرنے پر شریعت نے سزا وار بھی قرار دیا ہے ۔ثانیاً نسل انسانی کے فروغ کے لیے عورت کی شادی کو مشروع کیا ہے ۔ نکاح کو اس کے لیے لازم کیا ہے۔ ثالثاً عورت کو بھی مرد کی طرح آزادی دی ہے اور(غلاموں اور لونڈیوں کے علاوہ ) اس کی خرید و فروخت کی اجازت نہیں دی۔کوئی بھی کسی آزاد عورت کو خرید یا بیچ نہیں سکتا ۔ رابعاًاسکی عصمت کو حرام قرار دیا ہے لہذا اس سے زنا کی جازت قطعاً حرام اور قابل سزا جرم قرار دیا ہے ۔ خامساً اس کی حیا ء کی حفاظت کے لیے مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا ححکم ہے اور عورت کو ستر کے ساتھ ساتھ حجاب و پردے کا پابند کیا گیا ہے تاکہ کسی کی نظر بد اسکی حیاء کو داغدار نہ کرے ۔ اسکے ساتھ ساتھ عورت کو لباس کے معاملے میں محتاط کیا ہے کہ ایسا لباس جو اس کی شرم و حیا کو متاثر کرے یا ایسی چال ڈھال جو اسکی حیاء کو مشکوک بنائے وہ سب بھی حرام کیے گئے ہیں ۔ سادساً عورت کی نرم مزاجی اور نازک طبیعت کے پیش نظر اسے چادر اور چار دیواری کا تحفظ عطا کیا ہے اور اس کے خرچ کا ذمہ دار مرد کو بنایاگیا ہے اسی طرح اس کی عفت کا محافظ بھی مرد کو بنایا گیا ہے ۔ اگر ان تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو دین نے عورت کوماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں بلند مقام عطا کیا ہے اور اسکی مثال کوئلوں کی کان میں کوہ ِ نور ہیرے جیسی ہے جس کی حفاظت اس سے متعلقہ مردوں پہ لازم قرار دی گئی ہے ۔
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکاں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون

مغرب کی بد قسمتی رہی ہے کہ مذہب کے اقتدار کے دور میں مذہبی تاویلات نے اہل مغرب کے دل و دماغ پہ پردہ ڈالے رکھا اور وہ عورت کو کم تر اور حقیر مخلوق سمجھتے رہے لیکن مذہب کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد وہ عقلانیت کے فریب میں مبتلا ہوئے اور عورت کو اس مقام سے بھی گرا دیا جس پہ وہ پہلے کھڑی تھی ۔اول تو ڈارون کے نظریے کے تحت انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا انکار کیا گیا اور اسے ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دیا گیا ۔ اس فلسفے تے مطابق انسان دیگر جانورون کی طرح ایک جانور ہے جو اپنی بقا کے لیے کمر بستہ ہے ۔ اس لیے وہی باقی رہے گا جو بقا کے لیے سب سے زیادہ وسائل جمع کرے گا ۔ لہذا عورت کو بھی اپنی بقا کے لیے حصول وسال کے لیے دوڑنا ہوگا۔ ثانیاً مادہ پرستی نے اہل مغرب کے مردوں کو پیسے کمانے کی مشین بنایا تو وہاں عورت کو بھی بے توقیر کر ڈالا۔ عورت کو بطور عورت قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ عورت کو اسی صورت قبول کیا جائے گا جب وہ مرد بن جائے ۔ اگر عورت کمائی کا ذریعہ نہیں تو اس کی کوئی قدر نہیں ۔ اس لیے آزادی کے نام پر اس سے گھر کی چادر اور چاردیواری چھڑوائی گئی ۔ ثالثاً عورت کو معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے خود کو جاذب نظر بناے کی دوڑ میں لگا دیا گیا یوں اس کو بے حجاب بھی کیا گیا اور حیا کا پردہ اس سے ہٹا دیا گیا ۔ رابعاً مردوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی فطری اور بشری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسے مردوں کے سامنے بے لباس بھی ہونا پڑا اور مغرب نے اسے جنسی آزادی کے نام پر مزید استحصال کا نشانہ بنایا۔خامساً سکمڈ فرائڈ کے فلسفے کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد صرف جنسی سرور کا حصول ہے اور اسی نظریے نے مغرب میں عورت کو جنسی تسکین کا ذریعہ بنا ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام درہم برہم ہو گیا ۔ اس آوارگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد سے جان چھڑانے کے لیے جو راہ اپنائی گئی اس نے نسل انسانی کو ہی معدومیت کی طرف گامزن کر دیا ۔
حوا کی بیٹی بنی میں آدم کو وجود میں لانے کے لئے
ہے بے تاب ہر شخص مجھ کو مٹانے کے لئے

تیزی سے ترقی کرتے مغرب نے ترقی کی منازل سائنسی تحقیق اور ایجاد و دریافت کے بل بوتے پہ طے کی ہیں نہ کہ اپنی اس ننگی تہذیب کی بنیاد پر لیکن یہ بھی ایک فطرتی امر ہے کہ پسماندہ معاشرے ہمیشہ ترقی یافتہ معاشروں سے مرعوب بھی ہوتے ہیں اور اور ان کی جانب راغب بھی ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ایک مغرب زدہ طبقہ مغرب کی ان سیاہ کاریوں کو عام کرنے کے لیے حقوق نسواں اور آزادی ٔ نسواں کا نعرہ لگا رہا ہے ۔ مغربی مشنری و رفاہی تنظیمیں ان کی پشت پناہی کرتی ہیں ۔ ان تنظیموں نے بظاہر تو فلاح انسانیت کا مشن اپنا رکھا ہے لیکن در حقیقت وہ مشرقی ممالک خصوصاً مسلم معاشروں میں دینی تعلیمات کے خلاف لوگوں کے اذہان میں شکوک و شبہات پہدا کر کے انہیں بے راہ روی کا شکار کرنا ہے ۔ ان تنظیموں کا اصل ہدف دین اسلام ہے ۔ یہ ہر صورت میں دینی تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انہیں جابرانہ قرار دیتے ہیں ۔ حیرت تو یہ ہے کہ جس عقلانیت نے مغرب میں مذہب کو کاروبار زندگی سے باہر دھکیل کر گرجا گھروں تک محدود کر دیا اسی عقلانیت کی پشت پہ صیہونی مشنری تنظیمیں کیوں کھڑی ہیں ؟ وجہ صرف یہ ہے کہ دین حق کی صرف ایک سمت ہوتی ہے اور جو صراط مستقیم سے ہٹ کر ہو اسے سیدھے راستے کی طرف بلایا جاتا ہے اگر وہ قبول کرے تو ٹھیک ورنہ اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ دیگر مشنری مذاہب کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی ان کے مذہب کو قبول کر لے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت یہ ہے کہ اسے اپنے مذہب سے بھی بیگانہ کر دیا جائے ۔ اسی سوچ کے تحت عالمی تنظیمیں ہمارے نظام زندگی کو برباد کرنے کے در پے ہیں ۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی اور فحاشی کو ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچا دیا گیا ہے ۔ آزادی ٔ نسواں اور حقوق نسواں کے نام پر عورت کو استعمال کر کے خاندانی نظام کی بیخ کنی کی جا رہی ہے ۔ ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق شیطان کو سب سے زیادہ خوشی اپنے اس چیلے سے ہوتی ہے جو میاں اور بیوی میں طلاق کا سبب بنا ہو ۔ ان مشنری تنظیموں کا مقصد بھی خاندانی نظام میں مساوات کے نام پر عدم توازن پیدا کر کے تباہ کرنا ہے ۔ تباہ شدہ خاندانی نظام خود بخود معدومیت کی راہ پہ قوم کو گامزن کر دیتا ہے ۔
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کہ زمرد کا گلوبند!

مشرقی معاشروں میں عورت کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورت انہی مسائل کا شکار ہے جو دورِ جاہلیت میں اسے درپیش تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت نیا لبادہ اوڑھ کر عود آئی ہے اور موجودہ دور کی مادہ پرستی اور مادر پدر آزاد عقلانیت کو جاہلیت جدیدہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔موجودہ دور میں بھی عورت جینے کے حق سے محروم کی جا رہی ہے خاص کر جن ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کے تحت اولاد کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ان ممالک میں اولاد کے خواہاں افراد کو نرینہ اولاد کی خواہش ہوتی ہے جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے لہذا وہ ابتدائی ٹیسٹ سے یہ معلوم ہونے پہ کہ پیدا ہونے والی لڑکی ہے تو اسقاط حمل کروا دیتے ہیں ۔ اس وقت عورت کو جینے کا حق ملنا چاہیے لیکن یہی عالمی تنظیمیں خاندانی منصوبہ بندی کی پشت پناہی کر کے عورت کے اس حق زندگی کو تلف کر رہی ہیں ۔ اسی طرح یہ تنظیمیں عورت کے نسلِ انسانی کے فروغ کی بنیادی ذمہ داری میں بھی رکا وٹ بن رہی ہیں ۔ان معاشروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہونے کے باعث بیش تر خواتین کی شادیاں نہیں ہو پاتیں ۔ اس کا حل یہ ہے مرد ایک سے زائد شادیاں کرے تاکہ معاشرے میں عورت کو جائز طریقے سے رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہونے کا موقع مل سکے ۔لیکن یہ عالمی تنظیمیں ہر ملک میں مرد کی دوسری شادی پہ پابندی کے قوانین منظور کرا رہی ہیں ۔ اس طرح کی قانون سازی ایک بڑی تعداد میں خواتین کو شادی کے حق سے محروم کر رہی ہے ۔ جب خواتین کی ایک بڑی تعداد کو فطری بشی تقاضوں کو جائز طریقے سے پورا کرنے سے روکا جائے گا تو وہ ناجائز طریقوں سے اپنی بشری ضرورت کو پورا کریں گی جس کی وجہ سے لازما فحاشی و عریانی کے دروازے واء ہوں گے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خواتین کے حقوق غصب ہونے سے بچائے جائیں ۔ مادہ پرستی کے عفریت نے عورت کو گھسیٹ کر گھروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ ترقی کے لیے خواتین کو بھی کمائی کی دوڑ میں جھونک دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خواتین کی شادیوں میں تاخیر اور شرح طلاق میں اضافہ ہوا ہے ۔ دونوں صورتوںمیں خواتین کی ازدواجی زندگی پہ گہرا اثر مرتب ہوا ہے ۔ مردوں کی تعدّدِ ازدواج پہ پابندیوں کے باعث طلاق یافتہ اور بیوا خواتین بھی ناپرسانِ حال ہیں ۔ معاشرتی مساوات کے نام پر عورت کے باہر کام کرنے کی وجہ سے خاندانی توازن بھی بگڑا ہے اور گھریلو نااتفاقیوں اور گھریلو تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔مادہ پرست مغرب نے میڈیا کی طاقت سے خواتین کو مساوی حقوق لا لالچ دے کر گھرون سے تو باہر نکالا ہے لیکن اسے برابری دینے کے بجائے سرمایہ داری نظام کے لیے چارہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔ سرمایہ داروں نے عورت کو سستے اجیرکے طور پہ ہاتھوں ہاتھ لیا ہے ۔ جو اجرت مرد وصول کرتا ہے اس کے نصف پہ وہی کام ایک عورت سے لیا جا سکتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں مردوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھی ہے ، خاندان کے کفیل کو ایک سے زیادہ روزگار اپنانے میں لگایا گیا ہے اور عورت کو بھی گھر سے نکال کر بچوں کو تربیت اور والدین کی صحبت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ تربیت اولاد کا فریضہ بھی متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور ایک غیر تربیت یافتہ معاشرے میں عورت کا بطور ماں بہن ، بیوی اور بیٹی کا مقام بھی مفقود ہونے کے در پہ ہے ۔عورت کی معاشی کفالت اگرچہ مرد کی ذمہ داری قرقر دی گئی ہے پھر بھی عورت کو معاشی لحاظ سے ملکیت کا حق دیا گیا ہے ۔ عورت اپنی ملکیت میں موجود مال کو اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہے ۔ اسی طرح اسے حق مہرکا مالک اور وراثت میں حصہ دار بھی بنایا گیا ہے ۔لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ مشرقی ممالک میں عورت کے یہ حقوق غصب کیے جارہے ہیں جو ایک قابل تعزیر جرم ہے لیکن ان جرائم پہ مغٖربی چرز کی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں ۔ اگر بات کی بھی جاتی ہے تو عورت کے وراثت میں کم حصے کو زیر بحث لایا جاتا ہے تاکہ مذہبی تعلیمات کو معیوب قرار دیا جا سکے۔

عورت کے اصل مسائل سے باخبر ہونے کے بعد کوئی بھی شخص تجزیہ کر سکتا ہے کہ عورت کے نام پہ بنی تنظیمیں اور ان کی پشت پہ کھڑی عالمی تنظیمیں کس ایجنڈے پہ کام کر رہی ہیں ۔ کیا وہ عورت کو اسکام مقام دلانے کے لیے سرگرم عمل ہیں یا خود پٹڑی سے اتری ریل کی مانند یہ خواتیندیگر خواتین کو بھی اپنے مقام سے گرانے کا عزم رکھتی ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو یہ عالمی تنظیمیں عورت کی خیرخواہ بن کر اس کی تباہی کا ساماں کر رہی ہیں ۔ واہیات اور غلیظ جملوں کے ساتھ مارچ کرنا اور اخلاق باختہ حرکات کرنا اور معاشرتی اقدار کا تسخر اڑانا کسی طور بھی حقوق نسواں کا ایجنڈا نہیں ۔ نہ ہی موٹر سائکل اور سائیکل پہ سوار ہو کر مردوں کے لیے تحقیر آمیرز جملے کسنا اور گوریلا مارچ کر کے دکھانا یا رقص و سرور کر کے میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے لگانا آزادی نسوان نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک سراپا شرم و حیاء کی بیچ بازار میں توہین ہے۔

عورت کا اصل مقام وہی ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسول نے متعین کیا ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر کوئی مقام متعین کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ بھی عورت کی حقتلفی پہ ہی منتج ہو گی۔وہی عورت اپنا مقام حاصل کر سکے گی جو اپنی اقدار پہ قائم رہتے ہوئے اپنے تشخص کی حفاظت کرے گی ۔ ماضی میں ہی اپنا مقام پیدا نہیں کیا بلکہ ہم عصر دنیا میں بھی عورت نے اپنا لوہا منوایا ہے ۔لیبیا کی فاطمہ بنت عبداللہ ہوں یا مصر میں آمریت کے خلاف ڈٹ جانے والی زینب الغزالی ہوں یا کشمیر میں بھارتی جبر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی آسیہ اندرابی ہوں ، پاکستان میں لاپتہ افراد کے حق میں آواز بلند کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ ہوں یا امریکہ کی جیل میں استقامت کا مظاہرہ کرنے والی عافیہ صدیقی ہوں یایورپ میں حجاب پہ استقامت دکھانے والی مروۃ الشربینی ہوں یا حال ہی میں پاکستان کی یتیم بچیوں کی آواز بننے والی افشاں لطیف ہوں یہ سب وہ خواتین ہیں جنہوں نے اپنا مقام پیدا بھی کیا ہے اور زمانے سے منوایا بھی ہے۔ زمانہ خواہ کوئی بھی ہو ان خواتین کو سلام پیش کیا جاتا رہے گا جو حالات کی سنگینی کے باوجود اپنے اقدار پہ سودا کرنے کے بجائے عزیمت کی راہ اختیار کریں گی ۔
نہیں ہے اس کی ہستی کا کوئی نعم البدل مشعل!
عطا جس کو ہوا کارِ امومت ایک عورت ہ

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105349 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More