سالہا سال پہلے کی بات ہے کہ بلدیاتی الیکشن کی
تیاریاںجاری تھیں۔ایک یونین کونسل کے مختلف علاقوں کے افراد ایک میٹنگ میں
اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے یونین کونسل میں شامل مختلف علاقوں میں
ووٹوں کی صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے۔اس یونین کونسل میں شہری آبادیوں کے
علاوہ دیہی آبادیاں بھی شامل تھیں،دیہی آبادیاں اس لحاظ سے کہ وہاں مقامی
برادریوں کے افراد رہتے ہیں اور ان کے اکثر معاملات،جن میں سیاسی معاملات
بھی شامل ہیں، برادریوں کی بنیاد پر ہی طے کئے جاتے ہیں۔ایسی ہی ایک دیہی
آبادی کے ایک بزرگ نے شہری آبادی کے ایک شخص سے اس کے علاقے میں متوقع
ووٹوں کی تعداد کے بارے میں سوال کیا تو شہری نے جواب دیا کہ ہمارے علاقے
کے گھروں میں ووٹ تقسیم ہوتے ہیں،گھر کا ہر فرد اپنی مرضی سے ووٹ دیتا
ہے،خواتین بھی اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دیتی ہیں۔اس پر دیہی آبادی کے بزرگ
نے کہا کہ ہمارے علاقے کے ووٹ ایک ہی امیدوار کو ڈالے جاتے ہیں،ہمارے ووٹوں
میں کوئی تقسیم نہیں ہوتی،ساتھ ہی اس بزرگ نے فخر سے کہا کہ ابھی ہماری
عورتیں ہمارے کہنے میں ہیں،ہم جہاں کہتے ہیں ہماری خواتین اسی کوووٹ دیتی
ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کو عمومی طور پر اب بھی کم درجے کی حیثیت میں
سمجھا اور برتا جاتاہے۔خواتین میں تعلیم عام ہوتے ہی خواتین میں اپنے حقوق
سے متعلق آگاہی پیدا ہو رہی ہے اور اسی تناظر میں خواتین کے مختلف حلقوں کی
طرف سے مختلف نوعیت کے مطالبات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔جبر کسی انسان پربھی
جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔آزادانہ رضامندی مرد یا عورت سے قطع نظر ہر
انسان کے لئے لازم ہے،چاہے اس کا تعلق کسی سماجی،معاشی یا سیاسی معاملے سے
ہو ۔جن معاشروں میں شہری حقوق کی دستیابی ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ہو ،وہاں
خواتین کے حقوق کا معاملہ بھی دب جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ دنیا کے گلوبل ولج
میں تبدیل ہونے سے ہر شعبے میں ایک عالمی سطح کا معیار سامنے آ رہا ہے،
چاہے وہ معاشرتی ہو،معاشی یا سیاسی،دنیا کے ہر خطے کے انسانوں کے لئے حقوق
کے حوالے سے یکساں معیار کا مطالبہ سامنے آتا جا رہا ہے۔ہر معاشرہ تغیر کے
عمل سے گزرتا ہے جس سے معاشرتی طور طریقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
تبدیلی آتی جاتی ہے۔
جن ملکوں میں قانون کی عملداری کمزور اور مغلوب ہے،ان معاشروں میں خواتین
کے حقوق کے حصول کی بات تو ایک طرف ،خواتین کے تحفظ کی صورتحال بھی
تشویشناک حالت رکھتی ہے۔قانون کی کمزور عملداری کی صورتحال سے خواتین کے
لئے مختلف نوعیت کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پاکستان میں جو حلقے بھی
خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں،انہیں خواتین میں لازمی تعلیم کے
لئے اپنا سرگرم کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ تعلیم کے بغیر خواتین کی حالت
کو بہتر بناتے ہوئے انہیں درپیش مسائل و مشکلات کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا
۔
قانون کی تعلیم سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی کام اگر درست طریقے
سے کیا جائے تو وہ جائز کہلاتا ہے اور کوئی بھی کام کرتے وقت اگر اس حوالے
سے متعین طور طریقوں کو نظر انداز کیا جائے تو وہی اقدام ناجائز قرار پاتا
ہے۔خواتین کے حقوق اور ان کی آزادانہ مرضی کے حوالے سے خواتین میں تعلیم کا
حصول بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے جس سے خواتین باشعور شہری کے طور پر
اپنے حقوق کا موثر دفاع کر سکتی ہیں۔تعلیم کے ذریعے ہی خواتین اس قابل ہو
سکتی ہیں کہ وہ معاشرے میں بلا کسی خوف و خطر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ |