گھر اور فیملی کے تصور کے ساتھ ایک کیفیت سکون اور راحت
کی ملحق ہے۔جب بھی گھر سے دور کہیں جانا پڑے تو واپس لوٹنے اور گھر میں
داخل ہونے کے ساتھ جو سکھ کا سانس ہے ،وہ خود بخود آتا ہے ۔اس لئے کہ گھر
جاۓ قیام ہے اور زمانے کے حوادث سے بچاؤ کی پناہ گاہ بھی ۔لیکن اس وقت یہ
پناہ گاہیں اور "ایمان کے کہف" ہی خطرے میں ڈال دئیے گئے ہیں ۔رشتوں اور
ناطوں کے تانے بانے جو میاں بیوی ،والدین اولاد ،میکہ سسرال ،بہن بھائیوں
سے مل کر وجود پاتے ہیں ،ان کی بنیاد پر چوٹ لگائ جارہی ہے۔یہ خوبصورت رشتے
اور تعلق ہی تو ہمارے تمدن اور خاندانوں کی بنیاد ہیں جن سے معاشرہ تشکیل
پاتا ہے۔اگر یہ نہ ہوں تو سماج ،سماج نہیں رہتا بلکہ ایک جھاڑ جھنکار سے
بھرا جنگل بن جاتا ہے ،حیوانوں اور درندوں کی آماجگاہ جس میں ہر قوی جانور
،کمزور کو کھا جاتا ہے اور کوئ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ان رشتوں میں پہلا رشتہ ،شوہر بیوی کا رشتہ ہے جس کے بارے میں کتابوں میں
درج ہے کہ جب نوع_انسانی کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئ تو وہ
اکیلے پن کے سبب اداس رہتے تھے۔ان کی اداسی کو دیکھتے ہوۓ اللہ رب العالمین
نے حضرت حوا علیھا السلام کو تخلیق فرمایا اور انسانی تمدن کا آغاز ہو ۔اگر
شوہر بیوی کا رشتہ مضبوط اور مربوط ہو تو گھر بھی اچھا لگتا ہے وگرنہ اس
رشتے میں دراڑیں پڑ جائیں تو بڑے بڑے سازوسامان سے بھرے گھر بھی ویرانے میں
تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس رشتے اور تعلق کی مضبوطی کا سارا دارومدار حقوق وفرائض
کے شعور،باہمی اعتماد اور ذہنی ہم آہنگی پر ہے۔یہ شعور ہمیں دین_اسلام کو
سمجھنے سے ملتا ہے۔جب تک ہم دین اسلام کا مطالعہ نہ کرلیں ،کسی رشتے اور
ذمہ داری کو نبھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔جس طرح ایک مشین کو اس کی مینوئل
بک کے بغیر چلانے سے خراب ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔زندگی کا سفر آسان
نہیں ہے۔بہت سے نشیب وفراز ،مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر
میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا ہوں ،ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جائیں
تو وہ اپنی اولاد کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں ،بزرگوں کی ضروریات
کا خیال رکھ سکتے ہیں بلکہ کئ بے سہاروں کو سپورٹ کر سکتے ہیں ۔
ہم بحیثیت مسلمان جن نبئ کریم ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے ہدایت کی تھی کہ رشتہ
کرتے وقت ایمان والی عورت کا انتخاب کرنا اور آپ نے نیک بیوی کو دنیا کا
بہترین سامان قرار دیا۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو وہ بھی ایک ایمان والی
خاتون حضرت حاجرہ تھیں جو اپنے صبرواستقامت کی بدولت "بلد_امین مکہ
مکرمہ"کی آبادی کا ذریعہ وسبب بنیں ۔دین اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے
والی بھی ایک خاتون حضرت خدیجہ ؓ تھیں جو اپنے شوہر کے عظیم مشن کی پشتیبان
بنیں ۔حضوراکرمﷺ کے جنت میں جانے کے بعد جو سب سے پہلے آپ سے ملیں گی وہ
حضرت فاطمة الزھراء ؓ ہوں گی۔ہمارے لئے صحابیات ؓ ہی اسوہ اور رہنما ہیں جن
کی روشن زندگیاں اس قابل ہیں کہ ان کی پیروی کی جاۓ۔
آج جو لبرل ،بے دین خواتین "میرا جسم میری مرضی "اور "نکاح کو ختم کرو"جیسے
نعرے لگا کر گھروں ،خاندانوں کو ڈھادینے کے درپے ہیں ،کیا وہ گاڑی چلاتے
ہوۓ ٹریفک قوانین کو توڑ سکتی ہیں کہ میری گاڑی میری مرضی ؟نہیں، اس لئے کہ
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے ان کی اپنی گاڑی بھی حادثے کا شکار ہوسکتی
ہے۔ہر جگہ اور ہر مرحلے کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پیروی ضروری
ہوتی ہے۔
اس وسیع و عریض کائنات کے بھی کچھ اصول و قوانین ہیں ۔رات اور دن کے آنے
جانے،سورج اور چاند کے مقررہ اوقات میں ،موسموں کی گردش ،ہواؤں کے ساتھ
بادل اور بارش میں ،سردی اور گرمی کی حالتوں میں ۔۔۔انسان کی مرضی نہیں
بلکہ اللہ کی مرضی چلتی ہے۔یہ سارا نظام وہی چلا رہا ہے۔ جس کو یقین نہیں
آتا وہ چائنہ کو دیکھ لے ۔جہاں حکمرانوں نے مسلمانوں کو "وائرس"قرار دیا تو
اللہ نے ان پر کرونا وائرس مسلط کردیا۔ انھوں نے مسلم خواتین کے نقاب
اترواۓ تو رب العالمین نے پوری چینی قوم کو ماسک پہنا دئیے۔انھوں نے
مسلمانوں کو مساجد جانے سے روکا تو خود موت کے ڈر سے مساجد جاکے دعائیں
مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔۔!
اور دیکھیں غوروفکر کی نگاہ والے ۔۔۔بھارت نے کشمیری مسلمانوں سے آزادی کا
حق چھینا تو شہنشاہوں کے شہنشاه ،اللہ رب العالمین نے "ہم کیا مانگیں
۔۔۔آزادی! "کا نعرہ بھارت کے ہر صوبے میں لگوادیا ہے
~ تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے!
آخر یہ انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ میرا جسم میری مرضی ؟کیا آپکا جسم آپکی
مرضی سے کام کر رہا ہے ؟یہ ہاتھ پاؤں ،دل جگر کا کام کرنا ،سانس کی آمدورفت
۔۔۔یہ سب کچھ اللہ کی مرضی کا مرہون_منت ہے۔وہ "کن"کہہ دے تو بیمار کو شفا
مل جاتی ہے۔اس کی اجازت نہ ہو تو بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی موت سے نہیں بچا
سکتا اور انسان کو کفن پہنا کے قبر کے حوالے کردیا جاتا ہے ! |