اس معاشرے کو سدھارنا، سنوارنا اور اسلامی اصولوں کی طرف
گامزن کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم فرقہ واریت کو پسِ پشت رکھ کر ایک
ہونے کی سوچ کو پختہ نہ کر لیں۔اسی خرابی کی وجہ سے مغربی تنظیمیں ہم پر
بڑی سہولت کے ساتھ حاوی ہو جاتی ہیں اور ہمارے خیالات و افکار کو بدلنے،
اختلافات بڑھانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیتی ہیں اور ہم بے وقوفوں کی طرح ٹی
وی کی نشریات میں ہونے والی بحثوں کو سر پر سوار کر لیتے ہیں اور پھر تنقید
برائے تنقید کا سہارا لے کر خود ہی جج بننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اختلاف
بڑھتے بڑھتے فساد کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور فساد کی سب سے بڑی وجہ
ہماری لاعلمی، لا شعوریت، اور اسلام سے دُوری و تغافل ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں لادینیت اتنی عام ہے کہ نماز پڑھنے والوں کی اکثریت کو وضو کے
فرائض یا سنتیں تک یاد نہیں ہوتیں اور وہی لوگ اٹھ کر بے راہ عورتوں یا
مردوں پر تنقید کرنے لگتے ہیں کہ فلاں جاہل، بے دین اور بے حیا ہے۔ شاید ان
کے دماغوں میں اسلام صرف چار شادیوں تک محدود ہوجاتا ہے یا پھر کوئی اور
وجہ ہے؟؟ بھئی تم اپنے گریبان میں تو جھانکو اپنے دماغ کو تو جانچو کہ آخر
تمہیں کسی برائی کو واقعی برائی کہنے کے متعلق کتنا علم ہے؟ کیا تم واقعی
جانتے ہو کہ اسلام کیا ہے اور کسی برائی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
برائی پر تنقید کرنے کیلئے پہلی سیڑھی علم ہے، اور علم تنقید برائے اصلاح
سکھاتا ہے۔
اسلام سے پہلے عورتیں جن کی حیثیت راہ چلتے لوگوں کی ٹھوکریں کھاتے ایک
حقیر پتھر سے کم نہ تھی۔ جنہیں عریاں رکھ کر اپنی حوس کا نشانہ بنایا جاتا،
ان سے وراثت کا حق چھینا جاتا، ظلم و زیادتی کی جاتی،اس وقت نہ ہی عورت کی
کوئی عزت تھی اور ہی کوئی وقار۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آ
کر عورت کو عزت کا لباس بنایا اسے اک حقیر پتھر کی حیثیت سے نکال سیپ میں
چھپا انمول موتی بنایا جو سیپ سے نکل جائے تواسکا مول ہو اگر سیپ میں رہے
تو بےمول،یہاں تک کہ اسے بہن، بیٹی اور بیوی بنا کر مقام بلند کیا اور ماں
کی صورت میں جنت قدموں تلے ہونے کی نوید سنا کر عروج عطا کیا اور اپنوں کی
وراثت کا حقدار بنایا۔۔۔۔ یہی عورت کا مقام و مرتبہ ہے کہ جس سے مغربی
تہذیب حسد کرتی ہے کیونکہ مغربی تہذیب میں عورت کا وقار باقی نہیں رہا۔وہاں
عریانیت عام ہے اور خاندان کے خاندان تباہ ہیں، کالج لائف تک پہنچنے سے
پہلے ہی لڑکیاں زیادتی کا شکار ہوجاتی ہیں۔،اور تنظیموں کے ذریعے
پروپیگینڈے پھیلا کر مسلم خواتین کو گمراہ کرتی ہے اور اسے لباس ہوتے ہوئے
بھی بے لباس رہنے کا درس دیتی ہے اور اسے لبرل ازم کا نام دیتی ہے تاکہ
مسلم خواتین کا بھرپور فائدہ اٹھا کر انکا وقار چھینا جا سکے۔
نیو نیوز کی نشریات کا کلپ دیکھا تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ یہ لائیو
شو میں ہونا باقی تھا۔میں یہ نہیں کہوں گی کہ خلیل الرحمن سہی تو ماروی
سرمد غلط ہے!! بلکہ میں یہ کہوں گی کہ میڈیا جانتی ہے کہ تضاد پھیلانے سے
ریٹنگز میں اضافہ ہو گا لہذا انہوں نے اپنا کام کیا دوسری طرف ایک بہترین
رائٹر جو عورت کی فطرت لکھتا ہے اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سرعام گالیاں
دے کر اس عورت کو برے القابات سے نوازے، شاید کہ اپنے مذہب کے درس کا تھوڑا
سا بھی خیال یا مان رکھتے اور تنقید برائے اصلاح کرتے تو یہ نوبت نہ آتی
۔۔۔۔ اور رہی ماروی سرمد تو کو عورت کا مقام بتلانے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ
تھی کیا اور کیا بنا دی گئی۔۔۔۔۔
ب
ات کرنے، سمجھانے یا کسی کو راہ راست پر لانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جو محض
تنقید، لڑائی جھگڑوں سے حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے حکمت عملی اپنائی جاتی
ہے اور اخلاق کو مد نظر رکھا جاتا ہے جس کی تفصیل ہمیں اسوہ حسنہ سے ملتی
ہے۔ مگر ہم ہیں ہی جھگڑالو یہاں بات ہوئی وہاں آپس کے تضاد شروع ہو جاتے
ہیں کوئی مسلئے کو سمجھنے اسے حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا نہ ہی اصلاح
کرنے کی!!!
ارشاد ربّانی ہے
فَاَيْنَ تَذْهَبُوْنَ(التکویر:26)
پس تم کہاں جا رہے ہو؟
جب ہر حقیقت ہر اچھائی برائی تم پر اس قرآن میں واضح کر دی گئی۔ تمہیں حق و
باطل کا درس قرآن میں دیا گیا ایک نبی نے تم تک سارے پیغام پہنچا دئیے تو
پھر اس قرآن میں غوروفکر کے بجائے، سوچنے سمجھنے کے بجائے فساد پھیلا کر رب
کو بھول کے مغربیت کے چنگل میں پھنس کر آخر تم کہاں جا رہے ہو؟ سوچئیے کہ
کس رستے کی جانب گامزن ہیں ہم، کہاں جا رہے ہیں ہم۔۔۔۔!
|