پچھلے کئی دِنوں سے پورے مُلک میں ع سے عورت اور عورت
مارچ پر میم سے مردوں کا بڑا غلغلہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آٹھ
مارچ کومنائے جانے والے عورتوں کے عالمی دن پر عورت مارچ کے حوالے سے واضح
طور پر مخالفت اور حمایت میں شدت پسند گروپ پیدا ہوگئے ہیں۔دونوں ہی جانب
سے اِنتہا کو پہنچی ہوئی ضد ہے۔ ایک عورت کے مارچ کو رکوانے کے لئے زور دے
رہاہے۔تو وہیں دوسرا گروپ ہے کہ جو اپنی تمام تر ضد اور اندر اور باہر کی
این جی اوز کی مشینریز اور آزاد خیال سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ہر
قسم کے خطرات کے باوجود بھی آٹھ مار چ کوہر حال میں عورت مارچ کا انعقاد
چاہتاہے۔ جبکہ اعلی عدلیہ بھی پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اپنے حقوق کے لئے آواز
بلند کرنے کی عورتوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ اظہارے رائے کا استعمال کریں
۔مگر کوئی ایسا نعرہ یا عمل نہ ہونے پائے۔ جس سے نقص امن اور خود عورت کا
اپنا تقدس پامال ہو۔اِس سے قطعاََ اجتناب کیا جائے۔اَب دیکھتے ہیں کہ اِس
عمل میں کون کتنا کس کا خیال کرتاہے؟
دنیا کے بھی عجیب رنگ ہیں ،جہاں ہر روز کوئی عجیب کہانی یا نیا واقعہ جنم
لے لیتا ہے، دانا کہتے ہیں کہ دنیا کی زندگی ایسی کہانیوں اور حالات واقعات
کے ساتھ اِسی طرح گرد گھومتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے اور بڑھتی جائے گی ۔جس دن
کہانی اور واقعات کے پیدا ہونے کا عمل رک جائے گا ۔تو سمجھ لو کہ دنیا ختم
ہوگئی ہے ۔
اَب اِس پر کوئی کچھ بھی کہے مگر اِس حقیقت سے اِنکار کرنے کی ہمت کسی میں
بھی نہیں ہے کہ تمام تر پُر آشوب حالات اور لمحات کے باوجود دنیا کی
رنگینیاں عورت کے ہی دم سے ہے۔ دنیا سے عورت کی خوبصورتی اور حُسن کو نکال
دیا جائے۔ تو دنیا قبرستان اورکسی ریگستان کے مانند لگے ۔اِسی لئے تو لارگ
کا کہنا ہے کہ ’’ میں تمہیں بتاؤں کہ دنیا میں جتنے پھول ہیں ۔اُن میں سب
سے زیادہ خُوب صُورت کون سا پھول ہے؟ تو سُنو!وہ حسین ترین اور خوشبودار
پھول’’عورت ہے‘‘ اور باربولڈ کہتا ہے کہ’’عورت مصیبت و غم کو کم کرنے مگر
پیار کرنے اور بانٹنے کے لئے پیدا کی گئی ہے‘‘ ۔ عورت کے کئی مقدس روپ ہیں۔
ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی یہ عورت کے وہ خوبصورت اور دلکش روپ ہے۔ جو
احترام اور محبت و پیار کے مقدس جذبات سے لبریز ہوتاہے۔ دین اِسلام میں
تواِسے تمام حقوق کے ساتھ کائنات میں مقدس اور قابل احترام حیثیت دے کر اﷲ
رب العز ت نے ماں کے روپ میں اِس کے پیروں تلے جنت کورکھ دیا ہے اور حکم دے
دیا ہے کہ اِس کے احترام میں کمی نہ آنے پائے؛ ورنہ مردو زن تمہارے سارے
اچھے اعمال ایک طرف ہوں گے۔ مگر جب تک ماں تم سے راضی اور خوش نہیں ہوگی
۔تمہارا داخلہ بھی جنت میں مشکل ہوجائے گا؛ وولف گینگ موزارٹ کا کہنا ہے
کہ’’ ہم لوگوں کے پاس بیویاں ضرور ہونی چاہئیں، جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔
اور جو ہم سے محبت کرتی ہیں‘‘ مگرآج اِتنی محبتوں کے باوجود بھی پتہ نہیں
کیوں میرے دیس کی معصوم ، پڑھی لکھی اور باشعور عورت اپنے تمام تر شرعی ،
آئینی اور قانونی حقوق و احترام سے مالا مال ہونے کے کیوں ؟ میراجسم میری
مرضی ‘‘ کا نعرہ لگا کر کون سے اور کیسے حقوق مانگنا چاہ رہی ہے؟ اِس بے
ہودہ نعرے کے درپردہ یہ کس کا آلہء کار بن گئی ہے ؟ اچھے بھلے تمام باپردہ
اور شرعی حقوق کی ملکہ ہونے کے باوجود بھی کیوں؟ اپنے پاک جسم کی کھلے عام
نمائش کرنے کے لئے ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے غیر اسلامی اور غیر شرعی اور
غیر آئینی اور غیر قانونی ایجنڈے میں استعمال ہو کر اپنا مقام و مرتبہ
چوراہے پر پیش کرنا چاہ رہی ہے؟ آج جس کی میرے دیس کی ہر اِس ماں ، بہن ،
بیوی اور بیٹی سے جو اِس نعرے کی علمبردار ہے۔ اُس سے ہر مرد خواہ وہ باپ
ہو،بھائی ہو، شوہر ہو یا بیٹاہو سب ہی تسلی بخش وضاحت چاہتے ہیں۔
آٹھ مارچ کو ساری دنیا سمیت پاکستان میں بھی عورتوں کا عالمی دن منایا جائے
گا ۔پچھلے سال بھی ہمارے یہاں یہ دن منایا گیا تھا ۔جس کی بازگشت اَبھی تک
سُنی جارہی ہے ۔اَب دیکھتے ہیں کہ اگلے روزیعنی کہ کل 8مارچ کو منائے جانے
والے عورتوں کے عالمی دن پر کئے جانے والے عورت مارچ کی گونج کہاں تک جائے
گی کچھ پتہ نہیں ہے۔
بے شک عورت کو اپنے جائز مطالبے کے لئے اپنا حق بلند کرناچاہئے؛ مگر یہ
آواز تو وہاں بلند کی جائے۔ جہاں عورت کو اِس کے حق سے محروم رکھاگیا ہو؛
یا محروم رکھا جارہا ہو۔ مگر میرے دیس میں تو ہر عورت کو دین اسلام اور
قرآن و سُنت اور دستورِ اور آئین پاکستان کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں۔کوئی
بھی ایسا شعبہ ہائے زندگی نہیں ہے۔آج جہاں اِن کی نمائندگی نہیں ہے۔ مگر
پھر بھی کیا وجہ ہے ؟کہ آج ہمارے یہاں کچھ روشن خیال اور لبرل میری مائیں ،
بہنیں اور بیٹیاں ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند کرکے اپنے کونسے
حقوق مانگنا چاہتیں ہیں۔ اِس کی وضاحت بہت ضروری ہیں۔ اگرآج یہ عورتیں اپنے
اِس نعرے اور آزاد نسواں کی وہ تعریف جو دین اسلام اور آئین پاکستان کی رو
سے درست ہوں دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ تو کون ہوگا ؟ جواِن کے کسی مار چ
یا حقوق کی مخالفت کرے گا؟
تاہم اِس منظر میں آج ایسا سوفیصد لگتا ہے کہ جیسے میرے مُلکِ عزیز پاکستان
میں ایک فیصد روشن خیال طبقہ اپنی مرضی کی آزادی کے لئے ہر اُس حد کوچھونا
چاہ رہاہے کہ جہاں اسلامی تہذیب کے علم برداروں سے تصادم کی راہ نکلے ۔ ۔
پھر یہی ایک فیصد آزاد خیال مرد و عورتوں پر مشتمل طبقہ اپنی مظلومیت کو
دنیا بھر میں کیش کرواتا پھرے ۔ اور مُلک کو بدنامی کے داغِ سیاہ سے دوچار
کردے ۔ حالا ں کہ روشن خیالی یا تنویر افکارEnlightnment کواگرباریک بینی
سے دیکھا جائے۔ تودنیا بھر میں بصیرت افروزی ،روشن خیالی اورلبرل مائنڈسیٹ
جیسے لفظ کے استعمال میں جس قدر تضادنے راہ پائی ہے۔اہلِ دانش بالخصوص
اخلاق احمد قاری اپنی کتاب ’’تاریخ عالم کی ڈکشنری ‘‘ میں کہتے ہیں کہ اِس
کی مثال ملنا مشکل ہے۔ایک طرف تو یہ اٹھارہویں صدی کی یورپی اور شمالی
امریکہ کے اِس تحریک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو نوع انسان کے سماجی
باہمی تعامل ، رواداری، معقولیت، عقل عامہ، نیز سائنس اور ٹیکنالوجی کی
ترقی کی داعی ہے۔دوسری طرف یہی لفط بیسویں صدی میں ایشیائی مذہبی صوفیانہ
تحریک کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس کا مقصد ہندو اور بدھ مت کی راوائتوں
کا احیاہے۔ یورپی روشن خیال کی تحریک نے دیدرو Diderot، والٹیئر، اور
ڈیودہیوم اورروسو جسیے عظیم روشن خیال مفکر اور ادیب پیدا کئے اِسی روشن
خیالی کی تحریک میں جوسیاسی نظریات وجود میں آئے۔ وہی ریاست متحدہ امریکا
کی جنگ ِ انقلابِ آزادی اور اِنقلابِ فرانس اور امریکا کے اعلانِ آزادی کے
فکری امین ہیں۔لگتا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں بھی مٹھی بھر آزاد خیالی کے
دلدادہ اپنی اور اغیار کے ایجنڈے کی تکمیل و تسکین کے لئے کسی بے حیائی کے
اِنقلاب کو ہوا دینے والے ہیں۔
بہرحال، آج تحریکِ تحفظِ حقوق نسواں کے نام پر آٹھ مارچ کو عور ت کا عالمی
دن منانے والوں کو یہ باور کرنابھی ضروری ہے کہ 1960ء کی دہائی میں چلنے
والی ’’ تحریکِ تحفظِ حقوق نِسواں( FEMINIST MOVEMENT )اِس تحریک کا سبب وہ
اقتصادی سہولتوں کی کمی تھی ۔جو جنگ عظیم دوم کے بعد خواتین کے لئے
پیداہوگئی تھی، یہ تحریک روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنے کے مطالبات اور
سول حقوق میں یکسانیت پیداکرنے کے لئے چلائی گئی ۔1963ء میں بیٹی فیڈان کی
کتاب’’ صوفی عورت ‘‘ کی اشاعت کے بعد اِس تحریک کا آغاز ہواتھا۔جبکہ ’’
تحفظِ حقوق نِسواں ‘‘ جس کے عام معنی تو یہ ہیں کہ ’’ خواتین کے حقوق کی
حمایت،لیکن اِس اصطلاح کی کوئی ایک مسلمہ تعریف موجود نہیں ۔عورتوں کے
سیاسی اور قانونی حقوق کے لئے تحریک چلانا، روزگار کے مساوی موقع کی فراہمی
کے مطالبات جنسی خود اختیاری Sexual Autonomyاور حق خودارادیت کے لئے
جدوجہد سب حقوق ِنسواں کی تعریف کے زمرے میں آتے ہیں،اِس تحریک کی ابتداء
اِس وقت ہوئی۔ جب عورت کو احساس ہوا کہ اِسے معاشرے میں فروتر مقام دیا
جارہاہے۔اِس سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔(جبکہ پاکستان میں تو عورت کو ہر
میدان میں مکمل آزادی اور حقوق حاصل ہیں) اور مرد اِسے اپنے برابر نہیں
سمجھتے، یہ تحریک نسواں نہ تو کبھی واحد تحریک تھی۔ اور نہ متحد بلکہ کئی
ایک تحریکیں اِسی ہیں۔ جن پر تحریک نسواں کا لیبل چسپاں کردیاتھا ۔ اِس طرح
تحریک نسواں کے مختلف ادوار مختلف ناموں سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ مثلاََ
عورتوں کے لئے حق رائے دہی کا معاملہSuffrangite،عورتوں کی دستکاری کا
معاملہ، عورتوں کی مخلصی کا مسئلہ، تحریک نسواں، تحریک حقوق نسواں ،سماجی
تحریک نسواں اور اِنتہا پسند تحریک نسواں۔خیال کیا جاتا ہے کہ ’’1790ء سے
1860ء کے زمانے میں پہلی مرتبہ تحریک حقوق نسواں کی واضح نشاندہی ہوئی،
ویسے بھی اِس دور کو روشن خیالی کادورکہاجاتاہے۔اور اِسی دور میں انسانی
حقوق کی بات اہل مغرب نے اُٹھائی تھی ۔ بعدازاں انقلاب فرانس اور انقلاب
امریکہ سے بھی لوگوں کو حقوق نسواں کا سوال اٹھانے کی تحریک ہوئی۔ یہ تحریک
نسواں مورخین کے نزدیک بورژوائی یا شخصی حمایت نسواں کی تحریک کہلاتی ہے۔
اِس کے مقابلے میں ایک تحریک ہے۔ جِسے سماجی تحریک نسواں کہتے ہیں۔اِس کے
انکار کا منبع ابتدائی سوشلسٹ اور اشتمالی(کمیونزم) تحریک ہے۔ حق رائے
دہندگی تحریک نے 1860ء سے1930ء میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑاکردیا
جن کا سماجی اور تعلیمی پس منظر الگ الگ تھا ۔یہی وجہ تھی کہ اِس تحریک نے
تیزی سے ترقی کی ۔ حق رائے دہندگی کے لئے خواتین کی جدوجہد اِس تحریک کا
عہدساز حصہ ہے ۔ کیوں کہ خواتین نے جان لیا کہ سیاسی جماعتیں اور
مزدورانجمنیں اِ ن کے حقوق کے سلسلے میں قابل اعتماد نہیں ہیں‘‘۔
بہر کیف، آج آزاد خیالی کی غیر مکمل تعریف کرنے والوں نے اپنی روشن خیالی
اور لبرل اَزم کو برہنہ ازم سے تعبیر کرنے کا نام آزاد خیالی اور روشن
خیالی کی گھٹی میں تر کرکے اِس پر ننگے بھوکوں کو چمٹنے کا موقعہ فراہم
کرنے کا پروگرام مرتب کیا ہوا ہے۔ اَب جن کے نزدیک مدر پدر آزاد برہنہ اَزم
ہی روشن خیالی اور آزادخیالی کا قوی نظریہ ہے۔ جبکہ ایسا گمراہ کُن برہنہ
ازم سِوائے تباہی و برباد کے کچھ نہیں ہوگا۔
|