عورت خواہ ماں ہو ، بہن ہو، بیوی ہو ، بیٹی ہو ،
خادمہ ہو یا معاشرے کی کوئی عورت اسلام میں انہیں ہر لحاظ سے بلند مقام عطا
کیا گیا ہے، اور مردوں کو ان کے ادب و ا حترام کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام
جدید معاشرے کی عورت کو بھی وہی حقوق، عزت و وقار، عزت نفس دیتا ہے جو اس
نے پسماندہ عورت کو عطا کئے ہیں۔ کیونکہ اسلام نہ صرف خواتین یا محض کوئی
ایک طبقہ بلکہ فلاح انسانیت کا عالمگیر مذہب ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی
پذیر ممالک سمیت دنیا بھر میں تحفظ حقوق نسواں کے نام پر خواتین کا عالمی
دن تو منایا جاتا ہے ، اور اس موقع پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر
بڑی بڑی تقریبات، ریلیاں، کانفرنسز منعقد ہوتی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ
تحفظ حقوق نسواں کے علمبردار مغربی ممالک میں خواتین کو سب سے زیادہ جنسی
زیادتی اور سماجی عزت و احترام سے محرومی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں خواتین
کی تعداد کل آبادی کا 52فیصد ہے اور یہاں بیشتر خواتین کے حالات زندگی ہر
گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی
طور پر تناؤ کا شکار ہے اور سماجی رشتے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں، طلاقوں
اور خودکشیوں کے علاوہ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز
اضافہ ہورہا ہے۔ گھریلو حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، محرومی اور مہنگائی
کے ہاتھوں تنگ اور مجبور عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں
بھی اسے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، اگر ملازمت مل جائے تو سماج میں
موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیا م
تھا ، مگر قیام پاکستان کو تقریباً 73 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہاں
اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہ آسکا ۔ اگر مملکت خداداد پاکستان میں
اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا تو ہمیں یہاں تحفظ حقوق نسواں جیسے قوانین کی
منظوری کی ہرگز ضرورت نہ ہوتی کیونکہ اسلام نے نہ صرف عورتوں بلکہ ہر طبقے
حتیٰ کہ جانوروں اور درختوں کے حقوق بھی واضح بیان کردیے ہیں۔اسلام ہمیں
والدین کا احترام یا خواتین پر تشدد کا تدراک ہی نہیں ایک بہتر انسان بننے
کی بھی ترغیب دتیا ہے۔ اسلام کے رہنما اصولوں پر چلتے ہوئے ہم برائی کے برے
انجام اور اچھائی کے اچھے نتائج سے واقف ہوتے ہیں۔ دین سے دوری کے باعث آج
ہمارے معاشرے میں کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ رواج عروج
پر ہیں، جہاں عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے، راہ چلتے عورتوں پر
آوازیں کسنا، مذاق اڑانااور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کرنا، روز کا معمول
بن چکا ہے، اس کے علاوہ تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر
بھر کیلئے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی دور جہالت کے پیروکار
موجود ہیں، کسی کی بہن کی اگر آبرو ریزی ہوجائے تو بھائی بجائے یہ کہ اپنی
بہن کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے، وہ اپنی
بہن ہی کو قتل کردیتا ہے، کہیں کوئی شخص کسی کی بہن کے ساتھ زیادیتی کرتا
ہے تو جواب میں اس مجرم کی بہن کیساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کا جاہلانہ
پنچائتی فیصلہ دے دیا جاتا ہے۔
بلاشبہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر یہ ممکن ہے کہ ہم فلاح اور اچھے
برے راستوں کی پہچان پاسکیں، اور اچھے کاموں کو اپنا کر اور برے کاموں کو
چھوڑنے کی کوششیں کر کے ایک اعلیٰ انسان بن سکیں، اور بغض،کینا،تعصب
،چغلی،غیبت ، بد اعمالی ،زنا، لاقانونیت، ترک سود اور اس طرح کی بے شمار
برائیوں سے نجات پاسکیں۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ اگر انسان
اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے گا تو دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون
غالب رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی بڑی پر لطف اور رنگینیوں
سے بھر پور زندگی اس کا مقدر ہوگی۔ آج دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم
اپنی ننگی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین فطرت اسلام کی طرف آرہے ہیں اور
سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں، ان لوگوں سے اسلام کی حقانیت معلوم کی
جاسکتی ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محض دعوؤں، ریلیوں اور سیمیناروں
سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ معاشرے میں خواتین کے مقام کو کھلے دل،
کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا۔ اسلامی قوانین کو فالو کرتے ہوئے جاہلانہ رسم
و رواج کو ترک کرنا ہوگا۔اگر ریاست مدینہ کا اعلان کرنے والے ہمارے حکمران
بڑی عالمی طاقتوں کے دباؤ سے نکل کر پاکستان میں حقیقی شرعی قوانین کو عملی
جامہ پہنانے کا اعلان کردیں تو ناصرف خواتین کو ان کے مکمل حقوق مل جائیں
بلکہ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ |