ویلنٹائن ڈے کا جن دنوں آغاز ہوا ، زیادہ تر لوگوں کو
نہیں معلوم تھا کہ یہ دن کیا بلا ہے ۔ لیکن جب اس دن کی مخالفت میں آوازیں
بلند ہونا شروع ہوئیں اور ذرائع ابلاغ پر یہ اپنے مثبت اور منفی پہلوؤں کے
ساتھ زیر بحث آنے لگ گیا تو سب کو اس بارے میں معلوم ہو گیا ۔ پھر ہر سال
اس دن کے حامی اور مخالف اپنے اپنے انداز میں اس پر آواز اٹھانے لگے جس سے
یہ دن ہائی لائٹ ہوتا گیا ، نتیجتاً بچہ بچہ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں جان
گیا …… کچھ ایسا ہی وویمن ڈے کے حوالے سے ہو رہا ہے ۔ گذشتہ ایک دو سالوں
سے خواتین کا دن ایک مخصوص طبقہ کے متضاد نعروں کی وجہ سے ذرائع ابلاغ پر
پوری شد و مد کے ساتھ ڈسکس ہونے لگ گیا ہے ۔ ان سلوگن کے حق اور مخالفت میں
پروگرامات اور ریلیاں منعقد ہورہی ہیں ۔ ٹاک شوز ، یا جہاں چار لوگ مل
بیٹھیں ، ہر جگہ اس موضوع پر بحث مباحثہ ہونے لگ گیا ۔ یہاں تک کہ سوشل
میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے ۔ پہلے اس دن کی مناسبت سے محدود پروگرامات
ہوتے تھے ۔ لیکن اب حالات یہ ہیں کہ اس یوم کے متضاد نعروں کے حامی طبقے کے
مقابلے میں بیشتر تنظیمات سامنے آگئی ہیں ، جو ریلیاں ، سیمینار اور ایسے
ہی دیگر پروگرامات منعقد کر رہی ہیں ۔ جن میں مذکورہ سلوگنز کے مقابلے میں
عورت کی عظمت اور وقار کو ہائی لائٹ کیا جائے گا ۔ خاتون کے مسائل پر بحث
مباحثہ ایک عرصہ سے ہو تا آیا ہے لیکن اس دن کو منانے کیلئے ایک جواز پیدا
کرنا یقینا باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ہی ہو رہا ہے …… کہنے کا مقصد یہ ہے
کہ ہم کس ’’سادگی‘‘ سے نان ایشوز کو ایشو بنا دیتے ہیں کہ خود ہمیں بھی
معلوم نہیں ہوتا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ سمیت تمام سٹیک
ہولڈرز فیصلہ کریں کہ ہم نے کسی نان ایشو کو اجاگر کر کے اسے قومی مسئلہ
بنا کر معاشرے کے کسی خاص طبقے کی ساکھ خراب کرنی ہے یا اسے نظرانداز کر کے
آگے کی جانب قدم بڑھاتے رہنا ہے ۔ |