آؤ حقوق کی بات کریں

تحریر عشاء نعیم
پاکستان میں عورت مارچ کے حوالے سے بہت شور مچا ہوا ہے کیونکہ یہاں آٹھ مارچ کو عورت مارچ ہونے جارہا ہے ۔
کوئی حق میں تو کوئی مخالفت میں لگا ہوا ہے ۔اگرچہ حق میں چند لوگ ہیں ۔
یہی چند لوگ بہت دکھ محسوس کرتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں عورت کے حقوق پہ بات کرنا جرم سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ مہذب دنیا والے اسے برا سمجھتے ہیں ۔
پاکستان میں بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو اس مارچ سے بے خبر ہیں ۔جبکہ کچھ لوگوں کو اس کے مقاصد ہی نہیں معلوم ۔
اگر ہم عورتوں کے حقوق کی بات کریں تو پاکستان میں واقعی اس کی اجازت ہونی چاہیے ۔
یہ سچ ہے کہ پاکستانی مردوں کی زیادہ تر کی سوچ عورت کے متعلق کوئی اچھی سوچ نہیں ۔وہ سمجھتا ہے کہ عورت کی کوئی ویلیو نہیں ہے ہر بات میں اس کا حکم چلنا چاہیے کبھی وہ مذہب کی آڑ لے کر عورت کو احساس دلاتا ہے کہ اسلام نے مجھے اوپر رکھا ہے اور میرا حکم ہی آخری فیصلہ ہے جبکہ ایسا رویہ کرتے ہوئے وہ بھول جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو حقوق کے ساتھ ساتھ مرد کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے نرمی کا بھی درس دیا ۔اسلام نے مرد کو عورت کے معاملے میں اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی معاف کرنا سکھایا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں اور مسلمانوں کو بھی یہی تلقین کی ۔
آخری وقت میں بھی عورت کے متعلق ہی وصیت فرمائی ۔
پاکستانی مرد عورت کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ اسی عورت کے جذبات کا اسلام نے کس قدر خیال رکھا مرد کو منع کردیا کہ عورت کو اس کے میکے کے متعلق غلط باتیں نہ کرے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت خدیجہ رضی اللہ کی سہیلیوں تک کا خیال رکھتے تھے۔
لیکن ہمارے ہاں مرد عورت کو اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے حوالے سے اذیت دیتا ہے ۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر مرد ایسے نہیں کرتا ۔
پاکستان کے معاشرے میں اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔(اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر مسلم ممالک میں اصلاح کی ضرورضرورت نہیں، وہاں تو پاکستان سے بھی کئی گنا زیادہ ضرورت ہے خاص طور پر بھارت جیسے جاہل ملک میں )
ہم عورت مارچ کی مخالفت میں اپنے معاشرے کو دودھ کا دھلا بھی ثابت نہیں کر سکتے ۔اور نہ ہی بیرونی ایجنڈے پہ کام کرتے ہوئے اس معاشرے کو مکمل رجیکٹ کر سکتے ہیں ۔جہاں اصلاح کی ضرورت ہے اصلاح ہونی چاہئے ۔
صد افسوس کہ بیڑہ معاشرے کی اصلاح کا نہیں اٹھایا گیا بلکہ بیڑہ عورت کو معاشرتی اور اسلامی حدود وقوف سے نکالنے کا اٹھایا گیا ہے ۔
یہ مارچ کرنے والی عورتیں عورت کے حقوق کی آڑ میں عورت سے عورت پن چھیننے کی بات کر رہی ہیں ۔
کاش انھوں نے قرآن و حدیث کو پڑھا ہوتا تو انھیں پتہ چلتا کہ ان کے حقوق کون سے چھینے جا رہے ہیں ۔
کون سی ناجائز سختیاں ہیں اور کون سی ناجائز آزادیاں بھی دی گئی ہیں ۔

اسلام کی نظر میں مرد اور عورت انسانیت کے لحاظ سے برابر ہیں ۔دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے ،جذبات احساسات کی پاسداری سکھائی گئی ہے ۔
مرد کو حاکم بنا کر عورت کے ساتھ نرمی اور اچھا سلوک سکھایا گیا ہے ۔عورت کو مرد کے صرف جائز حکم کی پابند بنا کر اجر و ثواب کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔
عورت کو تعلیم ،معاشرتی اصلاح، تجارت اور ہر وہ کام جو وہ آسانی کر سکے کا حق دیا گیا ہے۔
یہ اسلام ہی تو ہے جو مرد کو نان و نفقہ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے ،جبکہ عورت پہ یہ فرض نہیں ۔
کیا مغربی معاشرے میں عورت گھر بیٹھ کر کھا سکتی ہے ؟
اب ان کا نعرہ ہے" میرا جسم میری مرضی "
یہ نعرہ جہاں بولنے میں غیر مناسب لگتا ہے وہیں عورت کے لئے یہ ایک پھندہ ہے ۔
یہ عورت کو سر بازارلانے کی کوشش ہے۔
یقین نہ آئے تو ان کے نعرے پڑھ لو۔
جنھیں لکھتے ہوئے بھی شرم
آتی ہے ۔
اسی سوچ کو عملی جامہ پہنا کر یہ اپنے معاشرتی نظام کو تباہ کر چکاہے ۔اب یہ مسلمان عورت کو گھروں سے اٹھا کر سڑکوں پہ لاکر اسلامی معاشرے کی دھجیاں اڑا نا چاہتا ہے ۔
مرد کتنی ہی ذمہ داریاں عورت کی فرمانبرداری کی وجہ سے اپنے سر لیتا ہے ۔
مرد باہر کے سرد و گرم سہتا ہے جبکہ عورت گھر میں تکلیف میں بھی گھر کا کام نمٹاتی ہے۔
لیکن اگر تکلیف زیادہ ہو تو عورت کام کاج کے لئے نوکر کا انتظام کر سکتی ہے لیکن مرد کسی کو کمانے کے لئے نہیں رکھ سکتا ہے ۔
اسی طرح مرد کی جسمانی طاقت بھی زیادہ ہے ۔
سوچئے کتنے کام عورت نہیں کرسکتی ۔سب چھوڑئیے عورت کو برابر کردیا جائے اب کام بھی برابر کے کرنے ہوں گے ۔
لیں جی عورت تو برابر آ گئی لیکن اللہ کی رحمت ہوگئی پرگیننسی ہے لیکن گھر کے باہر دو سیمنٹ کی بوریاں ہیں دونوں کو اٹھانی ہوں گی عورت کیا کرے گی ؟
اس کا مطلب ہوا عورت کو مرد کے برابر کرنا عورت کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔
اگر ہم کسی کو درجہ بندی کے لحاظ سے اوپر کرتے ہیں تو اوپر والے کی ذمےداری زیادہ ہوتی ہے اتنی سی بات سمجھ سے نکال کر ہمارے معاشرے کی عورت کو بےوقوف بنایا جارہا ہے ۔
جبکہ سب کو معلوم ہے یہ ایجنڈہ باہر سے آیا ہے جو اپنے معاشرے میں عورت کو کھلونا بنا کر معاشرے تباہ کر چکے ہیں ۔اب وہاں پہ یہ لوگ پچھتا رہے ہیں اور ہمارے معاشرے کو تباہ کررہے ہیں ۔
او پاکستانی عورت! جاگ ،اٹھ اور خود کو پہچان ۔
تم ایک مسلمان عورت ہو
تمہارے مذہب نے تمہیں بہت سہولت اور آرام دیا ہے ۔
اٹھ اور بات کر اپنے حقوق کی ۔مرد کو بتاو تم حاکم ہو تم اپنی ذمہ داریاں پوری کرو ۔
میں محکوم ہوں مجھ سے نرمی کر کہ میرے رب نے تمہیں مجھ سے بہترین سلوک کی حقدار قرار دے دیا ہے ۔
اے پاکستان کے مرد! تو بھائی ہے عزت کا محافظ ہے سب کی بہنوں کی عزت کر کہ میرے رب نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور ایک مسلمان کا مال ،عزت اور جان دوسرے مسلمان پہ حرام قرار دے دیا ۔
اے پا کستان کی عورت !
آو مطالبہ کریں کہ اس معاشرے کی بیٹیوں کی عزت کے لٹیروں کو وہ سزا دو جو میرے مذہب نے دے کر مجھے محفوظ کیا ہے ۔
آو مطالبہ کرو کہ مجھے اس کا نے جو باپ کی جائیداد میں حصہ دار قرار دیا تو اس معاشرے کے مرد کو مجھے ستی کرنے کا حکم کیونکر حاصل ہو گیا ۔
آو مطالبہ کریں کہ شادی کرتے ہوئے ولی کو حکم دیا ہے کہ بیٹی کی رضا بھی پوچھو
آو مطالبہ کریں کہ معاشرے میں ہمیں مرد سے زیادہ عزت دار قرار دے کر گھر کی چھت بھی دی ہے تو ضرورت پڑنے پہ باہر بھی نکل سکتی ہوں ۔
معاشرے کو جہاں ضرورت ہوگی ہمیں اپنی حدود میں رہ کر نکلنے کی اجازت دی جائے گی ۔
آو مطالبہ کریں اسلام نے عورت کا حسن دکھا کر پیسہ کمانے کو حرام قرار دیا ہے تو عورت کو کوئی مرد بار بار یوں سر بازار(کبھی ماڈلنگ، کبھی اشتہاروں میں )نہیں لا سکتا ۔
آو مرد سے اپنی توہین کا حق چھین کر اس سے اپنی عزت کا مطالبہ کریں۔
اور اسلام نے جو ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی ،بیٹی کو رحمت قرار دے دیا تو اگر کوئی بیٹا ماں کو عزت نہ دے ،اسے گھر سے نکال دے یا بیٹی کو رحمت نہ مانے اور اس کے حقوق ادا نہ کرے(تعلم نہ دلوائے یا جائز خواہشات پوری نہ کرے ) تو اس پہ سزا دی جائے ۔
چل سب چھوڑ ذرا مغربی معاشرے میں نظر ڈال
وہاں عورت کا جسم عورت کی مرضی نہیں بلکہ ایک عورت پہ جو مرضی حق جتاتا ہے ۔وہ بیک وقت نوکری ،گھر اور باہر کے اسی مرد کو بھگتتی ہے جو تمہیں اپنے جال میں پھانس رہے ہیں ۔ وہاں عورت اس قدر سخت زندگی سے تنگ آ کر بچے پیدا کرنے سے بھی انکاری ہو چکی ہے جسے اب یہ وظائف کا لالچ دے دے کر اپنے معاشرے کو قائم رکھنے کوشش کر رہا ہے ۔ جہاں اب عورت جوانی کے چند سال انھیں مردوں کی خوشنودی پہ وار کر بڑھاپے کی دہلیز پہ تنہا کھڑی ہوتی ہے ۔جہاں نہ کوئی ماں جی کہہ کر گلے لگنے والا ہوتا ہے نہ پوتے پوتیاں لاڈ اٹھوانے آتے ہیں ۔
جہاں بیٹیاں فون کر کر کے ماں کا حال نہیں پوچھتیں۔
جہاں بیوی خدمت گزار نہیں تو مرد بھی تنہا ہواوں میں گھورتا رہتا ہے وہ بھی اولڈ ہاوسز میں ۔
جہاں جانوروں کی طرح کھانا کھا کر بستر میں سو جاو نہ کسی کا "ابا جی" نہ "اماں جی،"
جہاں عورت کے قدموں میں جنت ہے نہ بیٹی رحمت ہے ۔
وہی تیرے گرد مضبوط حصار کو توڑ کر تجھے بھی بے اماں کرنا چاہتا ہے ۔
اپنے ارد گرد مضبوط دیورا کو نہ گرا کہ بھیڑیوں کو گھسنے کا راستہ مل جائے بلکہ اس دیوار میں رہ اور محفوظ ہوجا ۔
اور اگر یہ عورت کے ساتھ اتنے ہی مخلص تھے اہل مغرب تو انڈیا میں زندہ درگور کرنے کے خلاف اٹھتے ،مردہ شوہر کے ساتھ عورت کو دفن کر نے کے خلاف اٹھتے ،کشمیر کی لٹتی عورت کے خلاف اٹھتے ۔کشمیر کی آصفہ کو انصاف دلاتے ۔لیکن یہ تو پاکستان اور اسلام کے مخالفین ہیں محض ۔ان کا ایجنڈہ پاکستان کو کمال اتاک کے ترکی کی طرح بے راہ روی پہ لگانا ہے (لیکن دیکھ لو ترکی کو بھی احساس ہوگیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے)
۔اللہ رب العزت ہمیں ان شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے آمین
نوٹ:اگر پاکستان میں مکمل اسلامی قانون کا نفاذ ہوتا تو ان مطالبات کی بھی ضرورت نہ پیش آتی ۔
 

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 106703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.