بسم اﷲ الرحمن الرحیم
8 مارچ خواتین کے دن کے طور پر دنیا کے بیشتر ممالک میں منایا جاتا ہے،جب
کہ 2018سے پاکستان میں بھی یہ دن منایا جا رہا ہے،2019میں یوم خواتین کے
موقع پر اصل ایشو کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ایک مخصوص خواتین کے طبقے نے
مشرقی تہذیب اور خاندانی نظم کو نشانہ بنایا ،عورت کے حقوق کے نام پر
نسوانی انتہاء پسندی کا مظاہرہ کیا،غیر مہذب نعرے اور جملے حقوق نسواں کی
تحریک کا اصل ظاہر کرنے کی کوشش کی،جس سے یہ تاثر یقین کی حد تک ظاہر ہونے
لگا کہ یوم خواتین کے موقع پر ہونے والی حیاء باختہ مارچ اور احتجاج کے
ذریعے بے حیائی وعریانی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی تحریک
کوفروغ دیا جا رہا ہے،جو کہ یوم خواتین کی اصل کے خلاف ہے۔
یوم خواتین کی اصل کو سمجھنے سے پہلے دو انتہاؤں کا تذکرہ ضروری ہے،ایک یہ
کہ زمانہ قدیم میں عورت کی حیثیت سے متعلق ہے کہ اس وقت عورت کی اپنی کوئی
شناخت اور معاشرتی کردار نہ تھا،جیسا کہ قدیم یونان میں زیادہ تر خواتین
سیاسی حقوق اور سماجی برابری سے محروم تھیں،سقراط فلسفی کے مطابق''عورت سے
زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں ''۔رومی'' غلاموں کی طرح عورت
کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھتے تھے،مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ
بیوی سے فائدہ اُٹھا سکے گا،وہ کسی عہدہ کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی،حتی کہ
کسی معاملے میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ رومی سلطنت میں اسے
قانونی طور پر کوئی حق حاصل نہ تھا۔ یورپ جوآج مساوات ِ مردوزن کا سب سے
بڑا دعویدار ہے‘انیسویں صدی میں رونما ہوئے صنعتی انقلاب سے قبل وہاں
عورت،مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔کوئی ایسا قانون نہیں تھا جو
عورت کو مرد کی زیادتیوں سے پناہ دیتا۔ایرانیوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ
عورت ناپاک ہے اوراُس کی نظر بد کا اثر ہوتا ہے۔ظہور اسلام سے قبل عرب سماج
بداخلاقیوں کی تاریکیوں میں ڈوباہواتھا‘عورت کا مقدر ذلت اور پستی تھا‘اس
کی حیثیت ایک ارزاں شئے جیسی تھی۔ظلم اورجبرکا یہ عالم تھا کہ کم سنی میں
اس کی زندگی کا چرا غ بجھادیاجاتا تھا‘ بیٹی کے روپ میں باپ کے لیے اس کا
وجود باعث ِ عارہواکرتا تھا۔مردکوتمام مالکانہ حقوق حاصل تھے‘اورعورت ایک
غلام بن کر جی رہی تھی۔
دوسری انتہاء آج کی دنیامیں ہے،جس کا عنوان عورت کی آزادی،حقوق اورشناخت کی
جدوجہدکی ہے، مگر درحقیقت یہ انتہاء صنف نازک کے حقوق کی استحصالی کی
بیھانک تفصیل ہے۔مغربی معاشرے کی پستیوں میں پڑی ہوئی عورت نے '' انقلاب
فرانس''کے بعد دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق اور شناخت کی آواز
اٹھائی،جو اپنے ارتقائی سفر کو طے کرتی ہوئی مختلف مراحل سے گزری،اسی کی
بدولت انسانی حقوق کاعالمی منشور جو 1948 میں بنایاگیاتھا،اس میں مردوں اور
عورتوں کی مساوی حقوق کی بات کی گئی،جب کہ 1975میں اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے
کنونشنکو منظور کیا گیا،جو کہ خوش آئند تھا۔
حقوق ِنسواں تحریک اس وقت انتہاء پسندی کا شکار ہوئی جب اس تحریک کو آزادی
نسواں کی تحریک سے بدل دیا گیا جس کا منشور مردوں کے برابر حقوق کی بجائے
مردوں سے اظہار نفرت تک بنالیاگیا،جب کہ عورتوں کے اصل حقوق ومسائل چاہے
سماجی،معاشی،معاشرتی یا سیاسی ہوں،ان کو پس پردہ ڈال دیا گیا اور
تہذیب،اخلاقیات،مذہب اور خاندانی روایات سے آزادی کو عورت کی آزادی باور
کروایا گیا اور اس کے نام پر عورت کے حقوق،عفت اورعصمت کااستحصال کیا جا
رہا ہے۔
پاکستانی معاشرہ اسلامی و مشرقی روایات کا حسین امتزاج ہے،جس میں عورت کو
عزت،مقام،عصمت اور حقوق بدرجہ اتم موجود ہیں، اگر تفصیل میں جائیں تو یہ
بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام واحد آسمانی مذہب ہے جس نے عورت کو اس
کامقام عفت، عصمت، وقاراور معاشرتی و معیشتی حق عطا فرمایا ہے،اسلام نے ہی
عورت کی حرمت کومکمل طور پر تسلیم کیا ہے،اس کی شخصی آزادی کو ہر قسم کی
زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لئے مختلف احکام جاری کئے ہیں اور زبردستی عورت
کے مالک بننے اور اسے ظلم وستم کا نشانہ بنانے کی قطعی ممانعت کی ہے اور
حکم دیاہے ’’اے ایمان والو!تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے
وارث بن جاو‘‘ (النساء) اسلام نے عورت کو انتخاب زوج کا حق بھی عطا
کیا،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں اصول ارشاد فرمایا کہ جب تک
بیوہ سے مشورہ نہ کیا جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے اور جب تک کنواری لڑکی
سے اجازت نہ لی جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے۔ عورت کابحیثیت بیٹی،بہن،ماں
اور بیوی کے حق وارثت،تعلیم،تربیت، نان و نفقہ کے احکامات رسول اﷲ ﷺنے
مسلمانوں کو ارشاد فرمائے ہیں، تعمیر معاشرہ میں عورت کے کردار اور اہمیت
کو واضح فرمایا اور ازواج مطہرات اور صحابیات کے کردار کی صورت میں عورتوں
کے لیے اعلیٰ نمونہ بھی ہمارے درمیان چھوڑا ہے۔
پاکستان اسلامی فلاحی مملکت ہے،جس کا آئین اور قانون عورت کو مکمل تحفظ
فراہم کرتا ہے،اور عورت کو ہر فورم پر نمائندگی دینے پر یقین رکھتا ہے،یہی
وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی محترمہ فاطمہ جناح نے اٰل ویمن پاکستان
ایسوسی ایشن قائم کی۔محترمہ بینظیر بھٹومرحومہ مسلم دنیا میں پہلی وزیر
اعظم بنی،پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی اپنا کردار اد
اکررہی ہیں،میڈیکل کا شعبہ ہو یاافواج پاکستان،سول ادارے،کاروباری سیکٹر
یاتعلیمی ادارے خواتین کی نمائندگی موجود ہے۔اسلامی تعلیمات بھی عورت کے
معاشرتی اور سماجی کردار پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا،لیکن اسلام نے اس حوالے
سے حدود و قیودضرور رکھی ہیں،جن کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان عورت کے لیے ضروری
ہے،اس میں اس کی اپنی عفت و عصمت کا تحفظ بھی ہے اور معاشرے کی پاکیزگی بھی۔
بلاشبہ آزادی نسواں کے نام پر مذہب بیزاری،مشرقی روایات سے بغاوت اور
پاکستان کے تشخص کو مجروح کرنا کسی بھی محب وطن پاکستانی کو قابل قبول
نہیں۔اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر ضروری
ہے،جب کہ اسلامی و ملکی قوانین کی روشنی میں خواتین کے مسائل کے حل کے
حوالے سے شعور و آگہی وقت کی اہم ضرورت ہے،اس حوالے سے یوم خواتین منانا
یقینا حوصلہ افزاء اور احسن اقدام ہے۔ |