عورت مارچ پراس سال 2020 پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ بحث و
مباحثہ نظر آتا ہے۔ عورت مارچ کی حمایت کرنے والوں نے آج کی عورت کو زمانہ
جہالت کی طرح بے بس مظلوم اور جانوروں کے ساتھ جا ملایا ہے۔ عورت مارچ کی
مخالفت میں مدلل قانون فطرت دین ’’ اسلام ‘‘ کا حوالہ اتنا مکمل سادہ اور
صاف شفاف ہے۔ اپنے تو اپنے غیروں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ عورت کے
حقوق وہ ہی ہے جو آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل کل جہانوں کے خالق مالک رازق
اﷲ پاک نے اپنے پیارے محبوب محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کے ذریعے پہنچا کر
عورت کو باعث فخر بنادیاحتیٰ کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے اور پھر اپنی
نسبت سے فرمایاکہ میں (یعنی اﷲ تعالیٰ ) 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔اور
ماں کون بننے کی سعادت حاصل کرتی ہے؟ ’’ عورت ‘‘
آج عورت مارچ کے مطالبات دہرانے کی بجائے سمجھنے کے لئے عورت مارچ کا نعرہ
’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ عورت مارچ کی حمایت والے کہتے ہے اس کو مثبت
سمجھا جائے اس کو جنسیت تک محدود نہ رکھا جائے ۔ عورت مارچ کی مخالفت والے
کہتے ہیں ہماری ہر چیز جسم سمیت اﷲ کی ملکیت ہے اور اس پر اﷲ کی رضا ہی کام
کرتی ہے۔ افسوس ہم حمایت اور مخالفت میں حق کی بجائے اپنی پسند اور ناپسند
کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔
سائنسی نقطہ سے دیکھا جائے میرا جسم میری مرضی ‘‘ کی حقیقت توایک مثال سے
واضع کرتا ہوں
فرض کریں ہمارے پاس کھانے پینے کی ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے ہم اپنی
مرضی سے کھانا کھا لیتے ہیں تو کیا جو کھانا ہم نے کھایا کیا وہ ہم اپنی
مرضی سے ہضم بھی کرسکتے ہیں ؟ یقینا جواب نہیں ہوگا۔ اگر ہم اپنی مرضی سے
مٹھاس استعمال کریں تو میرا جسم میری مرضی سے کیا ہم شوگر کا لیول بڑھنے سے
روک سکتے ہیں ؟ یقینا نہیں ۔ایسے ہی اگر ہائی بلڈ پریشر کا مریض اپنی مرضی
سے نمک کھائے تو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والے بلڈ پریشر کا لیول
بڑھنے سے روک سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں تو کیا پھر میرا جسم میری مرضی کے
پیچھے جو چھپی حقیقت اس سے انکار ہو سکتا ہے ہر گز نہیں ۔ میرا جسم میری
مرضی والوں کا اصل مقصد عورت کی آزادی نہیں بلکہ عورت تک پہنچنے کی آزادی
ہے۔ عورت مارچ کا مقصد شادی کے بغیر شادی جیسا تعلق رکھنے کی آزادی۔ بچوں
کی پیدائش کے لئے شادی کے بندھن سے چھٹکارہ۔ وغیرہ ہے رہا مسلہ عورت کی
تعلیم و تربیت ، شرم و حیاء، غیرت و پاک دامنی اور جائداد و نوکری یہ وہ
مطالبات ہیں جو اسلام کی روشنی میں اﷲ پاک نے اپنے پیارے اور آخری نبی کریم
ﷺ کے وسیلے سے عورتوں کو بہت پہلے ہی عطا کر دیئے تھے۔ اگر کسی جگہ ملک
انفرادی یا اجتماعی طورپر عمل نہیں ہوتا تو پہلے عورت کو اپنی تربیت ٹھیک
کرنا ہوگی تاکہ کوئی مرد عورت کے جائز حقوق ضبط نہ کر سکے۔ اس کے لئے
عورتوں کو ’’ عورت مارچ نہیں بلکہ سیرت اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ اور سیرت
جگر گوشہ رسول ؐ حضرت فاطمہ ؓ اپنانا ہوگئی۔
|