معیار الوہیت----غلط فہمیوں کا ازالہ

توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور تمام مسلمانوں کو اس کا اقرار کرنا حد درجہ ضروری ہے اور اس کے سوا نجات کی کوئی راہ نہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کی تحصیل کے لئے توحید کے معنی بگاڑنے شروع کر دیے اور اپنی من پسند تعریفات کر کے امت مسلمہ کی اکثریت پر شرک کی تہمت لگا دی۔ فقیر اہل سنت کی دیرینہ تمنا تھی کہ عقیدہ توحید کی وضاحت آسان انداز میں پیش کی جائے لیکن بہت سی مصروفیات آڑے آئیں، بہر کیف اب یہ چند معروضات استفادہ عوام کے لئے پیش کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔

معیار الوہیت واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ہے ۔ واجب الوجود وہ ذات ہے جس پر کبھی نہ عدم آیا ہے نہ آ سکتا ہے ۔ وہ صرف ایک ذات ہے اللہ تعالیٰ کی، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ کوئی وقت ایسا نہیں کہ وہ نہیں تھا اور کوئی ایسا وقت نہیں ہو گا کہ وہ نہ ہو۔

اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو واجب الوجود مانتا ہے یا مستحق عبادت جانتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اذن و اجازت سے کسی ذات کو مددگار مان لینا یہ شرک نہیں ہے۔ کیونکہ معیار الوہیت مددگار ہونا نہیں ہے بلکہ واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی میں مجازی ہو سکتا ہے اور نہ عطائی۔ جبکہ قرآن مجید میں ہے کہ فرشتوں کو میدان بدر میں مددگار بنایا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں یا اولیا ء اللہ کے بارے میں مشکل کشائی کا عقیدہ رکھنے سے نہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں شرک لازم آتا ہے اور نہ ہی صفات میں۔

ذات میں اس لئے نہیں کہ مجازی مددگار ماننے سے ان مقبولان بارگاہ ایزدی کو واجب الوجود مانا گیا ہے اور نہ ہی مستحق عبادت۔

اللہ تعالیٰ کی صفات کے لحاظ سے بھی شرک لازم نہیں آئے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتا ہے تو کسی کے اذن و توفیق سے نہیں کرتا بلکہ خود کرتا ہے۔ مقبولان بارگاہ ایزدی اللہ تعالیٰ کے حکم و توفیق سے ایسا کرنے والے ہیں ۔ شرک تب لازم آتا جب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بھی اللہ تعالی کی طرح کسی کا محتاج نہ مانا جاتا یا پھر اللہ تعالی کو بھی اللہ کے بندوں کی طرح مشکل کشائی میں کسی کا محتاج مانا جاتا۔ معاذ اللہ ۔۔۔۔جبکہ ایسا نہیں تو پتہ چلا اس کی ذات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اور صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔

قرآن مجید کی تقریباً ساٹھ آیات ہیں جن میں ایک ہی وصف کو اللہ تعالی کے بارے میں اور اللہ تعالی کے بندوں کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کے بارے میں اور لحاظ سے اور بندوں کے بارے میں اور لحاظ سے۔

مثلا ً اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ آیت نمبر ۲۵۷ میں فرمایا
ظلمت سے نور کی طرف اللہ تعالی نکالتا ہے۔

اور سورۃ ابراہیم آیت نمبر ۱ میں اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرماتا ہے

ہم نے آپ کی طرف کتاب اس لئے نازل کی ہے تا کہ آپ لوگوں کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لائیں۔

ظلمت سے نور کی طرف نکالنا مشکل کشائی ہے۔ لیکن مشکل کشائی معیار الوہیت نہیں ہے۔ اس کا مجازا بندے کو مظہر بنایا جا سکتا ہے مگر الوہیت مجازی نہیں ہوتی نہ کوئی مجازی واجب الوجود ہوتا ہے اور نہ مجازی معبود ہوتا ہے۔

اس میں مقبول بارگاہ ایزدی کے وصال سے پہلے اور بعد میں کوئی فرق نہیں ہے جیسے قبل از وصال کسی کو مجازی طور پر اللہ تعالی نہیں کہہ سکتے مگر مددگار تو کہہ سکتے ہیں اگر مددگار ہونا معیار الوہیت ہوتا تو کسی زندہ پر بھی مددگار کا لفظ بولنا شرک ہوتا کیونکہ اللہ تعالی کا صرف فوت شدگان میں سے کسی کو شریک ماننا ہی شرک نہیں بلکہ زندوں میں سےبھی کسی کو اس کا شریک ماننا شرک ہے۔

آج ایک طبقہ ہے کہ جو امت پر بلاوجہ شرک کے فتوے لگاتا ہے اور گویا اس کے بقول اس کے سوا دنیا میں کوئی موحد نہیں بلکہ ہر طرف شرک کے گھپ اندھیرے ہیں۔ الامان والحفیظ

امت مسلمہ میں شرک کے اثبات پر ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں کے پیشوا نواب وحید الزمان نے بھی اس ظلم پر بڑی چیخ وپکار کی اور لکھا ۔

شدد بعض اخواننا من المتاخرین فی امر الشرک و ضیق دائرۃ الاسلام بحوالہ ھدیہ المہدی ص ۲۶ طبع میو پریس دہلی

یعنی متاخرین میں سے ہمارے بعض بھائیوں نے شرک کے مسئلہ پر بڑی شدت اختیار کی ہے اور اسلام کا دائرہ تنگ کر دیا ہے۔

بعض اخواننا پر شیخ وحید الزمان نے منہیہ لکھا اور واضح کیا کہ جس نے بلا وجہ امت پر شرک کا فتویٰ لگایا اور شدت کی وہ کون ہے؟

وحید الزمان نے لکھا

ھو الشیخ عبدالوہاب حیث جعل ھذہ الامور شرکا اکبر بحوالہ ھدیہ المہدی ص ۲۶ طبع میو پریس دہلی

یعنی وہ شیخ ابن عبدالوہاب ہے کیونکہ اس نے ان امور کو جو شرک نہیں تھے شرک اکبر قرار دیا ہے۔

وحید الزمان نے مزید لکھا

منھا انہ قال ان الاعانۃ فی المشکلات او قضاء الحاجات و لو بقدرۃ اللہ تعالی و اذنہ و امرہ و رضآئہ و قضائہ لیس من شان الانبیاء والاولیاء و من اعتقد ذلک
فھو مشرک و ھذا الکلام غیر صحیح لان الملائکۃ یعینون الناس بامر اللہ و قضائہ و ارادتہ لا بختیارھم و قدرتھم والناس یعینون بعضھم بعضا بحوالہ ھدیۃ المہدی ص ۲۶ اور ۲۷ طبع میو پریس دہلی

یعنی ابن عبدالوہاب نے کہا مشکلات میں قضاء حاجات میں مدد کرنا اگرچہ اللہ تعالی کی دی ہوئی قدرت اس کے اذن ، اس کے حکم اس کی رضا اور اس کی قضا سے انبیاء اور اولیا کی شان نہیں ہے جس نے انبیا اور اولیا کو مذکورہ شرائط میں بھی مددگار سمجھا وہ مشرک ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ ملائکہ اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ کے ساتھ لوگوں کی مدد کرتے ہیں نہ کہ اپنے اختیار اور قدرت کے ساتھ اور بعض انسان بھی بعض کی مدد کرتے ہیں۔

اختصار کے پیش نظر فی الوقت اتنا ہی انشاء اللہ مزید گفتگو اگلے کالمز میں پیش کی جائے گی۔ و ما توفیقی الا باللہ تعالی
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410066 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.