میری مرضی

یوم خواتین، عورت مارچ، معاشرہ اور اسلام

کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے حوالے سے بحث جاری تھی مگر ایک ٹاک شو میں ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کے درمیان جھڑپ کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا سے نجی محفلوں اور یہاں تک کہ گھروں میں زیر بحث ہے ۔

ماروی سرمد اور خلیل قمر دراصل اس معاشرے کے دو الگ الگ کلاس ہے ۔ ماروی سرمد کے موقف کے حامیوں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید حقوق صرف اور صرف عورت کے ہی ہوتے ہیں اور دوسری جانب خلیل قمر کے موقف کی تائید کرنے والے عورت کو آج بھی شٹ اپ کال دینے اور اسے مغلظات بکنے کے حامی ہیں۔

ہم من حیث القوم بہت دوغلے ہیں ۔ اپنے خیالات، ترجیحات، تعلقات اور معاملات ضرورت کے مطابق تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ ہم ضرورت کے تحت کبھی پکے مسلمان، کبھی لبرل، کبھی سوشلسٹ، کبھی سیاسی، کبھی جانبدار اور کبھی غیرجانبدار بن جاتے ہیں ۔ جس سے ہم آدھے تیتر اور آدھی بیٹر جیسے بن چکے ہیں۔ ایک لڑکا ایسی گائے جیسی لڑکی چاہتا ہے جو پکی دین دار اور مکمل طور پر اس سے دیانتدار رہے خود ہم چاہیئے کچھ بھی کرتے پھریں ۔اسی طرح لڑکی کو بھی ایسی لڑکے کی کھوج رہتی ہے جوربورٹ کی طرح اس کے حکم کی بجاوری کرے اور پوری دنیا میں موجود کسی دوسری لڑکی کو دیکھے تک نہیں ۔
اس دھن میں دونوں ایک دوسرے کے حقوق جانے ان جانے میں سلب کرتے ہیں اور میرے نزدیک شاید یہی بگاڑ کی وجہ ہے ۔ اگر ہم ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو معاملات خوش اصلوبی سے حل ہوسکتے ہیں ۔

میں اتفاق کرتا ہوں کہ گھٹن زدہ معاشرے کی اپنی بنائی گئی ’’باونڈری‘‘ میں ایک خاص عرصے تک عورت کے حقوق سلب کئے جاتے رہے مگر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال میں بہتری آئی ۔

اس بات میں دوسری رائے نہیں کہ عورت کے بغیر زندگی کا تصورہی ناممکن ہے ۔ رہی دوسری بات کہ عورت کے حقوق کہاں کہاں سلب ہورہے ہیں اس پر بات ہوسکتی ہے اور میرے نزدیک اس پر ہر مرد اور ہر عورت کا موقف الگ الگ ہے۔ بہرکیف میں آج بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں مختلف سوسائٹیز، شہروں اور سماجوں میں عورت کو ملنے والے حقوق بھی مختلف ہیں ۔ مگر بات صرف عورت کے حقوق کی ہی کیوں جائے حقوق تو سب کے ہیں ۔ مرد،عورت،بچوں اور بزرگوں کے۔ اگر موجودہ معاشرے کی بات کریں تو ہمیں کئی طرح کی خواتین نظرآئیں گی کچھ ایسی کہ جنہیں مکمل حقوق میسر ہیں، کچھ ایسی جن کو کم تو کچھ ایسی بھی جن کو بہت زیادہ حقوق ملے ہوئے ہیں ۔

عورت کو اس کے حقوق ملنے بغیر ایک مہذب اور مثالی معاشرے کا قیام ممکن نہیں ۔دور حاضر میں بھی خواتین کو کئی مسائل کا سامنا ہے اور اس کیلئے مہذب انداز میں جدوجہد کی ضرورت ہے۔ خواتین کو اچھی غذا ملنی چاہیے، انہیں پسند کی شادی کا حق ہو، انھیں وراثت میں حق ہونا چاہیے، تعلیم اور پسند سے کیریئر منتخب کرنے سمیت دیگر حقوق اسے ہر صورت ملنے چاہیئں ۔ مگر ان ساری باتوں کو ایک جانب رکھ کر ٹانگیں کھول کر بیٹھنا، سگریٹ پینا، کھانا گرم خود کرلو، بچہ پیدا نہ کرنے جیسے نعرے لگا کر کون سے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی خدا جانے۔ میرے نزدیک یہ وومین امپاورمنٹ نہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ حقوق کا تعین کون کرے گا۔ میرے نزدیک اسلام نے دورجہالت میں ہونے والی ظلم وزیادیتوں کو روک لگائی اور عورت کو اس کے حقیقی مرتبے سے نوازا۔ کتابیں بھری پڑی ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی شادی اُم المومنینؓ کی خواہش پر ہوئی انہوں نے سرکار دوعالم ؐسے شادی کی خواہش کا اظہارکیا جسے حضرت محمدﷺ نے قبول کیا۔ اس طرح ایک اور مثال کہ جب بھی جناب فاطمہ زہراؓ آتی تو سرکار دوعالم ﷺ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے ۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ ، ماں کے پائوں تلے جنت جیسا مقام و مرتبہ دیا جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں۔

عورت کے حقوق کا بڑا حصہ جہاں باپ، بھائی اور شوہر سے منسلک ہیں وہیں ماں، بہن اور ساس سے بھی جڑے ہیں ۔ ہمیشہ مرد اور ہمیشہ عورت غلط نہیں ہوتے ۔ ہمیں معاملے کو ہمیشہ ایک ہی زاویئے سے دیکھنے کی روش کو بھی بدلنا ہوگا۔ اپنے دلوں اور ذہنوں کو کشادہ کرنا ہوگا تو یقیناً معاملات مزید بہتر ہوجائیں گے۔۔
 

Kamran Chouhan
About the Author: Kamran Chouhan Read More Articles by Kamran Chouhan: 6 Articles with 3766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.