ہماری سوچ،تعلیم اورہمارا معاشرہ

ابتداء ہی اپنی کچھ ٹھیک نہ تھی
انجام کہاں صحیح ہونا تھا

مشینوں کے کارخانوں میں حصولِ علم کہاں سے ملنا تھا

اگر ہم اپنے معاشرے اپنی زندگیوں پر نظر دالیں،آج کل کے دور میں (خصوصً مشرق) میں اسکول،کالج اور تمام تعلیمی ادارے مغربی ثقافت کو فروغ دینے اور ڈگری و گریٹ حصل کرنے کی طرف زور دیتے ہیں۔جس میں ہمارا معاشرا اور ہم لوگ بھی ایسی کے عادی ہوچکے ہیں۔ جبکہ اگر کامیاب لوگوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ۹۰فیصد لوگ کالج سے نکالے ہوۓ ہیں۔ ڈگریوں اور گریٹ میں ہمیشہ انتہایٔ کم نمبروں سے پاس ہونے والے تھے مگر ان کے پاس کچھ تھا اور وہ تھا علم ہاں علم۔ جو اُستاد اور کویٔ بھی نہ دیکھ سکا۔علم تھا بہت سارے مضمونوں میں نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کا شوق تھا اُس کے بارے میں علم مضید حاصل کرنے کا۔ لوگوں کی نظر میں ناکام ہوۓ لوگوں نے طعنے دیئے ، مزاق اُڑایا اور گالیاں بھی دی مگراُنھوں نے ہار نہ مانی اور اُسی مضمون ،شُبہ یا اُسی فیلد میں کچھ نہ کچھ کرتے رہے ،کاروبار کیا ، اِیجادات کیں ،مختلیف حقائق سے دُنیا کو روشناس کیا۔
سوال یہ اُٹھا ہے کہ اسکول کالج وغیرہ کا آخر مقصد کیا ہے ؟
جس کا سادہ سا جواب ہے تعلیم دینا ،بچوں کے اندر کی صلاحیتوں کو جاننا اور اُس کو مزید اُجاگر کرنا۔
بات چھوٹی سی ہے صرف رٹ کر ڈگریاں حاصل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگرعلم حاصل کرنا صرف ڈگریاں لینا یا اچھے گریٹ لینا ہے تو آج پاکستان اورانڈیا دنیا میں اول نمبر اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جس کی مثال پاکستان اور انڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بڑے بڑے اچھے گریٹ لینے والے شاگردوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں اور غربت اور بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہے۔
آج پاکستان میں ڈاکٹر ہو یا وکیل یا کسی بھی شُبے سے تعلق رکھنے والے طُلبہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا مقصد بھول کر دھرنا دینے بیٹھ جاتے ہیں، اس بات کی ڈاکٹر کو پَروا ہی نہیں چاہے مریض مر رہے ہیں اِس دھرنے کی وجہ سے،علاج نا ہونے کی صورت میں۔
"ارے بھایٔ تنخواہ بڑوانی ہے۔" ڈاکٹر یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈاکٹر بنتے وقت مریض کی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا عہد کیا تھا،اس بات سے کویٔ فرق نہیں پڑتا،فرق پڑتا ہے تو کم آمدانی کا۔
وکیل تو بن گئے،اب قانون کی پروا کیوں کریں ہمیں تو مطالبات منوانے ہیں،چند روپوں و پیسوں کے بدلے گنہگار کو بچا کر بے قصور کو سزا دلانا۔ کیا یہ سب عام بات نہیں ہوتی جا رہی اور اِسی طرح ہر شُبہ میں صرف بددیانتی نہیں پھیلتی جا رہی،بہت ہی تھوری اکثریت باقی ہے جو ایماندار ہے۔
یہ حال صرف اور صرف ہماری وجہ سے ہوا ہے۔ نہ حکومت کی وجہ سے،نہ کسی وزراء کی وجہ سےاور نہ ہی کسی علماء کی وجہ سے۔
سوال یہ بنتا ہے آخر کیوں ہم اس حال پر پہنچ گئے؟
جواب ہماری سوچ ہے،ہمارا نظریہ ہے،جو بچوں کو ایک دوسرے سے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کی طرف تو توجہ دلاتا ہے مگر کسی کمزور کی مدد کرنا نہیں سیکھاتے۔
ہم اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اُس کی مدد نہ کرو کیا پتا وہ اوّل آنے لگ جاۓ بلکہ کسی طرح اُس سے آگے نکلو۔ یہی سوچ بچوں میں آجاتی ہے اور وہ دوسروں کو ہرانے میں لگ جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوسروں کو ہرانے میں صحیح اور غلط کی تمیز بھی بھول جاتے ہیں۔
دوسرا اہم نظریہ اور سوچ جو ہم میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ کہ پیسہ کمانا۔ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے بلکہ جس طرح آج کل کے دور میں عموماً پاکستان کے بچوں کے ذہن میں ڈالی جاتی ہے وہ غلط ہے۔
جب بچہ اپنا کیریٔر کا انتخاب کررہا ہوتا ہے تو اُس وقت ہم اُسے وہ کیریٔر کا مشورہ دیتے ہیں جس میں پیسہ زیادہ ہو نہ کہ اُس کا روجحان جس طرف ہو۔ بہت کم لوگ پاۓ جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بیٹا جو بھی شُبہ یا کیریٔر منتخب کرنا ،بس ایمانداری سے کام کرنا۔
جبکہ ہم میں سے اکثریت اپنی اولادوں کو صرف پیسہ کمانے کی طرف توجہ دلا رہے ہوتے ہیں۔جس کا نتیجہ آج کل ہم اخباروں اور نیوز میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ملک کا بہت بُرا حال ہے۔ہر کسی کو پیسہ کمانے کی پڑی ہے۔ کرپشن ہر جگہ، ہر ادارے میں موجود ہے۔انصاف کی کمی ، غربت ِ،بے روزگاری ہے۔ اور ہر کوئی ایک دوسرے کو بدلنے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ تبدیلی صرف خود کو بدلنے سے آتی ہے۔
دوسروں کو تبدل کرنا بہت مشکل ہے جبکہ خود کو تبدیل کرنا بے حد آسان ہے۔خود دوسروں کے لیے مثال بنے۔ جس کی مثال حضرت محمدﷺ کی ذات مبارک ہے کہ آپﷺ نے پہلے خود کو لوگوں کے لیے نمونہ بنایا اور پھر دوسروں کوتلقین کی ۔
اس امر پر غور کرنے کی ہر ایک پاکستانی کو ضرورت ہے۔اگر ہر ایک محلہ میں ایک بندہ بھی خود کو بدلنے لگے تو اُس کےزریعے لوگوں میں بھی بدلاؤ آنا شروع ہو جائے گا۔بس ضرورت ہے تو خود پر کام کرنے کی۔
اے مسلم دوسروں کے عیب کیوں تلاش کرتا ہے۔
اپنے اندر جھانک کے دیکھ بہت کام کرنا رہتا ہے۔اگر ہم آج سے ہی عہد کریں ،خاص کر ہم نوجوان جو کیرئر کی۔ابتداء کر چُکے ہیں یا کر رہے ہیں- شروات کرنی تو پڑے گی- کسی کو تو کرنی ہو گی ،آج سے ہم اپنی سوچ بدلیں گے۔پاکستان کےمعاشرےکو بہتر بنانے والوں میں اپنا نام تاریخ میں لکھوائیں گے۔

اے مسلم دوسروں کے عیب کیوں تلاش کرتا ہے

اپنے اندر جھانک کے دیکھ بہت کام کرنا رہتا ہے

اُسامہ احمد

 

Usama Ahmed
About the Author: Usama Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.