عورت بس مظلوم نہیں ہے

نرگس نور، لاہور
عورت ایک ایسی ہستی جسے خدا نے رحمت بنایا بیٹی کے روپ میں... پاؤں تلے جنت رکھی ماں کے روپ میں جنت کی حوروں کی ملکہ بنانے کا وعدہ کیا بیوی کے روپ میں. شوہر کے لئے سکون کا باعث بچوں کے لئے محبت کی مثال ماں باپ کی شان بھائیوں کا مان وفا کی تصویر صبر کی مثال.ایثارو قربانی عورت کا کردار. شرم و حیا اس کا زیور یہ سب عورت کی خوبیاں ہیں پھر عورت کو اتنا پامال کیوں کیا جاتا ہے ہر قسم کی پابندی عورت پر کیوں عائد کی جاتی ہے ہر قربانی عورت سے کیوں مانگی جاتی ہے ہر دکھ پر عورت کو ہی صبر کی کیوں تلقین کی جاتی ہے عورت کو ہی وراثت سے محروم کیوں رکھا جاتا ہے اسے اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی آپ کو حیرت ہوگی آج میں ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنے جا رہی ہوں جب قلم ہاتھ میں آئے اور اسے استعمال کرنے کا حق آپکو ملے تو صرف سچ لکھنا چاہئیے تا کہ ہم اپنے ضمیر کے آگے شرمندہ نہ ہوں تو احباب جو بھی عورت کے مسائل ہیں اس دور میں یا گزرے ہوئے دور میں جن جن مسائل سے عورت دو چار رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ خود عورت ہے عورت اگر مظلوم ہے تو عورت ظالم بھی خود ہی ہے وہ کیسے.. میں بتاتی ہوں مرد اکیلا جبر نہیں کر سکتا جب کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے تو کیا دوسری بیوی جو بن رہی ہوتی ہے وہ عورت نہیں ہوتی وہ جانتے ہوئے کہ یہ شخص شادی شدہ ہے پھر اس سے شادی بھی کر لیتی ہے اور پہلی بیوی کے حقوق بھی پورے نہیں کرنے دیتی پہلی بیوی کے جو بجے ہوتے ہیں ساری زندگی ان کے حقوق بھی پورے نہیں کرنے دیتی اور کئی پہلی بیویاں ایسی ہوتی ہیں جو مرد دوسری شادی تو کر لیتا ہے پر اسے دوسری بیوی کے حقوق پورے نہیں کرنے دیتیں ساری زندگی اسے ماں بننے کا حق نہیں دینے دیتی اسے گھر میں جگہ نہیں دینے دیتی اس صورتحال میں اکثر کبھی پہلی بیوی کو طلاق مل جاتی ہے تو کبھی دوسری بیوی کو مرد مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے تو قصور وار کون ہوا جب عورت ہی عورت کو برداشت نہیں کرتی قبول نہیں کرتی تو مرد کو تو موقع ملے گا اپنی مردانگی دکھانے کا کہیں پر ساس ظلم کر رہی ہے کہیں پر بہو اپنے رنگ دکھا رہی ہے کہیں نند حکومت کر رہی ہے کہیں پر بھابی سٹار پلس چلا رہی ہے ایسا کیوں ہے عورت کو تو محبت کی مثال ہونا چاہئیے جب بھابی نند کو بہن نہیں سمجھے گی تو ظاہر ہے مسئلے پہدا ہونگے اگر نند اپنی بھابی کو عزت نہیں دے گی تو مسئلے بنیں گے اگر ساس بہو کو بیٹی نہیں سمجھے گی بہو ساس کو ماں نہیں سمجھے گی بہن بھائی کا مقام نہیں سمجھے گی تو جو مسائل کھڑے ہونگے عورت کے لئے ہی ہونگے نا مرد تو زیادتی کرے گا اسے تو موقع ملے گا اسے تو وحشت ہوگی جب اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے تو عورت کو اﷲ پاک کا یہ فیصلہ قبول کرنا چاہئیے اگر اس کا شوہر دوسری شادی کرتا ہے تو اس کی دوسری بیوی کو خوشی سے قبول کرے اور دوسری بیوی پہلی کو خوشی سے قبول کرے ہم سب نے اﷲ پاک کو جواب دہ ہونا ہے اس لئے اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہئیے. ہاں یہ بات بھی ہے کہ مرد بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے اسے بھی سوچنا چاہئیے جس طرح وہ اپنی عورت کے ساتھ کسی اور کا نام پسند نہیں کرتا اسی طرح عورت کے سینے میں بھی دل ہے اسے بھی تکلیف ہوتی ہے درد ہوتا ہے اس سے صبر کی اور قربانی کی امید رکھتا ہے تو خود کیوں نہیں صبر کرتا خود اپنے نفس کی قربانی کیوں نہیں دیتا اگر کسی مجبوری میں شادی کرتا بھی ہے تو پہلی بیوی کو اعتماد میں لینا چاہئیے اور دونوں بیویوں کے حقوق برابر پورے کرنے چاہئیں حرام کرنے سے بہتر ہے مرد شادی کر لے لیکن بیویاں جتنی بھی ہوں انکے حقوق اسلامی طریقے سے پورے کرے یہ جو بھائی غیرت کے نام پر بہنوں کا قتل کر دیتے ہیں یہ خود کیوں محبت کے ڈرامے کرتے پھرتے ہیں کیا ان کو سب اتھرائیز ہے اگر انکو اپنی زندگی جینے کا حق ہے تو اتنا حق اسلام نے لڑکی کو بھی دیا ہے وہ اپنی پسند نا پسند بتا سکتی ہے اگر مرد سو بار محبت کر کے بھی پارساہ ہے تو عورت کو اپنی زندگی کا ایک بار فیصلہ کرنے کا بھی حق نہیں سب سے بڑا المیہ جو عزاب بنا ہوا ہمارے معاشرے میں وہ ہے جہیز جس کے بغیر لڑکی کو قبول ہی نہیں کیا جاتا میں تو کہتی ہوں وہ مرد اپنے آپ کو مرد کہلوانا چھوڑ دیں جو اپنی جہیز جیسی لعنت لیتے ہیں عورت کی تو قدر ہی گھٹا دی اس لعنت نے کتنے غریب گھروں کی بچیاں ساری زندگی بیٹھی رہتی ہیں جہیز کے پیسے ہونگے تو ہاتھ پہلے ہونگے بارات کا کھانا ہوگا تو بارات آئے گی ظلم دیکھو بارات میں 400سے کم لوگ نہیں ہوتے ویسے ہم مسلمان ہیں لیکن اسلام پر چلنا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں کتنے گناہ سر زد ہو رہے ہیں اس جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے کوئی ساری عمر کنواری گزار دیتی ہے کوئی جہیز کی وجہ سے جلا دی جاتی ہے کسی کو طلاق دے کر برباد کر دیا جاتا کوئی شادی نہ ہونے کی وجہ سے گناہ کا راستہ اختیار کر لیتی ہے ہم کیوں نہیں ان بیماریوں کو جڑ سے کاٹ دیتے مردانگی تو یہاں نظر آتی ہے بہادری تو ادھر دکھائی دیتی ہے پچھلے دنوں بلوچستان میں ایک بچی کو پتھر مار مار کر مار دیا اس جرم میں کہ وہ پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی ایک سال پہلے منڈی بہاؤلدین میں ایک فرسٹ ائیر کی طالبہ کو اسی جرم میں مار دیا پچھلے رمضان کے مبارک مہینے میں ایک بھائی نے اپنی بہن کو روضے کی حالت میں تشدد کر کر کے مار دیا کسی کو پسند کرنے کے جرم میں ایسا کیوں ہے جب لڑکا اپنی پسند کا اظہار کر سکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں کتنے کیس ہو رہے ہیں چھوٹی سی بات پر کسی معصوم کی جان لے لی جاتی ہے کیوں اپنے بیٹوں کی ایسی تربیعت کرتے ہو کہ بہنوں کو دبا کے رکھو ڈرا کے رکھو انکو اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لینے دینا بیٹیوں کو پڑھنے نہیں دینا کہیں نوکری نہیں کرنے دینی اور جب وہ بیٹیاں بے چاری غریب گھروں میں بیاہ دی جاتی ہیں ساری زندگی غربت کی چکی پیستے ہوئے گزار دیتی ہیں تب یہ بھائی یا باپ یا چچا اپنی مردانگی نہیں دکھاتے انکے سر پر ہاتھ نہیں رکھتے انکے اخراجات نہیں اٹھاتے تب موہنہ موڑ لیتے ہیں بچیوں کو اتنا تو پڑھنے دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال سکیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے خود کفیل ہوں اپنے بچوں کی خود کفالت کر سکیں زندگی میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے اس قابل تو ہونا چاہئیے کہ بچی ایسے مسئلے سے خود نمٹ سکے -

یہ سارے مسائل ختم ہوں تو عورت کے مسائل ختم ہو سکتے ہیں ایک اور تکلیف دہ بات ہے جو کہ ایک حق سمجھ کر رسم بنا لی گئی ہے اور فرض کر دی گئی ہے بیٹیوں کو یا بہنوں کو انکے باپ کی وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا کہا جاتا ہے جہیز جو دے دیا بس حق ختم ہو گیا اگر حصہ مانگا جائے تو ساری زندگی کے لئے اس بیٹی سے رشتہ ہی ختم کر لیا جاتا ہے اس ڈر کی وجہ سے بچاری بیٹیاں اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں جبکہ اسلام کی رو سے بیٹی کو جہیز چاہے 20لاکھ کا بھی یا کتنے کا بھی دیا جائے اس کا باپ کی وراثت میں جو حصہ ہے وہ دینا پڑے گا نہیں تو اس حق تلفی کی سزا قبر میں تا قیامت باپ یا بھائی کو ملتی رہے گی اور روز قیامت الگ حساب ہوگا ان سب زیادتیوں میں عورت مرد دونوں برابر کے شریک ہیں کئی مائیں کہتی ہیں نہ جی نہ ہم کیوں کسی غیر کا گھر بھر دیں یہ ہمارے بیٹوں کے کام آئے گا بیٹی چاہے ان پر جان چھڑکتی ہو بیٹا پوچھتا بھی نہ ہو لیکن حق تلفی بیٹی کی ہی کی جاتی ہے اس لئیے میرا خیال ہے سب کو اپنی اپنی اصلاح کرنی چاہئیے اپنا اپنا احتساب کرنا چاہئیے عورت مرد دونوں قصوروار ہیں نہ اکیلی عورت نہ اکیلا مرد. دونوں اپنی اصلاح کریں ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں
شعر
میرے کردار کی سندیں لئے پھرتا ہے جو
ابن آدم کو بھی آئینہ دکھایا جائے
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 73069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.