اس وقت کورونا وائرس کووڈ۔ 19 عالمی سطح پر خوف کی ایک
علامت بن چکا ہے ۔چین سمیت دنیا کے دیگر سو سے زائد ممالک میں وائرس سے
متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اس تعداد میں
یومیہ بنیادوں پر مزید اضافہ ہو رہا ہے۔دنیا کے ترقی پزیر اور ترقی یافتہ
سبھی ممالک اس وقت تشویش میں مبتلا ہیں کہ کیسے کورونا وائرس کی روک تھام
اور کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب چین سے وائرس کی روک تھام ،کنٹرول ،متاثرہ مریضوں کے طریقہ علاج
اور صحت یابی سے متعلق خوش آئند خبریں سامنے آ رہی ہیں جس سے اس امید کو
تقویت ملتی ہے کہ چین کے تجربات کی روشنی میں عالمگیر اشتراک سے وبائی
صورتحال پر قابو پایا جا سکے گا۔
چین کے صوبہ حوبے کے دارالحکومت ووہان کو کورونا وائرس کا مرکز سمجھا جاتا
ہے ،اس وقت مثبت پیش رفت یہ ہے کہ چین بھر میں کورونا وائرس کووڈ۔ 19 کے
نئے کیسوں کی تعداد بالکل نہ ہونے کے برابر ہے اور ووہان شہر سمیت پورے
صوبہ حوبے میں بھی نئے تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد اور شرح اموات میں نمایاں
کمی واقع ہوئی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ چین میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی بدولت وائرس کے
باعث انتہائی تشویشناک حالت والے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار سے کم
ہو کر اس وقت صرف "ایک سو ترپن" تک ہی رہ گئی ہے۔ اٹھاون ہزار سے زائد مریض
مکمل صحت یابی کے بعد اسپتالوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں۔یہ بات حوصلہ افزاء
ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے
اضافہ ہو رہا ہے۔
بلاشبہ اسے چین میں گڈ گورننس اور ایک مضبوط فعال نظام کی برتری قرار دیا
جا سکتا ہے ۔ اتنے مختصر وقت میں ایک بڑی آزمائش کا کامیابی سے ڈٹ کر
مقابلہ کرنا اور نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کے جانی تحفظ کے
لیے بے مثال مضبوط اور سخت اقدامات اپناتے ہوئے ایک "نیا معیار "تشکیل دینے
کا سہرا چین کے سر ہی جاتا ہے۔
میرے خیال میں چین میں طرزحکمرانی کا نظام اسے دنیا کے دیگر ممالک سے ممتاز
کرتا ہے۔چینی قیادت فوری نوعیت کے بڑے اور اسٹریٹجک اہمیت کے فیصلے کرنے
میں کسی تذبذب کا شکار نظر نہیں آتی ہے۔چین کے پاس ہمیں ایک ایسا نظام
دیکھنے کو ملا جس کی بدولت کورونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے
انسانی ،مالیاتی ،تکنیکی اور دیگر وسائل کی دستیابی ممکن ہوئی اور انہیں
فوری طور پر متحرک کرتے ہوئے وبا کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا۔مثلاً
صرف ووہان شہر کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں وائرس سےمتاثرہ افراد کے لیے
انتہائی قلیل مدت میں چھیاسی اسپتال مخصوص کیے گئے ،سولہ عارضی اسپتال قائم
کیے گئے جہاں ساٹھ ہزار مریضوں کی گنجائش ہے جبکہ ملک بھر سے چالیس ہزار سے
زائد طبی عملہ بھیجا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین میں گورننس کے اس نظام کی
بنیاد عوام ہیں اور مفاد عامہ چینی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ اس جنگ میں براہ راست چینی قوم کی قیادت کر رہے ہیں
اور چینی قوم بھی اتحاد و یکجہتی سے اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کورونا
وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کی سرگرمیوں سے متعلق یومیہ بنیادوں پر
اجلاسوں کا انعقاد جاری ہے جسمیں حکام کی کارکردگی اور تازہ ترین پیش رفت
کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ عملی اقدامات میں ہر گزرتے روز تیزی اور جدت آتی جا
رہی ہے ۔صنعتی اور پیداواری سرگرمیاں تیزی سے بحال ہو رہی ہیں۔موسم بہار
چونکہ چین میں کاشتکاری کا بہترین وقت ہے لہذا زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دی
جا رہی ہے۔ وبائی صورتحال کے تناظر میں اقتصادی و سماجی ترقی کو ہم آہنگ
طور پر آگے بڑھانے کے لیے لازمی اقدامات جاری ہیں۔
چین کی جانب سے گورننس کے اسی بہترین نظام کی برتری کو بروے کار لاتے ہوئے
انتہائی کم مدت میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کی سرگرمیوں میں مضبوطی لائی
گئی۔چین کی آہنی اور مضبوط فیصلہ سازی اور بروقت موثر اقدامات نے دیگر
دنیا کو بھی کورونا وائرس کووڈ۔ 19 سے نمٹنے کے لیے لازمی تیاریوں کا قیمتی
وقت فراہم کیا۔چین نے وائرس کے پیتھوجین سے متعلق بھی عالمی ادارہ صحت اور
دیگر بین الاقوامی اداروں سے بروقت معلومات کا تبادلہ کیا جس کا فائدہ یہ
ہوا کہ اینٹی وائرس کی تیاریوں میں تیزی آئی ہے۔چین میں ہنگامی سائنسی
تحقیق پر بھرپور توجہ مرکوز کی گئی اور ویکسین کی تیاری سے متعلق اہم
ابتدائی نتائج بھی حاصل کیے گئے۔
اگر مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں تمام وسائل کو متحرک کرنا
، شفاف معلومات کا تبادلہ و اجراء، عوامی اتحاد و یکجہتی اور انفرادی و
اجتماعی طور پر اپنے فرائض سے لگن ہی وہ اوصاف ہیں جن کی بدولت آج چین میں
کورونا وائرس کی روک تھام و کنٹرول کے حوالے سے مثبت پیش رفت ممکن ہوئی ہے
اور دنیا اس کا اعتراف بھی کرتی ہے۔چین اس وقت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ
بھی انسداد وبا کے لیے نہ صرف اپنے تجربات کا تبادلہ کر رہا ہے بلکہ تکنیکی
معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔چینی قوم نے آزمائش کی اس گھڑی میں صبر، ہمت
،حوصلے اور عزم کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔چینی قوم کو ماضی میں بھی متعدد
آزمائشوں کا سامنا رہا ہے ، لیکن اس قوم نے کبھی ہار تسلیم نہیں کی ہے اور
انہی مشکلات میں مسلسل عروج پایا ہے۔
موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ تمام ممالک بالخصوص دنیا کے بڑے ممالک پر
ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اپنے سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر اتحاد و
یکجہتی سے مشترکہ طور پر کورونا وائرس کے تدارک کے لیے کام کریں تاکہ آنے
والی نسلوں کا تحفظ کیا جا سکے۔اس ضمن میں چین کے تجربات اور کامیابیاں
دنیا کے لیے امید کی کرن اور ایک روشن باب ہیں۔
|