میرا جسم ، میری مرضی

 ایک غیر جاندارانہ تجزیہ
میرا جسم، میری مرضی آج کے پاکستان میں بحث کا ’بھانبڑ‘ بنا ہوا ہے۔میڈیا سے لے کر عام آدمی تک سب لوگ اس بحث میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو یہ جیسے ’ٹاپ ٹرینڈ‘ بن چکا ہے۔ اس ’سلوگن‘ کے حق میں اور اس کے خلاف بحث کی بجائے انتہائی شدید اعتراضات اور بدزبانی کا بازار گرم ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں چاہے مندی سہی، لیکن اس بحث میں ملوث لوگ اپنی زبان اور رویئے کے لحاظ سے ایک دوسرے سے شدید نفرت اور دشمنی کی بلندترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور ان کے پیرو کار اور طرف دار بھی ایک دوسرے پر گالی گلوچ کے تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا ہے کہ بار بار انہی لوگوں کو دعوتِ اظہار دیئے جا رہا ہے جو اپنا ’پوائنٹ آف ویو‘ پہلے ہی کئی بار عوام الناس کے گوش گزار کر چکے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنی بات کر چکا ہے تو اسے بار بار میڈیا کے مختلف چینلز پر بلانے کی کوئی لاجک سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ غیر جانبدار اور متوازن سوچ کے مالک لوگوں کو ہی بحث و تکرار کے لئے بلایا جانا چاہیئے اور جو لوگ میڈیا پر بھی اپنی زبان کنٹرول نہیں رکھ سکتے ان کے تو میڈیا پر آنے پر پابندی لگا دینی چاہیئے کیوں کہ اس سے عام لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہونے کا بھی اندیشہ اور امکان بڑھ جاتا ہے۔

ہم نے اس مضمون میں اوپر لکھے گئے عنوان ،جو کہ عورت آزادی مارچ جو کہ آٹھ مارچ کو ہونے جا رہا ہے، کے لحاظ سے سیر حاصل اور غیر جانبدارانہ بحث کرنے کی کوشش کی ہے امید کی جاتی ہے کہ قارئین کو پسند آئے گی اور اگر قارئین مناسب سمجھیں تو کچھ فیڈ بیک سے بھی نواز دیں تو ان کی مہربانی ہو گی۔

’میرا جسم، میری مرضی‘ کا سلوگن دراصل صرف ’مرضی‘ پر مرکوز ہوتا ہے۔ ’جسم ‘ کی اہمیت مرضی کے مقابل بہت ہی کم ہے۔ اس لئے پہلے ہم اپنی بحث کا رخ’ مرضی‘ کی طرف موڑتے ہیں کہ ہم بھی تو اپنی مرضی کر سکتے ہیں۔ اور درج بالا سلوگن’ میرا جسم، میری مرضی‘ کے مقابل ہم اپنا سلوگن رکھ سکتے ہیں: میرا مضمون، میری مرضی۔ اس مثال سے یہ بات ہم کسی بھی چیز کی طرف لے جا سکتے ہیں کہ جیسا کہ قریباً ہر انسان کا بچپن کا یہ ایک یقینی مشاہدہ ہے کہ بچے چیزوں پر اپنا تسلط جمانے کے ساتھ ساتھ یہ فقرہ ضرور بولتے ہیں کہ چوں کہ چیز ان کی ہے اس لئے اسے استعمال میں لانا یا نہ لانا یا جیسے مرضی استعمال میں لانا ۔۔۔ سب کا سب ان کی مرضی کے تابع ہے۔ اس طرح یہ بات اگر اس چھوٹی سی مثال سے بڑھا کر کسی بھی بڑے کینوس پر رکھ دی جائے تو بنیادی اصول اور انداز وہی رہے گا جو سطورِ بالا میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ چیز مالک کی مرضی کے تابع ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو جو اکثر اپنی مرضی کا استعمال کرتے ہیں ان کو ’ مرضی کا مالک‘ یا مرضی کی مالک‘ کہا جاتا ہے اور ایسا اکثر اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو دوسروں کی رائے اہمیت نہیں دیتا اور ہروقت اپنی مرضی کرتاہے۔

اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ انسان کو ،کسی بھی مذہب اور سماج کے تناظر میں دیکھے بغیر، اپنی مرضی یا من مانی کرنے کی کس حد تک اجازت اور ضرورت ہے اور وہ کس حد تک ایسا کر سکتا ہے اور کس حدتک اپنی مرضی بھی نہیں کر سکتا چاہے وہ اپنی مرضی کرنے کا کتنا ہی زیادہ شائق کیوں نہ ہو۔ انسان کو اس زندگی اور اس دنیا میں مرضی کرنے کی خواہش کی تو کوئی حد نہیں لیکن بحث کی بات یہ ہے کہ وہ ایسا کر بھی کس حد تک سکتا ہے اور کس حد تک وہ پہلے ہی مجبور ہے۔

پہلے ہم انسان کی مرضی فطرت کے لحاظ سے زیرِ بحث لاتے ہیں۔ انسان اپنی مرضی سے فطرت کی بہت کم چیزوں کو بدل سکتا ہے جیسا کہ انسان دن رات کے آنے جانے، موسموں کے بدلنے، طوفانوں، زلزلوں کے آنے اور اسی طرح کے اور فطرتی عوامل اور معمولات میں سے کسی پر بھی اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ سننے میں آتا ہے کہ اکثر لوگ موسموں کے لحاظ سے اپنے پسندیدہ موسم کا نام تو لیتے ہیں لیکن وہ اپنے پسندیدہ موسم کو اپنے پاس روک نہیں سکتے۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر گرمی رہتی ہے جب کہ زیادہ تر لوگوں کو سردی پسند ہے لیکن ہم گرمی برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہماری مرضی کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔موسم اپنی مرضی ہم پر مسلط کرتے ہیں اور سردیوں میں گرم کپڑے اور گرمیوں میں باریک اور سوتی کپڑے پہننا ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔ہم اپنی مرضی نہیں کر سکتے۔موسم پسند کرنے میں ہم اپنی مرضی کر سکتے ہیں لیکن ان کے آنے جانے میں کوئی ہماری مرضی نہیں پوچھتا ۔فطرت نے ہمیں کھانے پینے کے لئے بے شمار چیزیں دیتی ہے۔ ان چیزوں میں سے ہم اپنی مرضی کے مطابق کچھ چیزوں کو پسند اور کچھ کو ناپسند کرتے ہیں۔ اپنی پسندیہ چیزوں زیادہ استعماال کرتے ہیں اور ناپسندیدہ چیزوں کو اپنے آپ سے دور رکھتے ہیں یا خود ان سے دور رہتے ہیں۔ لیکن اپنی مرضی کی بھی ایک حد ہے اور یہ حد بھی فطرت خود متعین کر د یتی ہے اور ہماری مرضی کے متعلق کچھ نہیں پوچھتی۔ مثلاً کسی کو اگر میٹھی چیزیں پسند ہیں تو وہ اپنی مرضی سے جتنی چاہے میٹھی چیزیں کھا سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے ’ہر چیز کی زیادتی بُری ہوتی ہے‘ کے سنہری اصول کے مطابق کچھ مدت تک زیادہ میٹھا کھانے سے اکثر شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے اور پھر شخص کو پرہیزی کھانا ہی کھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح سے زیادہ نمکین چیزیں کھانے سے بلڈ پریشر کا مرض شاملِ جسم ہو جاتا ہے۔ اور انسان ، نمکین چیزوں سے لطف اندوزہونے سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان اپنی مرضی سے ہر روز شوارمے کھا سکتا ہے، برگر اڑا سکتا ہے لیکن کب تک ؟ جلد ہی اسے معدے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر اسے اُبلی سبزیاں اور پھوکے سالن ہی کھانے پڑیں گے۔اسی طرح سے کوئی بیمار جب زیرِ علاج آ جاتا ہے تو اس پر ڈاکٹر کئی ایک چیزیں منع کر دیتا ہے اور اس کے گھر والے اس کے کہنے اور چاہنے کے باوجود بھی اس کو وہ کھانے اور چیزیں نہیں دیتے جو ڈاکٹر نے منع کی ہوتی ہیں۔مطلب یہ کہ فطرت کے لحاظ سے انسان بہت سی باتوں میں مرضی کر سکتا ہے لیکن ساری باتوں میں وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔ وہ مکمل طور پر اپنی مرضی کے تابع نہیں بلکہ وہ ایسی بہت سی چیزوں کے تابع بھی ہے اس کی مرضی کے خلاف ہیں۔ایک عام سی بات ہے کہ انسان بوڑھا نہیں ہونا چاہتا تو کیا اس کی جوانی اس کے تابع ہے؟ ہرگزنہیں اس کی جوانی اس کی شدید خواہش کے برعکس اس سے چھن جائے گی اور وہ خود کو بڑھاپے کے ریگستان میں رینگتا ہوا پائے گا۔ کوئی شخص اپنے جسم کو اپنی مرضی سے جوان نہیں رکھ سکتا۔ انسان تو اس لحاظ سے بالکل مجبور اور محدود ہے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک تو ہو سکتا ہے لیکن ہر چیز کی مرضی، اس کی مرضی کے تابع نہیں ہے۔ اس کی حیثیت انتہائی محدود ہے۔

کیا کوئی انسان اپنی پیدائش، اپنی مرضی سے کروا سکتا ہے؟ ہر گز ہر گز نہیں۔انسان، زندگی میں نقل مکانی تو کر سکتا ہے، اپنا معاشرہ اور حتیٰ کہ اپنا مذہب بھی بدل سکتا ہے لیکن وہ اپنی پیدائش اور ماں باپ نہیں بدل سکتا چاہے وہ اچھے ہوں چاہے برے۔اور نہ ہی وہ اپنے بہن بھائیوں کو بدل سکتا ہے چاہے وہ ان سے بول چال رکھے چاہے نہ رکھے۔

اب ہم اس بات پر بحث کریں گے کہ انسان سماج اور معاشرے میں کس حد تک اپنی مرضی کر سکتا ہے اور کس حد تک نہیں کر سکتا ۔

انسان ایک نئی گاڑی خریدے اور سڑکوں پر لگے اشارے توڑتا پھرے اور کہے کہ گاڑی اس کی ہے اس لئے اس کی مرضی ہے کہ اشاروں کے اشارے مانے یا نہ مانے اور اپنی مرضی سے جدھر چاہے گھومتا پھرتا رہے۔ تو کیا ایسی بات قابلِ اجازت ہو گی۔ جواب یقیناً نہیں میں ہو گا۔ انسان جس سماج میں رہتا ہے اس کی سامراجیت کا اقرار اور احترام کرنا ہی پڑتا ہے۔ جیسا کہ پرانا مقولہ ہے: جیسا دیس ویسا بھیس۔ اگر کو ئی شخص پاکستان کی شہریت حاصل کرے لیکن کہے کہ وہ قوانین اپنے پہلے ملک کے ہی مانے گا۔ تو کیا اس شخص کو ایسا کرنے دیا جا سکے گا ہرگز نہیں۔ اگر کوئی پاکستانی یہ کہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر انڈیا کا پرچم لہرانا چاہتا ہے یا کوئی انڈین اپنے گھر پر پاکستان کا پرچم لہرانے کی اجازت مانگے تو ہر دو صورتوں میں کبھی بھی اجازت نہیں ملے گی۔ یعنی اپنی مرضی نہیں چلے گی۔ سماج کے نارمز ماننے ہی پڑیں گے۔ سماج کے طور طریقے، انداز اور رسم ورواج بھی بڑی حد تک اپنا غلبہ رکھا کرتے ہیں۔کوئی شخص سعودی عرب جا کر چوری کرے تو وہاں اس ملک کا قانون اپلائی ہو گا اور اگر کوئی شخص انگلینڈ جا کر چوری کرے تو اس پر اس ملک کا قانون اپلائی ہو گا۔ اسی طرح سے دوسری باتیں بھی سماج کے لحاظ سے ہی ماننی پڑتی ہیں۔ اپنی مرضی تو بہت محدود ہے۔یہ حال چیزوں کی اور زمینوں کی قیمتوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ ملکوں کے قوانین انسان کی مرضی کے تابع نہیں بلکہ اپنی مرضی کو قانون کے تابع کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح سے اگر ہم کسی تنظیم کے رکن ہوں یا کسی سیاسی پارٹی کے یا کسی مذہبی فرقے یا کسی مذہب کے تو ہمیں اس تنظیم، سیاسی پارٹی، فرقہ یا مذہب کے ضوابط اور اصول ماننے ہوں گے بصورتِ دیگر ہمیں شوکاز نوٹس، اعتراضات اور فتووں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم ایک تنظیم کے ممبر ہوتے ہوئے اس کے اصولوں کے خلاف بات بھی نہیں کس سکتے۔اسی طرح سے کسی خاندان، برادری ، علاقے وغیرہ کی باتیں بھی کچھ اسی طرح کی ہوتی ہیں۔

اب ہم اس بحث کے عنوان کے پہلے حصے یا لفظ یعنی’ جسم‘ کی طرف آتے ہیں۔

جسم پر انسان کو بظاہر بہت زیادہ اختیار یا مرضی ہے۔ انسان اسے جیسے چاہے استعمال کرے، اسے جو مرضی کھلائے، جب مرضی سلائے، جگائے، ہنسائے، رُلائے، کھپائے ، بنائے، گنوائے وغیرہ ، سب انسان کی مرضی کی تحت ہے۔ بہت سے لوگ اس جسم کو شراب پلاتے ہیں۔ بہت سے نشہ کھلاتے ہیں، بہت سے سگرٹ پلاتے ہیں، بہت سے چائے، کافی ، لسی ، مشروبات، طاقتور غذائیں وغیرہ کھلاتے ہیں۔ بہت سے لوگ جسم کو پہلوانی سکھاتے ہیں بہت سے رہبانی سکھاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے مذہب کے لئے وقف کرتے ہیں، بہت سے سیاست کے لئے، بہت سے سیاحت کے لئے، بہت سے تجارت کے لئے، بہت سے جسم فروشی کے لئے، بہت سے خدمتِ خلق کے لئے، بہت سے گالی گلوچ کے لئے، بہت سے ذکرِ الہٰی کے لئے۔الغرض انسان اپنا جسم اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر ہی زندگی گزارتے ہیں۔چاہے وہ اچھائی ہو چاہے برائی۔جسم پر انسان کا حق ہے لیکن یہ حق بھی کچھ مجبوریوں یا پابندیوں کے تابع ہے۔ جیسا کہ کوئی شخص جسم کو شراب پلاتا جائے تو وہ جسم کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور وہ شراب جب حد سے زیادہ ہو جائے تو جسم کے لئے زہر بن جائے گی۔ اسی طرح کوئی شخص جسم کو کسی ایسی سرگرمی کے لئے استعمال کرے جس سے کوئی بیماری یا روگ لگنے کا احتمال ہو تو یہ بھی نامناسب ہی کہا جائے گا۔ جسم کو اس کی صحت اور سکون اور مناسب محنت کے ساتھ استعمال کرنا ہی بہتر اور اچھا ہے۔اگر کوئی شخص جسم کو صحت کے اصولوں کے خلاف استعمال کرے گا تو یقیناًنقصان اٹھائے گا ۔

انسان کا یقیناً اپنے جسم پر حق ہے لیکن اس میں سماجی، طبی، طبعی، ملکی و فطرتی تقاضے پورے کرنا بڑی حد تک ضروری ہو تا ہے۔ مشرق میں مغربی اطوار ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں جب کہ مغرب میں مشرقی انداز مثلاً نقاب نا پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں اور پیرس جیسے شہر میں اور فرانس جیسے ملک میں بھی، جہاں انقلابِ فرانس اسی شخصی آزادی کی مغرب میں پہلی آواز کے طور پر برپا ہوا، طالبات کو نقاب پہننے پر یونیورسٹیوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اگرچہ مغرب شخصی آزادی کا سب سے برا علمبردار اور مشعل بردار ہونے کا دعویدار ہے،لیکن وہاں بھی انسان کو جسمانی یا کسی بھی طور پر مکمل آزادی نہیں ہے۔

ہر تنظیم ، سیاسی پارٹی، فرقہ ، مذہب یا ملک اپنے سے منسلک لوگوں کو ایک محدود حد تک ہی مرضی کرنے کی اجازت یا اختیار دیتا ہے اور جہاں اس کے مفادات کے زد پڑنے کا اندیشہ ہو وہاں اس کے رویئے یکسر بدل جاتے ہیں۔ اور اس میں کوئی بھی فراخ دل اور بے نیاز ثابت نہیں ہوتا ۔

اب ہم اس بحث میں مذہب کا پہلو شامل کرتے ہیں:
شخصی آزادی کے لحاظ سے تمام مذاہب کے رویئے بڑی حد تک ایک جیسے ہیں۔ وہ اپنے ماننے والوں کو محدود حد تک آزادی یا مرضی کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور بڑی حد تک ان کے شب و روز اپنی تعلیمات یا مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ مذاہب نیکی اور گناہ کا تصور دے کر اپنے ماننے والوں کو محدود دائروں کا پابند کر لیتے ہیں اور پھر ان کے ماننے والوں کی زندگی بڑی حد تک ان ہی محدود اور مخصوص راستوں اور دائروں میں متعین ہو جاتی ہے۔ یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ مذاہب کے ماننے والوں اور اتباع کرنے والے اکثر لوگوں کی زندگیاں زیادہ پرسکون اور خوشگوار ہوتی ہیں۔ وہ اپنی زندگیاں مذاہب کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں اور قناعت اختیار کر کے زندگی کے محدود وسائل سے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جب کہ بہت سے مالدار لوگ جو اپنی زندگی اپنی مرضی کے سانچوں میں ڈھال لیتے ہیں اکثر نا خوش اور پریشان نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بات اکثر لوگوں کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے لیکن سب کے لحاظ سے غالباً ایسا نہیں ہے۔

مذاہب ہماری زندگی کے شب و روز اور حتیٰ کہ پورا سال اپنے پروگرام کے مطابق متعین کر دیتے ہیں،حتیٰ کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں بھی محدود کر دیتے ہیں کہ فلاں چیز کھائی جا سکتی ہے اور فلاں نہیں۔ اسی طرح سے عبادت کے اوقات ، روزے، قربانی،زکٰوۃ، صدقہ وغیرہ سب مذاہب اپنی مرضی سے متعین کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی اور جنس کے معالات بھی مذاہب اپنی مرضی کے تابع کر لیتے ہیں۔اور پھر انسان کو ایک متعین اور محدود دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا سبق دیتے ہیں۔مذاہب لباس بھی متعین کر تے ہیں اور حتیٰ کہ نگاہوں کو بھی اپنی تعلیمات کے تابع کرتے ہیں۔ لیکن اس محدود دائرے میں بھی انسان کے لئے بہت سی آزادی اور مرضی کی گنجائش ہوتی ہے۔

مذاہب کی دی گئی آزادی بھی اتنی محدود نہیں ہوتی کہ انسان اس میں تنگی محسوس کرے۔ زندگی کا ایک بہت بڑا دائرہ انسان کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ مثلاً مذہب اگر چند چیزیں منع کرتا ہے کہ یہ نہیں کھانیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں کھانے کے لئے وہی چند چیزیں ہیں۔ بلکہ دنیا میں کھانے پینے کے لئے لا تعداد چیزیں ہیں اور منع شدہ چیزوں سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ انسان کو جنسی طور پر کسی ضابطے میں رہنے پر زور دیتے ہیں تو اس ضابطے کے اندر بھی بہت سی آزادی ہے جس سے انسان اپنی اس جبلت کی تسکین حاصل کر سکتا ہے۔

اوپر کی تمام بحث اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ انسان کہیں بھی مکمل آزاد نہیں اور نہ ہی کسی ضابطے کے اندر رہ کر انسان مکمل طور پر محدود ہوتا ہے ۔ انسان ہر جگہ بہت سی پابندیوں میں گھرا ہوتا ہے: کہیں کوئی پابندی ہے تو کہیں کوئی اور پابندی ہے۔ پابندیوں سے مکمل آزادی کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے پابندیوں کو مکمل طور پر توڑنے کی خواہش تو اس دنیا میں پوری نہیں ہو سکتی۔اس لئے پابندیوں میں رہ کر اپنی آزادی کو محفوظ بنانے اور اس کا مناسب استعمال کرنے کا طریقہ تلاش کرنا ہو گا۔ یورپ اور امریکہ بھی کون سے مکمل آزاد معاشرے دے سکے ہیں۔ مکمل آزادی تو کسی بھی ریاست میں ممکن نہیں ہے۔ ہر ریاست میں کچھ آزادیاں اور کچھ مجبوریاں ہیں۔
امید ہے کہ قارئین کو یہ بحث پسند آئے گی۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312921 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More