عورت مارچ ۔۔۔فہم و فراست کے تقاضے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اسلام کے آنے سے پہلے جاہلی دور میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتاتھا اس کا ذکر تاریخ اور کچھ سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی کتابوں میں تفصیلاً درج ہے ۔اس دور کا مطالعہ کرنے سے ایک بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ تب عورتوں کی عزت و احترام جانوروں سے بدتر یا کم از کم جانوروں کے ہم پلہ ہی تھی ۔جاہلی زمانہ میں عام رعایا یا غلاموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتاتھا اس سے بھی بدتر سلوک عورتوں کے ساتھ باہمی جھگڑوں ،شادی بیاہ اور دیگر معاشرتی معاملات میں روا رکھا جاتا تھا،عورتیں بیچی اور خریدی جاتی تھیں اور بعض اوقات عورت سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتاتھا۔عریانی اور فحش گوئی عام تھی اور عورتوں سے متعلق فحش اشعار سرعام کہے جاتے تھے ۔ اس جاہلی معاشرے میں عورتوں کی عزت و تکریم کا جو حال تھا اس کا مختصر خاکہ درج ذیل ہے ملاحظہ کریں :

جاہلی زمانہ میں کسی کے گھر اگر بیٹی پیدا ہوجاتی تھی تو وہ لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ ہوتے مرد اپنے غصہ میں اس حد تک آگے چلا جاتا کہ اپنی بیوی کو قابل نفرت سمجھتا اور بیٹی کو زندہ دفن کرنے پر تل جاتا تھا ۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرز عمل کی عکاسی سورہ نحل میں کچھ یوں کی ہے :اور جب ان میں سے کسی لڑکی کی پیدائش کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے سوچنے لگ پڑتا ہے کہ اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ زندہ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے ۔خبر دار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں ۔

حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں :
۱۔ایک تو وہی صورت جو آج بھی رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کواس کی زیر ولایت یا زیر کفالت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجتا تھا ،پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا ۔
۲۔دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب ایام مخصوصہ سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس جاکر اس سے زنا کراؤ ۔جب کہ اس دوران شوہر خود اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہتا تھا اور اس کے قریب نہیں جاتاتھا ۔یہاں تک کہ واضح ہوجاتاتھا کہ جس آدمی سے زنا کیا گیا ہے اس سے حمل ٹھہر گیا ہے ۔ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔اس نکاح کو نکاح استبضاع کہا جاتا تھا جب کہ ہندوستان میں اسے نیوگ کہتے ہیں ۔

۳۔نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھی ہوتی اور یہ سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور اس سے بدکاری کرتے جب وہ حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوجاتاتو وہ عورت ان سب دس مردوں کو بلا لیتی اور اعلان کرتی کہ اے فلاں وہ تمھارا لڑکا ہے ۔

۴۔نکاح کی چوتھی صورت یہ تھی کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ۔یہ عورت اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی ،نشانی کے طور پر یہ عورت اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں ۔جب یہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو سب مرد اس کے پاس جمع ہوجاتے اور ایک قیافہ شناس (چہر ہ شناس ) کو بلاتے ۔وہ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کردیتا تھا پھر یہ بچہ اسی کا بچہ ہوتا جس کے ساتھ قیافہ شناس نے ملحق کیا ۔

اﷲ تعالیٰ نے جب رسول رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح ختم کردیے گئے صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے ۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کتنی عزت و تکریم دی جب کہ یہی عورت جاہلی دورمیں مردوں کے لیے کھلونا بنی ہوئی تھی ۔زمانہ جاہلیت میں مردو عورت کے میل ملاپ کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اورنیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں ۔یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والا مغلوب قبیلے کی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیتا تھا مگر ایسی عورتوں سے پیدا ہونے والی اولاد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی ۔زمانہ جاہلیت میں کسی حد کے بنا متعدد بیویاں رکھنا بھی ایک معروف بات تھی ۔باپ کے طلاق دینے یا وفات پا نے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کرلیتا تھا ۔

یہ تو صرف چند قباحتیں تھیں جو اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں رائج تھیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ جاہلی دور میں عورتوں کو کتنی عزت و تکریم حاصل تھی ۔جیسے ہی اﷲ تعالیٰ نے رسول رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا عورتوں کو عزت و تکریم کے ساتھ اتنے حقوق دیے گئے جتنے آج تک نہ کسی مذہب نہ کسی معاشرے اور نہ کسی قوم نے اپنی عورتوں کو دیے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بنت حاتم جب جنگی قیدی بن کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو جو اخلاق کا مظاہرہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عورت ذات کے ساتھ کیا وہ عورتوں کے ان حقوق اور عزت و تکریم کی عکاسی کرتا ہے جو زمانہ جاہلیت میں نہیں تھے اور نہ ہی اسلام کے علاوہ کسی مذہب نے عورتوں کو آج تک دیے ۔

سفانہ بنت حاتم جب جنگی قیدی بن کر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں ہیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے آزاد ہونے کی درخواست کرتی ہیں جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سن کر خاموشی اختیار کی جب تیسری بار سفانہ بنت حاتم نے رہائی کی درخواست کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ اتنی جلدی کیوں کرتی ہو جب تمھارے علاقے سے کوئی تمھارا قابل اعتماد بندہ آیا تو اس کے ساتھ چلی جانا ۔کچھ دن بعد جب سفانہ بنت حاتم کے علاقے سے کچھ بااعتماد افراد آئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سفانہ بنت حاتم کو ان کے ساتھ سفر کے اخراجات ،ضروری اشیاء اور کچھ کپڑے دے کر روانہ کردیا ۔

مذکورہ بالا واقعہ میں عورتوں کی عزت و تکریم اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ سفانہ بنت حاتم نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا عیسائی تھیں ،دوسرا جنگی قیدی تھیں اور اس سے بڑا حق اور کیا ہوگا کہ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی رہائی کی درخواست رد نہ کی اور انھی کے قبیلے کے بااعتماد افراد کے ساتھ ان کو عزت و احترام کے ساتھ ان کے قبیلے کی طرف روانہ کیا ۔اسلام نے عورتوں کو جو عزت و تکریم دی اس کے لیے سفانہ بنت حاتم کا مذکورہ بالا واقعہ گواہی کے لیے کافی ہے اگر۔۔۔ سمجھا جائے تو ۔عورتوں کی عزت اس دین اسلام نے اتنی دی کہ ایک عورت وجۂ کائنات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو راستہ میں روک کر گھنٹوں بات کرتی رہی اور اپنے مسئلے بیان کرتی رہی جس کے جواب میں رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عزت و احترام ،خاموشی اور خندہ پیشانی سے اس عورت کی ساری باتیں سنیں اور اس کے مسئلوں کو حل کیا ۔

موجودہ دور میں عورتوں کے حقوق کا راگ الاپنے والے یا تو سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ناواقف ہیں یا انھوں نے تاریخ کی کتابوں میں جاہلی دور کی عورتوں کا تذکرہ نہیں پڑھا ہے ۔یہ اسلام اورپاکستان کش این جی اوز جن پندرہ سے انیس سال کی لڑکیوں کو سربازار لاکر مسلمان عورتوں کے حقوق کے لیے ریلی نکلواتی ہیں ان لڑکیوں کو تو نہ سیرت کا پتا ہے اور نہ جاہلی دور کی تاریخ کا ۔وگرنہ نہ ان کو آج اپنے حقوق سلب ہوتے نظر آتے اور نہ یہ سربازار بے ہودہ بینرز اٹھا کر دوسروں کے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتی ۔والدین اور بڑوں بزرگوں کو چاہیے کہ ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سوچ بچار کا دامن تھامیں ،خواہ مخواہ کی بحث وتکرار کے بجائے اپنے زیر سایہ بچیوں اور بچوں کی تربیت خالصتاً اسلامی ماحول میں کریں۔ قرآن پاک اور سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو پڑھنے،سمجھنے اور سیکھنے کی تلقین کریں جس طرف دنیاوی تعلیم کے لیے والدین اپنی اولاد کے لیے ہر ممکن اور ہر ذریعہ استعمال کرتے ہیں ویسے ہی دینی تعلیم خاص کر قرآن پاک اور سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کرنے کے لیے خاص توجہ دیں تاکہ آنے والی نسلیں اسلام اور پاکستان کش افراد کے قبیح عزائم کا ذریعہ نہ بن سکیں ۔
 

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86037 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.