آج سے تقریبا پندرہ سوسال قبل آقائے دوجہاں حضرت محمد
ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دُوسرے مسلمان
محفوظ ہوں‘‘ گویا ایک انسان سے دوسرا انسان اُس وقت تک محفوظ رہ سکتا ہے جس
وقت تک وہ اپنے کسی بھائی کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہو۔مشہورمفکر ارسطو نے
بھی معاشرتی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے
کیا تھا کہ’’عا لم اسوقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ
آجائے اور وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھ سکے‘‘۔کسی بھی معاشرے کی
عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور
جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گامزن
ہوجاتا ہے۔ پُرامن معاشرے کی تشکیل کئی اکائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اِ ن
اکائیوں کے باہم مربوط اور منظم رہنے سے ہی معاشرے کی بقا اور فروغ ممکن ہے
جس کی پہلی شرط اتحاد ہے اور اس کے لیئے ضروری ہے ایک دوسرے کے نظریات کو
برداشت کرنا۔ یہ برداشت ہی ہے جو انسان کو مہذب بناتی ہے اور زندگی کے تمام
حالات میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
آ ج ہمارے معاشرے میں برداشت کی روایت دم توڑ نے لگی ہے اور یہیں سے
معاشرتی بگاڑ اور فسادات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جس کی بوچھاڑ سے بدامنی
وجود میں آتی ہے جو مخدوش حالات کو جنم دیتی ہے یہی گھمبیرصورت حال ہمارے
معاشرے کو بھی آج درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس سْرعت سے فروغ
پارہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ہم بحیثیت قوم معاشرتی طور پر اتنے کم ظرف،
کمینے، تنگ نظر، بے حس، گھٹیا اور بے غیرت ہو چکے ہیں کہ ہمیں کسی زندہ
انسان کو سہارا دینا تو دور کی بات قبر کے لیے دوگز زمین دینا بھی ہمیں
گوارا نہیں ہے۔گذشتہ روز کامیڈی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ستر سالہ امان اﷲ
لاہور میں انتقال کر گئے۔امان اﷲ خان پھیپھڑوں ،گردوں اور دل کے عارضہ میں
مبتلاتھے ۔وزیراعظم عمران خان سمیت اعلیٰ حکومتی اور شوبزشخصیات نے امان اﷲ
کے انتقال پر گہرے رنجم وغم کااظہارکیا ہے۔نماز جنازہ میں گورنر پنجاب اور
وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان سمیت شوبز سے تعلق رکھنے والی
شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعدتدفین کے لیے قبر کی
کھدائی پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں جاری تھی کہ سوسائٹی انتظامیہ نے
لیجنڈامان اﷲ کے جسدِخاکی کو سوسائٹی کے قبرستان میں یہ قرار دے کر دفن
کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے قبرستان میں کسی مراثی کے لیے جگہ نہیں ہے۔"
ایک وائرل وڈیو کلپ میں سوسائٹی کے عہدیدار، جن کے چہرے پر سنت نبوی سجی
تھی وہ وزیر موصوف کو علیحدگی میں کچھ کہنا چاہتے تھے تاہم وزیر اطلاعات و
ثقافت فیاض الحسن چوہان نے ان کا موقف سننے سے انکار کیا اور انتظامیہ کو
حکم دیا کہ وہ تدفین کی اجازت دے"۔
دوسری جانب نجی ہاؤسنگ سوسائٹی انتظامیہ کا موقف یہ تھا کہ امان اﷲ کے
اہلخانہ نے تین قبروں کی جگہ مانگی جس پر وہ امان اﷲ کا مزار بنانا چاہتے
تھے۔ان کا کہنا تھاکہ امان اﷲ خان بہت بڑے فنکار تھے ، ان کی تدفین کے لیے
قبرستان کے وسط میں جگہ درکار ہے۔ جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مزار بنانا
ہے تو قبرستان کے کونے میں جگہ لے لیں۔عینی شاہدین کے مطابق نجی ہاؤسنگ
سوسائٹی کی انتظامیہ کی جانب سے لیجنڈ کامیڈین امان اﷲ کی تدفین کیلئے قبر
کی کھدائی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں،صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان
خودموقع پر پہنچ گئے اور قبر کی کھدائی کی نگرانی کی ، سوسائٹی کے منتظمین
نے صوبائی وزیر کے ساتھ بھی تکرار کی۔ انتظامیہ کا موقف تھاکہ قبر ترتیب سے
نہیں کھودی جارہی جس کی وجہ سے مزدوروں کوروکا۔ صوبائی وزیرفیاض الحسن
چوہان قبر کی تیاری کے موقع پر خود موقع پر موجود رہے۔
فیاض الحسن چوہان سے نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ دوسرا موقع ہے کہ
فیاض الحسن چوہان کا فعل اچھا لگا۔ایک لاہور میں وکلاء اور ڈاکٹرز جھگڑے کے
دوران میدان میں آکر صلح صفائی کی کوشش کرنا اوردوسر ا امان اﷲ کی تدفین کے
معاملے میں بذات خود قبرستان پہنچ کر معاملہ نمٹانا جسکی جتنی بھی تعریف کی
جائے کم ہے۔ہمارے قوم نما ہجوم میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی
زندگیوں میں تو کُجا قبرستانوں میں بھی اپنے مخالف نظریات رکھنے والے اشخاص
کو قبول کرنے سے انکاری ہیں ۔ جبکہ ہمارے سامنے جنت البقیع کی مثال موجود
ہے جہاں وفات پانے والے مرد و عورت بنا کسی رنگ و نسل اور عقیدے کی تفریق
کے دفن ہو سکتے ہیں تو یہا ں کیوں نہیں؟امان اﷲ خان میں بحیثت ادنیٰ قلم
کار آپ کے فن کا معترف ہوں۔ آپ کا شمار ان لیجنڈز میں ہوتا ہے جہنوں نے
دنیا بھر میں کامیڈی کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا لیکن ہم وہ
احسان فراموش لوگ ہیں جوبھیک میں بھی کسی کو بددعا ہی دیتے ہیں خیرات
نہیں۔میں نجی سوسائٹی کے عہدیدار سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس نبی ﷺ کی امتی
ہیں جو رحمت العالمین ہیں رحمت المسلمین نہیں۔ مراثی امان اﷲ نہیں مراثی
ہماری سوچ ہے جواتنی غلیظ ہے کہ اس کے شر سے ہمارے پڑوسی بھی محفوظ نہیں۔
ہم اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرلیں تو صورت حال خاصی بہتر ہوسکتی
ہے۔ صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے۔ لہٰذا
بہتری اسی میں ہے کہ معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان
چھڑائی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیاجائے۔ ایک دوسرے کا احترام کیا
جائے اور انسانیت کا درس دیاجائے۔میڈیا اور فلاحی تنظیموں کی یہ ذمہ داری
ہے کہ وہ اِس کے متعلق لوگوں میں شعور پیدا کریں۔ مزید یہ کہ نظامِ تعلیم
کو بہتر بنانے کے لیئے نصاب میں تبدیلی کی جائے جو نئی نسل کو ایک مثبت سمت
سے روشناس کرواسکے اورجس سے اْن کی اصلاح ہو سکے۔ اب وقت ہے آگے بڑھ کر معا
شرے سے عدم برداشت جیسے فتنے کا خاتمہ کرنے کا جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔
آخر میں ایک شعر کامیڈین امان اﷲ کے فن کی نذر
اس لرزتے اشک کی ہمت تو دیکھ
ڈٹ گیا ہے قہقے کے سامنے! |