عورت مارچ کے ساتھ مرد مارچ

تحریر۔۔۔۔عائشہ تحسین
رائٹرخلیل الرحمان اور ماروی سرمد کی ویڈیو پر لوگ مختلف قسم کی باتیں کر رہے ہیں خلیل الرحمن نے جس قسم کی زبان استعمال کی ہے وہ کسی طور پر بھی اسلامی نہیں ہے نہ اسلام اسے صحیح قرار دیتا ہے وہ عورت جیسی بھی ہے جو بھی کرتی ہے ان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ لائیو شو میں اس طرح کی باتیں کریں جس کو دیکھو وہ منہ اٹھا کر اپنی بدتمیزیوں کو اسلامی قرار دے رہے اسلام میں گالی گلوچ کی ممانعت ہے اور قلیل الرحمان نے اپنی گھٹیا زبان یوز کر کے اسلام کوبدنام کیا ہے یہ کونسا اسلام ہے جس میں عورت کے کردار کشی کرنا حلال قرار دیا گیا نہ تو میں ماروی سرمد کے حق میں ہوں نا عورت مارچ کے حق میں ہوں مجھے اعتراض اس بات پر ہے جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ خلیل الرحمن نے اسلام کو پرموٹ کیا ہے اسلام تو اس طرح کی زبان استعمال کرنا جائز نہیں اور سیدھی اور صاف بات ہے خلیل الرحمن صاحب کا جس دنیا سے تعلق ہے وہاں تو آئے دن ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں جو عورت مارچ کے حق میں بھی ہیں اور جسم فروشی کے حق میں بھی ہیں اور خلیل الرحمٰن سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ وہ خود ان اور ان جیسی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں انسان کو اتنا بولنا چاہیے جتنا وہ خود عمل کرتا ہوں وہ صرف اپنے ڈرامے میرے پاس تم ہو کی پرموشن کر رہے ہیں ان کے دماغ پر ابھی تک ڈرامہ سوار ہے یہ کونسی اخلاقیات ہے کہ آپ لائیو شو میں بیٹھے ایک عورت کو گالیاں دے رہے ہیں وہ جیسی بھی ہے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن ایک مرد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح عورت کو ذلیل کرے بات وضاحت اور دلیل کے ساتھ کی جاتی ہے اور جہاں پر گالی استعمال کیجانے لگے تو سمجھے وہ انسان جھوٹا ہے ہمارا اسلام یہ نہیں سکھاتا اپنے مقصد کے لیے اسلام کا نام استعمال کرنا سب سے غلط بات ہے ہم اپنے مذہب کا مذاق خود بناتے ہیں اصل بات تو یہ کہ ہم اسلام کو سمجھ نہیں سکے اور کچھ خلیل رحمان جیسے دانشور اور ماروی سرمد نے تو بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے اس لئے میری ان سب صارفین سے درخواست ہے کہ اس کو اسلامی رنگ مت دے خلیل الرحمن نے کوئی اسلامی بات نہیں کی کسی حوالے سے بھی نہیں کیوں کہ اسلام کی بات جس طریقے سے وہ اپنی گندی زبان سے کر رہے ہیں نہ اسلام میں وہ جائز نہیں اگر اسلامی باتیں گالیوں سے پھیلتی تو پتا نہیں آج ہمارا اسلام پوری دنیا میں پھیل چکا ہوتا جسے ہم پاکستانی گالیاں نکالتے ہیں کیونکہ گالیاں دینا اسلامی تہذیب میں شامل ہی نہیں نہ یہ اسلام کا کبھی حصہ رہا ہے اس لئے اسلام کو استعمال کرنا چھوڑ دیں مولویوں کی طرح جو بچے سے زیادتی تو کرتے ہیں لیکن شام کو عشاء کی نماز پڑھنے لگتے ہیں خلیل الرحمن کی مثال بھی مولویوں کی طرح ہے جو سب کچھ خود کرتے ہیں لیکن خطبے میں کہتے ہیں بچوں سے زیادتی کرنا گناہ ہے اور صبح وہی کاروائی ڈال کے بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ خلیل الرحمن کا تعلق جس انڈسٹری سے ہے وہاں پہ عورتوں کا کیا حال ہوتا ہے یہ ایک ڈائریکٹر پروڈیوسر سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور خلیل الرحمٰن تو اس دنیا کے بہت بڑے اور پرانے کھلاڑی ہیں اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ سے گالیاں نکال کر عورت کو ذلیل کر کے خود کو نیک ثابت نہ کریں کیونکہ ہمارا اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا اور پلیز بیوقوفوں کی طرح بغیر اپنے دین کو جانے خلیل الرحمن کو خراج تحسین دینا بند کر دیں اپنے اسلام کو سمجھیں سرچ کرے ہمارا دین بہت سیدھا سادہ اور بہت آزاد خیال ہے اور عورت کا سب سے زیادہ آزادی حاصل ہے اسلام میں جس مذہب کی طرف خلیل رحمان آپ کو لے کے جا رہے وہ ہمارے اسلام کا حصہ نہیں ہے نہ کبھی ہو سکتا ہے ان کے شو کو گالیاں سن کے ریٹنگ مل گئی لیکن آپ لوگوں کو کیا مل رہا ہے جو اسلام کے نام پر غلط بات کو پرموٹ کر رہے ہیں اور خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کمال ہے اسلام امن کا دین ہے دہشتگردی کا دین نہیں ہے اس لیے اسلامی لحاظ سے کسی بھی بات کو پرموٹ کرنے سے پہلے اچھی طرح سرچ کریں کہ وہ بات حق ہے کہ نہیں گالیوں کی زبان کو اسلام سے جوڑ کو پروموٹ کرتے جا رہے ہیں حد ہے ہمارے پاکستانی مردوں پہ عورتوں پے جو اس کو پرموٹ کر رہے ہہیں اسلام بہت پیارا دین ہیں بہت آسان اور سب سے بہترین دین ہے اس کا یو مذاق مت بنائیں سوشل میڈیا پوری دنیا استعمال کرتی ہے اس لئے اسلام کو مس یوز کرنا چھوڑ دیں ہم خود ہی اپنے دین کا پوری دنیا کے سامنے مذاق بنا رہے ہیں خلیل الرحمٰن جیسے آدمی اور ماروی سرمد جیسی عورتوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہماری آنے والی نسل تباہی کا شکار ہو جائیں گی کیونکہ ہم خود ہی اپنے مذہب کو برباد اور خراب کرتے جا رہے ہیں اسی طرح چلتا رہا تو پھر ہماری آنے والی نسلوں میں اسلام نہیں پہنچ سکے گا پھر اسی طرح خلیل رحمان جیسے مولوی بن کے بیٹھے ہوں گے ہمارے سامنے جو ہمیں گالیوں کے ساتھ دین سمجھائیں گے جو معاشی اور اخلاقیات کے لحاظ سے بھی درست نہیں ذرا سوچئے۔
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.