ہندستان کا سپریم کورٹ قومی
زندگی سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے خاصا سرگرم ہے۔ اس کے بعض حالیہ احکامات
اور اقدامات سے ایوان اقتدار میں زلزلہ سا آگیا ہے۔ بہت سے سفید پوش جیلوں
میں پہنچ گئے ہیں۔ بعض دوسروں کی باری بھی جلدی ہی آتی دکھائی دیتی
ہے۔دریںاثنا لوک پال بل کے لئے ماحول اس قدر گرم ہوگیا ہے کہ اس کو اب مزید
مؤخر رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔اپوزیشن کی سیاسی مہم کا اثر زائل کرنے اور عوام
میں سرخروئی حاصل کرنے کے لئے بھی حکومت 1977 سے زیر التوا اس قانون کو جلد
از جلد لانا چاہے گی۔ ماحول کی اس گرمی کے لئے اگرچہ نام انا ہزارے کا لیا
جا رہا ہے ، لیکن درحقیقت اس گرمی میں سپریم کورٹ کے بعض اقدامات نے ہی
بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
عدالت عالیہ نے سیاسی بدعنوانی پر شکنجہ کسنے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے
ہیں۔ گجرات کے واقعات کی نگرانی اور جانچ کا جو عمل سپریم کورٹ کی مداخلت
پر شروع ہوا ہے ،اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سیاسی بدعنوانی
اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ” منہ بھرائی کسی کی نہیں، انصاف سب کے لئے “ کا
نعرہ لگانے والے اقلیتی فرقہ کے خو ن کی ہولی کے محافظ بن گئے۔ تاکہ اقلیتی
افراد کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزادی جاسکے اور ایک فرقہ کے چند حیوان
صفت لوگوں کو اپنے جذبات ٹھنڈا کرنے کا موقع مل جائے۔ ان کے لئے نہ توآئین
سے وفاداری کے حلف کی کوئی اہمیت رہی اور نہ اپنی قانونی ذمہ داری کی کوئی
شرم رہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آج قوم کو یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ ایسے
ہٹلر صفت قانون شکن کو اپنا مثالی کردار تصور کریں۔ کسی ایسی ہستی کی طرف
یہ مشورہ اور بھی افسوسناک ہے جو خود گاندھی وادی ہونے کا دم بھرتا ہو۔
ان دونوں طرح کی بدعنوانیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے اقدامات کے کچھ نہ کچھ
اثرات نظر آرہے ہیں۔ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ
کیا بدعنوانی، رشوت ستانی اور قانون کی پامالی کا خاتمہ کوئی اور سخت قانون
بنا دئے جانے سے ممکن ہے؟ اس سوال کا کوئی مثبت جواب ہمارے لئے ممکن نہیں۔
ہندستان کو کوئی قانون اس طرح کی بدعنوانی اور بد اعمالی کی اجازت نہیں
دیتا۔ لہٰذا مزید قانون مسئلہ کا حل حتمی نہیں۔اہم نکتہ یہ ہے کہ قانون
نافذ کرنے والے ہاتھ کتنے مستعد اور ایماندار ہیں۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ
سنگین جرائم کے لئے بنائے گئے سخت قوانین ملک اور قو م کے لئے کتنی بڑی
زحمت بن جاتے ہیں، یہ ہم ٹاڈا اور پوٹا کے نفاذ کے معاملات میں دیکھ چکے
ہیں۔ان قوانین کا استعمال اگر واقعی مجرموں کے لئے کیا جاتا تو یہ مفید
ہوتے، مگر ان کے نفاذ میں جس طرح تعصب برتا گیا اور جس طرح بلاجواز عمداً
اقلیتی فرقہ کے افراد کے خلاف ان کا بے محابا استعمال کیا گیا اس کی بدولت
ان کو بجا طور پر ’وحشی‘ اور ’ظالمانہ ‘ قانون (Draconian Law) کہا جانا حق
بجانب ہوا۔قانون کی اہمیت اپنی جگہ ، مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے اس کو
نافذ کرنے والے ہاتھ کون سے ہیں؟
یہی صورتحال پاکستان میں ’توہین رسالت ‘ قانون کی ہے۔ اس قانون میں بنیادی
طور سے غلط کچھ بھی نہیں ہے البتہ پولیس تھانے میں جو افسر شکایت ملنے پر
اس قانون کے تحت کاروائی کرتا ہے اس کی بد نیتی قانون کو بدنام کررہی
ہے۔رشوت خور پولیس افسر کے لئے اس طرح کی شکایت اکتساب زر کا بہترین ہتھیار
بن جاتی ہے۔مثلاً ایک تاجر کو محض اس لئے پولیس نے دھمکایا کہ اس نے اپنی
دوکان کے سائن بورڈ پر ایک جلسہ کا پوسٹر چپکانے سے روک دیا تھا۔ پوسٹر
کیونکہ سیرت کے جلسہ کا تھا اس لئے اس روکے جانے کو توہین رسالت قرار دیدیا
گیا۔
جب تک نفاذ قانون کے ضوابط میں اصلاح نہ کی جائے اور بے قصوروں کو بلا جواز
پھنسانے والوں کو قرار واقعی سزا کا نظام نہ ہو اس وقت تک سخت قوانین کا بن
جانا مسئلہ کا شافی حل نہیں ہیں۔آج جو صورتحال ہے اس کی بڑی اچھی تصویر کشی
شوکت تھانوی نے ایک مقطہ میں کردی ہے جس کی دو لائن کچھ اس طرح ہیں:
’حاکم رشوت ستاں ، فکر گرفتاری نہ کر‘
’لیکے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا‘
آج اس برصغیر میں یہی ہو رہا ہے۔چنانچہ خود دہلی میں ایسے کیس سامنے آئے
ہیں جب پولیس کے انسداد بدعنوانی عملہ کے افسران رقم اینٹھتے ہوئے پکڑے گئے
ہیں۔اس شعبہ میں اختیار بڑا ہے اس لئے رقم بھی بڑی لی جاسکتی ہے۔ رشوت خوری
کے اس سیلاب کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہندستانی معاشرے میں رشوت لینا
دینا،نظام کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے اور اس کو عیب تصور کرنے کا رجحان معدوم
ہورہا ہے۔اب بدعنوان کو عزت کا مقام حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
ایک ایسا نوجوان جس کی تننحواہ بھلے ہی کم ہو مگر بالائی آمدنی کے امکانات
زیادہ ہوں،اس کے مقابلے میں جس کی تنخواہ چاہے زیادہ ہو مگر بالائی آمدنی
نہ ہو، داماد بنائے جانے کا زیادہ اہل سمجھا جاتا ۔بعض علاقوں میں باقاعدہ
اس نقطہ نظر سے لڑکوں کی زمرہ بندی ہوتی ہے۔ دولت کی چاہ اور دکھاوے کے
موذی مرض سے سادھو اور سنت بھی جو دنیا کو سادہ جیون اور ایمانداری کی
تلقین کرتے نہیں تھکتے، بچے ہوئے نہیں ہیں۔خیر خیرات کی تلقین میں فکر اپنے
خزانہ بھرنے کی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کے آشرموں میں سامان تعیش کی ریل پیل
عام بات ہوگئی ہے۔ ان کی دولت کا شمار اربوں کھربوں روپیہ میں ہونے لگا ہے۔
حالانکہ یہ صورتحال ہمارے ملک کی قدیم اقدار سے سراسر منافی ہیں۔ سادھو سنت
اور صوفی فقیر دولت دنیا سے دور بھاگتے تھے اور کٹیا میں زندگی گزارنے کو
پسند کرتے تھے۔ جب سادھو سنتوں اور باباﺅں کا حال بدل گیا ہے تو عوام کیسے
بچے رہیں گے؟
یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ عوام سے خواص تک، دنیادار سے آشرم کے سردار
تک ہر شخص کے فکر و ذہن پر مادیت وصارفیت نے قبضہ کرلیا ہے۔ پرانے زمانے کی
اخلاقی قدریں اب فرسودہ خیال کی جانے لگی ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں اگرچہ
قدیم رسم و رواج کو قانون کا درجہ دئے جانے کی گنجائش ہے، مگر بعض اخلاقی
قدروں کی پامالی کے معاملہ میں قانون ساز اداروں نے ان قدروں کا لحاظ نہیں
رکھا ہے۔ بدقسمتی سے عدالتیں بھی کئی اہم معاملات میں رواجی قانون کوق بول
نہیں کرتیں۔اس رویہ کے بڑی پیچیدہ اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔
مثلاً مغربی فلسفہ قانون کے تحت ’ہم جنس پرستی‘ اور بغیر شادی ساتھ رہنے کو
عدلیہ نے قانونی جواز عطا کردیا ہے حالانکہ یہ روش صریحاً ہندستانیوں کی
عمومی روش اور نظام اقدار کی کھلی پامالی ہے۔ اس طرح کے بیہودہ رجحانات کی
بدولت مغربی ممالک سے خاندانی نظام ختم ہورہا ہے۔ شوہر اور بیوی باہم
اعتماد کی زندگی گزارنے کے بجائے ہمہ وقت بے اعتمادی کی فضا میں جینے پر
مجبور ہیں۔عصمت و عفت کا تصور سرے سے ختم ہوگیا ہے اور عورت و مرد کو آزاد
کردیا گیا کہ جس طرح چاہیں، جس کے ساتھ جنسی آسودگی حاصل کرلیں۔ اعتراض کا
مطلب ہے ’دقیانوسی‘، ’حقوق نسواں کا مخالف‘ اور ’فرد کی آزادی کا دشمن‘۔
چنانچہ مغرب میں بغیر باپ کے پرورش پانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ
ہورہا ہے۔ایک عورت بغیر جھینپے یہ اعلان کردیتی ہے اس کے فلاں بچے کا
’بائلوجیکل فادر‘ فلاں شخص ہے اور اس کے بچے کا فلاں ۔لیکن اس حیائی اور بے
حجابی کے ان مناظر کے باوجود افسوس کہ قانون سازوں اور ہماری عدالتوں کو اس
طرح کی بے راہ روی اور معاشرتی تباہی منظور ہے مگر ہندستانی اقدار کو
قانونی جواز عطا کرنا منظور نہیں۔
ایسی صورت میں جو لوگ اپنی قدیم قدروں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، اپنے بچوں
کو جنسی ہوس رانی اور بے راہ روی سے بچانا چاہتے ہیںاور رشتہ ازدواج کے
صدیوں سے آزمائے ہوئے ضابطوں پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، ان کو مغربی فکر کے
حاملین اور صارفیت پسند ذہنوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور مذمت کا سامنا ہے۔
کھاپ پنچائتوں ضمن میں مخالفانہ پروپگنڈا اس کی ایک مثال ہے۔ میں خود یوپی
کے جس دیہی خطے میں پیدا ہوا ، پلا بڑھا اس میں اس طرح کی پنچائتیں عام
ہیں۔ آپس میں پیدا ہونے والے تنازعات ان پنچایتوں میں بخیر خوبی حل کرلئے
جاتے ہیں۔ لوگ لاٹھی ڈنڈے کے ڈر سے نہیں بلکہ لوک لاج کی بدولت ان کے
فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ان پنچائتوں نے کئی ایسے فیصلے نافذ کئے ہیں جو
انتہائی قابل تعریف ہیں۔ مثلاً بعض برادیوںمیں براتیوں کی تعداد کی حد بندی
کردی گئی ہے اور جہیز کی نمائش پر روک لگا دی گئی ہے۔ غیر مسلموں میں
شادیوں میں پہلے شراب کا چلن عام تھا ،جو اب سختی سے روک دیا گیا ہے۔ حال
ہی میں ایسی خبریں بھی ملی ہیں کہ بعض پنچائتوں نے بچوں کو اسکولوں میں
داخل کرانے کی مہم چلائی ہے۔
ہاں بعض واقعات زیادتیوں کے بھی ہوئے ہیں۔ مگر زیادتیاں عام نہیں محض اتفاق
ہیں۔ ان اتفاقات کو سمجھنے کے لئے ملک کے مجموعی منظر نامے پر نظر ڈالنے کی
ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مشکوک کردار
اور جرائم میں ملوث افراد کی تعداد خاصی بڑھی ہے۔ عدالتوں کے احاطوں میں
بھی ایسے افراد نظر آنے لگے ہیں، جو قانون سے کم، بدعنوانی سے زیادہ کام
نکالنے کے طریقے پر عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح جرائم پسند ذہنیت سے اب دیہاتی
معاشرہ بھی پاک نہیں رہا ہے۔ چنانچہ بسا اوقات ایسی ہی ذہنیت کے لوگ ان
پنچائتوں کی کاروائی کو اچک لیتے ہیں۔ کبھی کوئی زورآور (باہو بلی) اپنی
ذاتی رنجش نکالنے کےلئے بھی فتنہ پروری کرتا ہے۔
بیاہ شادی کے معاملوں میں ان پنچائتوں میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا
رجحان یقیناً تشویشناک ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں نے
جنسی رشتوں کی ضمن میں فاسد مغربی فلسفہ قانون کے نفاذ اور صدیوں سے جاری
علاقائی، عائلی، رسمی قوانین کی پامالی کا جو رویہ اختیار کیا ہے، اس کی
وجہ سے اس طرح کے معاملات میں عدالتوں کا رول قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔
ایسے معاملہ میں قدیم اقدار کے پاسداروں کو کیونکہ قانون کی مدد نہیں ملتی
ہے، اس لئے وہ پولیس اور عدالت کی طرف رخ نہیں کرتے اور بقول سپریم کورٹ
قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔اب یہ کیسے کہا جائے کہ قصور کس کا
ہے؟ان کا معاشرتی اقدار کا احترام کرتے ہیں یا انکا جو جبراً معاشرے پر
فاسد مغربی اقدار کو لاد دینا چاہتے ہیں؟
عدالتیں بالا دست ضرور ہیں مگر یہ سوال اپنی جگہ اہم کہ سماجی اقدارکی
تبدیلی کا حق کس کو حاصل ہے؟ عدالت کے پیش نظر جو اصلاحات ہیں ان کی اہمیت
سے انکار نہیں۔ مگران میں عجلت اور زور زبردستی سے پیچیدگی بڑھ رہی ہے۔
تعلیم کے فروغ کے ساتھ ماحول خود بدل رہا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں شادیوں
کے معاملے میں برادریوں کے بندھن ٹوٹنے لگے ہیں۔ اس کےلئے کسی مصنوعی کوشش
سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔عوام کی سوچ بدلتے بدلتے بدلے گی۔ عدالتی احکامات
سے ایک دم نہیں بدلے گی۔ (ختم)
(مضمون نگار فورم فار سِوِل رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |