آج کل کے دور میں استاد کو نوکر سمجھا جارہا ہے استاد کے
ساتھ آجکل کوئی بھی اچھے طریقے سے پیش نہیں آتا نہ کہ سٹوڈنٹ اور نہ ہی
ہیڈماسٹر وہ استاد کو صرف ملازمہ سمجھتے ہیں استاد کے بغیر کسی قوم کا کوئی
مستقبل نہیں ہے۔استاد کا مقام ومرتبہ:دلائل کی روشنی میں قارئین! استاد کو
ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے.استاد کی اہمیت اور ان کا
مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار
سازی میں معاون مددگار ثابت ہوتا ہے.استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی
سنوارتا ہے جیسے ایک سونار دھات کے ٹکڑے کو سنوارتا ہے.استاد علم کے حصول
کا برائے راست ایک ذریعہ ہے اسلئے انکی تکریم اور ان کے احترام کا حکم دیا
گیا ہے.استاد کا احترام اسلامی نقطہ نظر سے دو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل
ہے:۔
1۔ ایک تو وہ منبعہ علم ہونے کے ناطے ہمارے روحانی باپ ہوا کرتے ہیں.ہماری
اخلاقی اور روحانی اصلاح وفلاح کے لئے اپنی زندگی صرف کرتیہیں ۔
2۔ دوسرا یہ کہ وہ عموما طلبہ سے بڑے ہوتے ہیں اور مذہب اسلام اپنے سے بڑوں
کے احترام کا حکم بھی دیتا ہے.ارشاد نبوی ہے"من لم یرحم صغیرنا ومن لم یوقر
کبیرنا فلیس منا"
قارئین! اب ان دلائل کا بھی تذکرہ کئے دیتے ہیں جن میں استاد کی تکریم اور
ادب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے:۔
1۔ اسلامی تعلیم میں استاد کی تکریم کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ کہنا"انما بعثت معلما"کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا
ہے اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ استاد کا مقام ومرتبہ نہایت بلند
وبالا ہے.
2۔ آپ جانتے ہیں کہ جبرئیل امین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے زانوئے
تلمذ طے کر کے آنے والے طلبہ اور اسٹوڈینٹ کو یہ تعلیم دے دی کہ انہیں
استاد کے سامنے کیسے بیٹھنا چاہئے،صحابہ کرام نبی کے سامنے ایسے بیٹھتے
معلوم ہوتا کہ انکے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں.یہ حدیث بھی استاد کے
مقام ومرتبہ کے اوپر ایک شاندار دلیل ہے .
3۔ اللہ تعالی نے "ویعلمھم الکتاب والحکمۃ" کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی شان بحیثیت معلم بیان کرکے استاد کے مقام ومرتبہ میں چار چاند لگا دیا
ہے.
قارئین! اب ہم آپکے سامنے ملت اسلامیہ کی قابل قدر،قد آور شخصیات کا ذکر
کئے دیتے ہیں جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب واحترام کی درخشندہ مثالیں کیں
جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں:۔
1۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی
باوقار ہوا کرتی تھی.تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا
ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو.
2۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے
لئے خچر لایا گیا تو عبداللہ بن عباس آگے بڑھ کر رکاب تھام لی.تو اس پر زید
بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں.اس پر ابن عباس نے جواب
دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے.
3۔ ہارون رشید کے دربار میں جب کوء عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس
کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے .اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے
بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب
دیا یقیناًوہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے.آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم
سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے.
استاد کی تکریم اور ان کے مقام ومرتبہ کے تعلق سے قرآن وحدیث اور اقوال سلف
کو بیان کرنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ استاد کی تکریم اور ان کا ادب
واحترام ایک طالب علم کیسے کرے اسکو بھی آپکے گوش گزار کردوں.مولانا قاری
صدیق احمد رحمہ اللہ بانی جامعہ ہتھوڑا باندہ یوپی اپنی کتاب"آداب
المتعلمین" کے اندر استاد کے ادب کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
& ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کے ادب واحترام کو اپنے اوپر لازم
سمجھے،استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے انکی باتوں کو بغور سماعت
فرمائیں.
& اپنے استاد کو برا بھلا نہ کہیں،ورنہ تمہارے تلامذہ بھی تمہیں برا بھلا
کہیں گے.
& استاد کو کبھی ناراض نہ ہونے دیں،اگر انکی شان میں کوء بے ادبی ہوجائے تو
فورا انتہاء عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لیں.
ان تمام دلائل وبراہیں اور اور اقوال سلف سے معلوم ہوا کہ استاد کی عزت اور
ان کا مقام ومرتبہ امر مسلم ہے جس کا انکار کوئی بھی فرد وبشر نہیں کر
سکتا.لہذا ہم سبھوں پر واجب ہے کہ ہم اپنے استاد کی عزت کریں انکے ساتھ حسن
سلوک سے پیش آئیں تبھی جا کر ہم ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے امام بن سکتے
ہیں.
محمد ندیم عباسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمال پور |