بلہے شاہ کا کہنا ہے کہ ’’نہ کر بندیا میری میری، نہ تیری
نہ میری۔ چار دناں دا میلا بندیا ، فیر مٹی دی ٹیری۔‘‘لیکن میری میری کے
چکر میں ہر شخص غلاظت کے چھینٹوں میں اپنے حصے کے چھینٹے سمیٹنے کے چکر میں
ہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑنا بہتر ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل رحم
ہیں۔ ان کی ساری باتیں معاشرے میں اخلاقی تنزلی کی دلیل ہیں۔ میں تو اتنا
جانتا ہوں کہ جو بات آپ اپنی ماں بہن اور بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے اور
جو بات اسے کہنا اور اس سے سننا پسند نہیں کرتے وہ کسی دوسرے کو بھی نہ تو
کہتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں۔جس میں حیا نہیں وہ عورت یا مرد نہیں کچھ اور
ہے اور جس شخص کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں اس کی تربیت میں کچھ کمی ہے۔ ہم
جو کہتے اور کرتے ہیں وہ ہمارے خاندانی پس منظر کا عکاس ہوتا ہے۔لفظوں کا
غلط چناؤ آپ کی ساری حقیقت آشکار کر دیتا ہے۔جو شخص جس کی حمایت کرتا ہے اس
جیسا انداز آئندہ کچھ دن اپنے گھر میں اپنا کر دیکھے اگر وہ انسان ہے مہذب
ہے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ سب غلط ہے، سب غلاظت ہے، سب باعث شرم
ہے۔اچھی خاندانی روایات اس طرز عمل کی اجازت نہیں دیتیں۔
اخلاقی تنزلی کی بات چلی تو سوچتا ہوں کہ انسان کس کس بات پہ ماتم کرے۔ وہ
طبقہ جسے اخلاق کی بہترین مثال ہونا چائیے، اس کے بارے بھی ایسی باتیں منظر
عام پر آ رہی ہیں کہ شرم آتی ہے۔ ایک استاد ، اسلامی معاشرے کاہمارا استاد
ایسا نہیں کہ اس حد تک گر جائے۔ یہ ہمارے نظام کا قصور ہے کہ ایسے گھٹیا
لوگ استاد بن جاتے ہیں کہ جو استاد کے مرتبے کو قابل ہی نہیں ہوتے۔سچی بات
یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں استاد ناپید ہو چکے ہیں۔ اورجو استاد کے روپ میں
موجود ہیں وہ زیادہ تر استاد نہیں۔ کاش یہ بات حکمرانوں کو سمجھ آجائے۔ مگر
وہاں بھی وہ فہم و فراست کہیں نظر نہیں آتی۔ چند دن پہلے بہاوٗالدین
یونیورسٹی ملتان کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ایک بچی نے پولیس میں رپورٹ کی کہ
یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور اس کے پانچ ساتھیوں نے اس کے ساتھ جنسی
زیادتی کی اور اس کی برہنہ تصاویر بھی اتاریں اور فلمیں بھی بنائیں۔پولیس
نے رپورٹ درج کر کے پروفیسر اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ایک
پروفیسر پہ یہ الزام افسوسناک ہی نہیں انتہائی شرمناک بھی ہے۔ لیکن ایسے
بھیڑیے بھی استاد کہلاتے ہیں۔
ابھی ملتان یونیورسٹی کے واقعے کی دھول بھی پوری طرح بیٹھی نہیں تھی کہ
گومل یونیورسٹی سے یکے با دیگرے دو شرمناک اطلاعات منظرعام پر آ گئیں۔چین
کی ایک طالبہ ،جو گومل یونیورسٹی میں انگریزی میں ایم فل کر رہی تھی ،نے
اعلیٰ حکام اور حکومت کو درخواست دی کہ شعبہ انگریزی کے ایک سینئر پروفیسر
نے اسے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔اس کیس کی انکوائری ایک تین رکنی کمیٹی
نے کی اور اس واقعے میں کچھ لوگ واقعی ملوث پائے گئے جس کے نتیجے میں ٹیچنگ
اور نان ٹیچنگ سٹاف کے کل چار لوگوں کے خلاف کاروائی کی گئی ۔ ایسے واقعات
میں ملوث لوگوں کے خلاف انکوائروں کے نتیجے میں عام طور پر زیادہ سے زیادہ
سزا نوکری سے برطرفی ہے جوسزا نہیں ایک رعایت ہے ۔ ایسے لوگ کسی کڑی سزا کے
حقدار ہونے چائیے۔
گومل یونیورسٹی کے تازہ ترین واقعے میں ایک ٹی وی چینل نے کچھ بچیوں کی
شکایت پر باقاعدہ انکوائری کی اور تمام ثبوتوں کے ساتھ کسی عام ٹیچر کو
نہیں بلکہ ڈین فیکلٹی آف اسلامیات، گریڈ اکیس کے اسلامیات کے سینئر ترین
پروفیسر کو بے نقاب کیا۔ ثبوت سامنے آنے اور پولیس کے گرفتار کرنے پر
پروفیسر نے تین گھنٹے کی تفتیش میں ہر جرم کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ اپنے
تمام جرائم فر فر بیان کر دئیے۔اسلامیات کے شعبے کے یہ استاد جو باریش بھی
ہیں اور بظاہر پابند صوم و صلوۃ بھی، نے بتایا کہ وہ گذشتہ دس سال سے یہ
کام کر رہے ہیں اور اتنی زیادہ بچیوں سے انہوں نے زیادتی کی ہے کہ اب انہیں
ان کی تعداد بھی یاد نہیں۔اس نے بتایا کہ عام طور پر بچیوں کو فیل کرنے کی
دھمکی دے کر، فیل کرکے یا نمبر بڑھانے کا لالچ دے کر قابو کر لیتااور اپنے
مکروہ ارادوں کی تکمیل کرتا۔انتہائی افسوسناک بات ، اس شخص نے یہ بھی تسلیم
کیا کہ جامعہ کے بہت سے اعلیٰ عہدیداروں اس کے شریک تھے اور قابو کی ہوئی
طالبات کو وہ ان کے پاس بھی بھیجتا تھا ۔اسی لئے اس کے خلاف آنے والی ہر
شکایت دبا دی جاتی تھی اور خصوصی عنایت یہ تھی کہ یونیورسٹی کے تین اہم
عہدے اس کے پاس تھے۔ایک استاد ہونے کے ناطے یہ سب لکھنا بھی بڑا تکلیف دہ
ہے مگر ایسے لوگ بے نقاب کرنا بھی کار ثواب ہے۔
اصل میں یونیورسٹیوں میں وہ وائس چانسلر نہیں رہے جو فہم و فراست سے مالا
مال ہوتے اور جن کی یونیورسٹی ہر صورتحال پر نظر ہوتی تھی۔ اب تو کچھ ہو
جائے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ہر یونیورسٹی میں ایسے گھٹیا لوگ موجود ہیں مگر
وائس چانسلر اپنے حال میں مگن۔ انہیں نہ اکیڈمک سے غرض ہے اور نہ ہی
اخلاقیات سے۔ ڈین یا ہیڈ لگانے سے بیشتر اس شخص کے بارے پوری معلومات جاننے
کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ دو دن پہلے میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے ایک نیک
صفت ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے پاس بیٹھا تھا ۔ وہ پریشان تھے کی ان کا بیٹا ان
دنوں جس ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے اس کا قائم مقام چیرمین اپنے کمرے میں
خوب سگریٹ پیتا ہے ۔ کئی دفعہ اس کی دعوت پر کچھ لڑکیاں بھی سگریٹ پی رہی
ہوتی ہیں ۔ لڑکیوں کی موجودگی میں وہ کنڈی لگا کر سگریٹ نوشی اور انجوائے
کرتا ہے اور بعد میں لڑکیوں کے جانے کے بعد اگر بتیاں جلا کر کمرے سے سگریٹ
کی بو کو ختم کیا جاتاہے۔ سب کو پتہ ہے سوائے وائس چانسلر کے ۔بچے اس کے
عمل سے کیا سبق حاصل کریں گے۔میں نے ہنس کر کہا، آپ اور میں چپ بھی رہے تو
کوئی بات نہیں ایسے لوگوں کو فطرت معاف نہیں کرتی ۔ جلد ہی کوئی ٹی وی چینل
اس قائم مقام چیرمین کے کار ہائے نمایاں دنیا کو دکھا رہا ہو گا۔
|