حرّیت کیاہے؟ کلامِ اقبال ؒکی روشنی میں ِ حرّیت اور جذبہء حریت کی وضاحت۔۔۔۔۔۔قسط اول
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
|
حرّیت کیاہے؟ کلامِ اقبال ؒکی روشنی میں ِ حرّیت اور جذبہء حریت کی وضاحت افضل رضوی۔آسٹریلیا ]یہ مقالہ دوحہ قطر میں یومِ اقبال ؒ کے موقع پر منعقدہ کانفرنس میں پیش کیا گیا[ خواتین و حضرات! ہمارا آج کا اصل موضوع علامہ اقبال ؒ کا پیغامِ حریت ہے؛لیکن اس سے پہلے کہ ہم علامہ محمد اقبال کے پیغام حریت پر اپنی گفتگو کا آغاز کریں بہتر یہ ہے کہ لفظ حریت کا مادہ،اس کے معنی اور مفہوم سے اچھی طرح آشنائی حاصل کر لی جائے کیونکہ کسی بھی نظریے یا پیغام پر اظہار خیال سے پہلے اس کی وجہ تسمیہ اور پس منظر کا جاننا از حد ضروری ہے۔ مادہ: حریت عربی اسم مؤنث ہے اوراس کا مادہ حُرّ (حرر) بمطابق عبرانی حور(Hor) بمطابق آرامی حر](Her)حروطا(Heruta)[ ہے۔ کیفیت: حریت کی کیفیت لاحقہ کی ہے یعنی حُرِّ+یَت۔ معنی و مفہوم: لفظ حریت کے معنی مختلف لغات میں قدرے مختلف لیکن ایک دوسرے سے منطبق ملتے ہیں۔مثلاً:آزادی1،آزادگی اور آزاد ہونا2،کسی کا غلام نہ ہونا3، غلامی کے بعد آزادی4، خالص ہونا5،خود مختاری،رہائی،عدم پابندی6،نرم اور ریتلی زمین،عرب کے شریف لوگ7،محکومی اور غلامی کی ضد8،شرافت نیز حاکمیت میں آزادی9۔ صاحبِ لسان و تاج العروس نے لکھا ہے کہ حریت کا مادہ حُر ہے اور یہ عبد کا نقیض ہے یعنی وہ شخص جو کسی کا غلام نہ ہو،لفظ حُر شریف کے معنوں میں بھی آتا ہے۔نیز ہر شے کا بہترین حصہ کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ اصطلاحی مفہوم: حریت تصوف کی اصطلاح بھی ہے۔صوفیوں کے نزدیک خدا اور اس کی بندگی کے سوا ہر چیز سے چھٹکارا پانا حریت ہے10۔یعنی سالک کا قیودِاغیار سے آزاد ہونا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حریت نام ہے اس آزادی کا جو بندہئ مومن رکھتا ہے۔السراج11کی کتاب اللُّمع اور القشیری12کے الرسالہ میں حریت کا ذکر جادہئ تصوف میں نشان راہ کے طور پر ملتا ہے۔چنانچہ قشیری کے رسالہ کے طفیل اس اصطلاح کو کتب تصوف میں ایک مستقل مقام ملا۔ حریت کی قسمیں: نمبر۱: اما راغب 13نے حریت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ 1۔کسی کا غلام نہ ہونا، جیسے قرآن مجید میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۔۔۔۔﴿البقرة: 178﴾ ”اے ایمان والو! فرض ہوا تم پر(قصاص) برابری کرنا مقتولوں میں،آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔“ نمبر2:صفاتِ ذمیمہ،یعنی حرص اور دنیاوی مال و متاع کے لالچ سے آزاد ہونا اور اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کردینا،چنانچہ قرآن مجید میں حضرت مریم کی والدہ کے قول کے طور پر آیا ہے: رَبّ ِ اِنِّی نَذَرتُ لَکَ مَا فِی بَطنِی مُحَرَّرًا ترجمہ: اے میرے رب! میں نے تیرے نذر کیا جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد رکھ کر۔ (آلِ عمران آیت نمبر3) اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں کو اطاعت ایزدی اور خدمت ایزدی کے لیے آزاد یا وقف کر دینا حریت ہے۔ شیخ سعدی 14نے لفظ تحریر اس لفظ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ہے۔کہتے ہیں کہ رسم است کہ مالکان تحریر آزاد کُندن بندہ پیر اس شعر میں تحریر کا معنی غلام کو آزاد کرنے کا حق یا اختیار ہے۔ احادیث میں بھی اس لفظ کا مفہوم موجود ہے اور کتب فقہ بھی اس کی صراحت کرتی ہیں۔مثلاً:دیتُ الحرّ یعنی آزاد شریف۔ اہل عرب جب کسی غلام کو آزاد کرتے تھے تو جو الفاظ ادا کرتے تھے وہ بخاری اور مسلم نے یوں نقل کیے ہیں۔ ھُوَحُر’‘ لِوَجہِ اللّٰہ ترجمہ: میں اسے اللہ کی رضا جوئی کے لیے آزاد کرتا ہوں۔15 امام محی الدین ابنِ عربی الاندلسی16کہتے ہیں کہ حریت کامل عبدیت کا نام ہے۔ پس ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ حریت اس رشتے کا نام ہے جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہے کہ وہ کامل طور پر اس کے محتاج ہیں۔ حریت کے موضوعات: حریت پر مندرجہ ذیل موضوعات کے تحت گفتگو کی جا سکتی ہے۔ الف۔عرب میں حریت کا مفہوم قبل از اسلام ب۔اسلام میں حریت کے معنی ج۔اسلام میں حریت کا تصور اور اس کی تمدنی اور عمرانی بنیاد د۔مغربی افکار کے زیر اثر اسلام کے آزاد اور غیر آزاد ممالک میں حریت کی تحریکیں ہ۔دور جدید میں حریت الف۔عرب میں حریت کا مفہوم قبل از اسلام: زمانہ قبل از اسلام میں عرب میں یہ اصطلاح نہ صرف عبد کی ضد کے معنی میں استعمال ہوتی تھی بلکہ اخلاقیات کی اصطلاح بھی تھی جس کے مصداق وہ افراد ہوتے تھے جو صفات ِ حمیدہ اور اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوتے تھے۔اخلاقی اعتبار سے مردِ حر کی برتری کی علامت اس کی مروّت،سخاوت اور اعلیٰ مقصد کے لیے جان فدا کرنا ہوتی تھی جس کے گُن نظم و نثر میں ہمیشہ گائے جاتے تھے۔یونانی کتابوں کے عربی تراجم نے مسلمانوں کو یونانی مفکروں کے بعض اقوال سے متعارف کرایا جو آزادی کے مسائل سے تعلق رکھتے تھے اس کے علاوہ الفارابی اور ابن سینا جیسے حکما کی نگارشات میں بطور سیاسی اصطلاح کے حریت کو محدود مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ ب۔اسلام میں حریت کے معنی: ظہور ِ اسلام کے وقت،دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی موجود تھی اور غلاموں کا درجہ آزاد انسانوں کے مقابلے میں نہ صرف کم تھا بکلہ ان کی حالت حیوانوں سے بھی بدتر تھی۔اسلام نے غلامی کو اس وقت کی ایک عا لمگیر،ناگریز عادت سمجھ کر، اس کا انسداد تدریجی طور پر،قانونی،اخلاقی،ترغیبی اور نفسیاتی انداز میں کیا ہے تا کہ اس قبیح رسم کا انسداد معاشرے کی روحانی امنگ بن جائے اور لوگ خود بخود اس سے نفرت کرنے لگیں اور رفتہ رفتہ یہ رسم خود بخود مٹ جائے۔چنانچہ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی حد تک یہ مٹ بھی گئی۔ د۔اسلام میں حریت کا تصور اور اس کی تمدنی اور عمرانی بنیاد: اسلام نے حریت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطابق آزادی کو انسان کا مقدس فطری حق تسلیم کیا گیا ہے۔سب سے پہلے نوعِ انسانی کے لیے بنیادی آزادی مذہب اور ضمیر کی آزادی ہے۔قرآن مجید کی رو سے لَآاِکرَاہَ فِی الدِّینِ ج ترجمہ: ”دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔“17 یہود و نصاریٰ کو مشترک عقائد پر اشتراکیت کی دعوت کی گئی18۔ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا 19۔ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں صرف صاحبِ اِستطاعت ذمیوں سے ایک مناسب و مقرررقم وصول کرنے کا حکم دیا گیا20۔اس طرح اسلام نے مذہبی آزادی کا اتنا اعلیٰ تصور عام کیا جس کی مثال آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں بھی نہیں ملتی۔اس کی بنیاد وحدتِ انسانی کے عقیدے پر رکھی گئی ہے جو ر ب العالمین کے تصور سے وابستہ ہے۔اس عام آزادی کے بعد اسلامی حکومتوں میں غیر مسلموں کے اشتراک کا حق عملاً ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا ثبوت منصبوں اور عہدوں میں یہود،ہنود،عیسائیوں اورمجوسیوں کی بکثرت شرکت سے ملتا ہے۔ د۔مغربی افکار کے زیرِاثر عالمِ اسلام کے آزاد اور غیر آزاد ممالک میں حریت کی تحریکیں: جب مغربی اقوام نے اسلامی ملکوں پر قبضہ کر لیا اور مغرب کی تحریکوں سے تصادم ہوا تو نئے خیالات کے ردّعمل کے ساتھ ساتھ قدیم اسلامی جمہوری تصورات کا احساس پھر پیدا ہوا۔بیرونی غالب اقوام سے چھٹکارا پانے کے لیے حریت کی نئی تحریکیں شروع ہوئیں اور آزاد ہونے کے بعد ان میں سے بیشتر میں حاکمیتِ عوام کا تصور بڑے زور سے ابھرا مگر مختلف اسلامی ممالک میں ایسی فکری و اصلاحی تحریکیں بھی اٹھیں جن میں حاکمیت الٰہیہ پر زور دیا گیا۔ ہ۔دورجدید میں حریت: اس کی رو سے آزادی کی دو اقسام ہیں: (۱)شہری آزادی،یعنی تمام مستبدانہ پابندیوں کا خاتمہ اور فطری و تمدنی حقوق کا حصول؛(۲)سیاسی آزادی،جس کی رُو سے ہر شہری کو اپنی حکومت منتخب کرنے اور اس میں بھر پور شرکت کرنے کا حق ہے۔امریکہ اور برطانیہ میں سیاسی آزادی کا مفہوم ہے آئینی حکومت، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی؛اشتراکی ممالک میں اس سے مراد معاشی مساوات ہے۔آزادی کا یہ جدید تصور بڑی حد تک انقلاب ِ فرانس کا مرہونِ منّت ہے جس کے منشور آزادی کے اہم تصورات انسان کی فطری آزادی،جملہ حقوق(حقِ ملکیت،جان ومال کے تحفظ کا حق وغیرہ)میں مساوات اور عوامی حکومت تھے لیکن رفتہ رفتہ مسخ ہوتے چلے گئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مصر،ترکی اور دیگر عرب ممالک کی طرح ہندوستان،ایران،افغانستان اور انڈونیشیا میں بھی حریت کی تحریکیں اٹھیں۔ہر جگہ ان کی نوعیت جدا رہی اور اب تک ان ممالک میں پھیلے ہوئے مقبول تصورات اپنی اپنی مخصوص نہج پر ہیں۔ہندوتان میں حریت کا خاص تصور تحریکِ خلافت کے ساتھ متشکل ہوا اور اس کے بڑے بڑے مفکرامام احمد رضا خان بریلوی،شبلی نعمانی،محمد علی،مولانا ظفر علی خاں،مولانا حسرت موہانی،مولانا ابوالکلام آزاد،سید سلیمان ندوی اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال تھے۔ حریت اقبال کے ہاں: علامہ اقبال کے ہاں حریت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ اقبال کے دور کو پیش نظر رکھا جائے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا دور 1877ء سے لے کر1938ء تک محیط ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب عالم اسلام کے حالات بالعموم اور برصغیر پاک وہند کے بالخصوص ناگفتہ بہ تھے۔اس دور میں مسلمانوں میں سب سے پہلے جس شخص نے مسلمانوں کو ان کے وجود کا احساس دلایا وہ بلاشبہ سر سید احمد خان تھے۔ان کے بعد جو نامور شخصیت مسلمانوں کی ترجمان بنی وہ حضرت علامہ ہی تھے۔اس زمانے میں برصغیر پاک و ہند کے طول و ارض میں کئی تحریکیں نے جنم لیا اور عالمی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مثلاً:1905ء میں تقسیمِ بنگال ہوئی جسے 1911ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ بنی اور 1909ء میں منٹو مارلے اصلاحات منظرِ عام پر آئیں۔ستمبر۱۱۹۱ء کو اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا۔1912ء میں جنگِ بلقان ہوئی جو 1913ء تک رہی ان جنگوں میں یورپین قوموں نے ترکوں اور عربوں پر مظالم ڈھائے۔اس سانحے سے اقبال متاثر ہوئے اور ان کے دل میں مسلم قوم کا درد پیدا ہوا۔ 1914ء میں جنگِ عظیم اول شروع ہوئی اور بالآخر 1918ء میں ختم ہو گئی۔1916ء میں میثاق ِ لکھنو ہوا۔1919ء میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہوا۔ پھرتحریک خلافت،ترکِ موالات،عدم تعاون کی تحریکیں چلیں اور 1930ء میں حکیم الامت نے اپنے خطبہ الہ آباد میں ایک الگ وطن کا تصور دیا جو دراصل ان کے پیغام حریت کی آخری شکل تھی۔ان کے کلام میں عظمتِ حریت اور مفاداتِ حریت کی وضاحت جابجا مل جاتی ہے۔حضرت علامہ کا نظریہ یہ ہے کہ مسلمان کو روزِازل سے جو عقائد اور اصول و ضوابط،جذبات و احساسات ِ مقدسہ عطاہوئے ہیں ان جذبات واحساسات کے پیشِ نظر آزادی اس کا فطری حق ہے اور یہ ایسا حق ہے جس سے وہ کسی طور دست بردار نہیں ہو سکتا۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان اور غلامی ایک دوسرے کی ضد ہیں جس طرح آگ اور پانی،نور اور ظلمت،رات اور دن،حق اور باطل،خیر اور شر،تقویٰ اور فسق،محبت اور نفرت،عُسرت اور عشرت،علمیت اور جاہلیت،توحید اور شرک،سچ اور جھوٹ،عدل اور ظلم،اخلاص اور نفاق،کافر اور مومن ایک نہیں ہو سکتے،بالکل اسی طرح مسلمان اور غلامی کا اجتماع ناممکن ہے اور وہ مومن جس نے کارزارِ حیات کے تمام خطرات و خدشات اور مصائب و حوادث سے بے نیاز و بے خوف رہ کر ایک آزاد شخصیت کاا مین ہونے کی وجہ سے خود کو خطرے میں ڈال کر عین اس وقت امانتِ الٰہی کو اٹھایا جس وقت کائنات کی دیگر اشیا تو درکنار آسمان و زمین اور پہاڑوں جیسی مہیب چیزوں نے بھی اسے اٹھانے سے انکار کر دیاتھا21۔چنانچہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مومن فطری طور پر ایسا منصب و مقام رکھتا ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی زندگی اور اس کے حقوق کی کامل آزادی کا حق رکھتا ہے۔انسان وہ مدبر ہستی ہے جسے آغاز ِآفرینش ہی میں ملائکہ نے سجدہ کیا اور جس کے لیے ربِ کعبہ نے بحر و بر کی مخلوقات پیدا کیں اور جس کے لیے شمس و قمر تک مسخر کر دیے گئے۔ علامہ کہتے ہیں ایسی متبرک اور مدبّر ہستی اتنا حق تو ضرور رکھتی ہے کہ وہ قدرت کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق ایک آزاد اور خود مختار زندگی بسر کرے۔علامہ کے خطبات اور کلام کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ: ۱۔اسلام میں حاکمیت اللہ کی ہے۔انسان اس کے نائب ہیں۔اسلام میں جو کچھ ہے نیابت ہے،رعایا کا کوئی تصور نہیں کیونکہ اسلام میں سب آزاد ہیں اور برابر ہیں البتہ مقاصدِ دینی کے اعتبار سے مسلم ذمی کا فرق ہے اور یہ تفاوت کسی غیر انسانی بنیاد پر نہیں،تمدنی بنیاد پر ہے۔ ۲۔اسلام ہر قسم کے ذاتی و اجتماعی استحصال،استبداد اورتسلط کی نفی کرتا ہے۔ ۳۔اسلام میں ترجیح کا اصول لیس لاحدٍ علیٰ احد فضل الّا بدین اؤ تقویٰ(فضیلت کا معیار صرف دین داری اور تقویٰ ہے) کے سوا کچھ نہیں۔ ۴۔خود امیر کو عام افراد ملک پر کوئی تفوق نہیں۔اسلام میں جمہور کو بشرائط یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اولوالامر کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرے۔ خواتین و حضرات! مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علامہ حریت کو غلامی کی ضد سمجھتے ہیں کیونکہ مسلمان جو لا الہ الا محمد رسول اللہ کی اقرار کرنے والا ہے۔وہ رب کعبہ کے سوا نہ کسی سے مرعوب ہوتا ہے نہ کسی کی غلامی اختیار کرتا ہے کیونکہ اس نے الستُ بہ ربکم 22کے جواب میں قالو بلیٰ کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے اپنا آقا،مالک،خالق تسلیم کر لیا اور اس پیمانہ وفا کو قیامت تک باندھ رکھا ہے۔ ؎ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری!23 اسی طرح اسرارورموز میں بیان ہوا ہے کہ جس کسی نے ہوا لموجود سے پیمان باندھا اس کی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہو گئی۔24 پس محبوب ِ مجازی کی قید سے آزادی حاصل کرنے والا اور معبودِ حقیقی کی غلامی قبول کرنے والا اقبال کے نزدیک مردِ حر (آزادشخص)ہے۔جب خالقِ کائنات کی غلامی اسے میسر آجاتی ہے تو اس کے د ل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں۔یہ روشنی اس میں نہ صرف جرأت و بے باکی، قوت و توانائی،سوز واثر پیدا کرتی ہے بلکہ اس کی روح کی اخلاص کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچا دیتی ہے اور مرد حر اپنی ان بے باکانہ خصوصیات کی بنیاد پر اپنی خودی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ افرادِ ملت کی خودی کی تعمیر کا بیڑا بھی اٹھا لیتا ہے اور خودی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ کر وہ مردِ مومن بن جاتا ہے اور ا س کا مقام اقبال کے ہاں یہ ہے۔ ؎ مردِ مومن ہے جہاں میں ربِ واحد کا غلام اس غلامی سے وہ بن جاتا ہے دنیا کا امام 25 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|