چراغ طور جلاٶ بڑا اندھیرا هے

چراغ طور جلاٶ بڑا اندھیرا هے (ادبی نشست کی روداد)
ٹیم حریم ادب لاهور۔

ڈاکٹر شگفته نقوی صاحبه کے لاهور آنے کی اطلاع ملی تو حریم ادب وسطی پنجاب نے ان کی موجودگی سے مستفید هونے کے لیے ءایک ادبی نشست کے انعقاد کا فیصله کیا۔نشست کا انعقاد قواریر سنٹر منصوره میں کیا گیا۔تلاوت کلام پاک اور نعت سے نشست کا آغاز هوا تو قلب و فکر کو نیء تازگی میسر هویء جبکه پھولوں کی خوشبو نے ماحول کو معطر کررکھا تھا۔سیکرٹری حریم ادب وسطی پنجاب عصمت اسامه نے افتتاحیه کلمات میں شرکاےء محفل کو خوش آمدید کها اور ادب کی تعریف کرتے هوےء واضح کیا که لغوی طور پر لکھی هویء چیز ”ادب“کهلاتی هے لیکن اصطلاحاً ادب ”وه کلام هے جو اپنی تاثیر کے باعث عمل کو بدل ڈالے ۔تاریخ میں ایسے بهت سے نامور ادیب گزرے هیں جنھوں نے اپنے قلم کے زور سے انسانی اذهان کو غوروفکر کی طرف راغب کیا ۔اگر فرانس کے انقلاب میں روسو اور والٹیر کے قلم کی کاٹ تھی تو شیکسپیر نے اپنے قلم کی تاثیر سے اپنی قوم میں اتحاد و یگانگت کا حوصله بیدار کیا ۔برصغیر میں علامه اقبال نے سویء هویء قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور منزل مقصود کی طرف جاده پیما کیا ۔اسی طرح سید ابوالاعلی'مودودی ؒ نے اپنے قلم کو قرآن وسنت کی روشنایء سے منور کر کے امت مسلمه کو دین کی حقیقت سے روشناس کیا۔ایک ادیب جب رب تعالی' کے پیغام کو عام کرنے کے لیےء قلم اٹھاتا هے تو اس کی تحریر بھی عبادت بن جاتی هے ،اس کا غوروفکر بھی عبادت بن جاتا هے ،اس کا ابلاغ بھی عبادت بن جاتا هے ۔آج کے پرفتن دور میں ایسے صالح قلمکار اور رایٹرز کی اشد ضرورت هے جو ایک طرف قوم کی نبض پر هاتھ رکھ کے اس کے امراض کی صحیح تشخیص بھی کر سکیں اور دوسری طرف اپنے قلم کی مسیحایء سے ان امراض کا علاج بھی کرسکیں۔

اس کے بعد لاهور حریم ادب کی نگران شاهده اقبال نے حریم ادب کا تعارف پیش کیا اور بتایا که یه ایک ادبی اصلاحی انجمن هے جس کے اغراض و مقاصد ”معاشرے کی مثبت اهل قلم عناصر کو مربوط اور متحرک کر کے ادب میں مثالی اقدار و تهذیب کو متعارف کروانا اور ادبی تخلقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا “هیں۔شاهده نے حریم ادب کی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیں۔

جب ڈاکٹر شگفته صاحبه کو مایک دیا گیا تو ان کی شگفته بیانی کی لطافت نے ماحول کو اپنے سحر میں لے لیا ۔انھوں نے اپنے لکھنے کے سفر کا آغاز سکول کی ”بزم ادب“ سے کیا تھا۔ انھوں نے بتایا که ان وقتوں میں لڑکیوں کا نام اخبار میں آنا اچھا نهیں سمجھا جاتا تھا اس لیے وه اپنے شوق کی تکمیل کے لیے نام بدل کر لکھتی تھیں ۔ایک بار رمضان کی ایک رات تھی جب ان کی بڑی بهن ایک ناول سرهانے رکھ کے سویء هویء تھیں ،شگفته صاحبه نے لالٹین جلایء اور پوری رات جاگ کے وه سارا ناول پڑھ ڈالا۔اسی طرح پڑھنے کے شوق کے سبب گھر میں رکھا هوا سارا لٹریچر پڑھ ڈالا۔پھر وه اپنے کالج کی بزم ادب کی ایڈیٹر بنیں اور دوسروں کی تحریروں کی اصلاح بھی شروع کی۔ایک بار ان کی بهن گوشت خرید کے لایء تو دیکھا که جس کاغذ میں گوشت تھا اس میں شگفته صاحبه کا افسانه چھپا تھا تو بهت خوش هوکر حوصله افزایء کی۔ڈاکٹر شگفته نے بتایا که صحیح معنوں میں ان کے لکھنے کے سفر کا آغاز تو سفر حج سے هوا۔بیت الله کو دیکھتے ساتھ هی دعا مانگی تھی که یا الله جو باب العلم هیں حضرت علی ۔۔۔انکے علم میں سے ایک قطره عطا کردے۔اور دوسری دعا یه مانگی تھی که یا الله جنت میں اپنا دیدار کروادینا ۔۔۔۔
؎ مانگا هے تم نے کیا یه مجھ کو خبر نهیں
میں نے تو اپنے رب کی ملاقات مانگ لی !
که میرا لکھنے کا مقصود یه هے که جب الله تعالی' جنتیوں سے پوچھیں گے که اور بھی کچھ چاهییے ؟ تو اهل جنت کهیں گے که سب نعمتیں مل چکیں اب صرف رب کا دیدار چاهییے !

ڈاکٹر شگفته نے بتایا که وه گاینی کی ڈاکٹر هونے کے سبب بهت مصروف هوتی تھیں لیکن لکھنے کا جنون اس طرح کام کرواتا تھا که ایک مریضه کو چیک کر کے الٹرا ساونڈ ٹیسٹ کے لیے بھیجتیں تو جلدی سے ایک صفحه لکھ لیتیں ،پھر اگلی مریضه کو چیک کرتیں تو اگلا صفحه لکھ لیتیں اور اسی طرح مضمون تیار هوجاتا تو آیا کو پوسٹ کرنے کے لیے دے دیتیں ۔

انھوں نے بتایا که وه جب لکھنے بیٹھتیں تو گویا وه نهیں لکھتیں تھیں بلکه الله لکھوارهاهوتاتھا ۔موتیوں کی لڑی کی طرح الفاظ ان په اترتے چلے آتے تھے ۔ایک بار سجدے میں رو رو کے دعا کرنا چاهتی تھیں لیکن سجده میں رونا نهیں آرها تھا تو اٹھ کے یه شعر لکھ دیا
؎اک آنسو بھی میسر نه هوا سجدے میں
هاےء میرایه بھی مقدر نه هوا سجدے میں ؟

سامعین کی محویت اس وقت ٹوٹی جب ڈاکٹر شگفته صاحبه نے اپنی ایک نظم تحت اللفظ سنانا شروع کی
چشم نم چشم نم
تیرا گریا هے کم
چشم نم چشم نم
سجدے میں جا اور آنسو بها
غم هوجاےء کم چشم نم چشم نم
یه مخلوق هے رب کو پیاری بهت
اس کو رکھنا بهم چشم نم چشم نم
آخری شب ملا جلوهء روے حق
پھر نه هوجاے گم چشم نم چشم نم !

خواتین کے لیے شایع هونے والے ڈایجسٹوں کی افسانه نگار زرافشاں فرحین نے دعوت سخن ملنے په کها که بهت اعزاز محسوس هو رها هے که ڈاکٹرشگفته کی محفل میں موجود هوں۔انھوں نے اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا که لکھنے کا ذوق اپنی والده کی طرف سے وراثت میں ملا اور پانچویں کلاس سے لکھنا شروع کیا ۔میری نانی جان اور امی جان جو جماعت اسلامی کی ناظمات تھیں انھوں نے بهت حوصله افزایءکی اور اب یه حال هے که جب تک لکھ نه لوں تسکین نهیں ملتی۔خواتین ڈایجسٹ ،شعاع اور دیگر ڈایجسٹوں میں لکھا اورایوارڈ بھی حاصل کیا۔حال هی میں ”تکریم نسواں مهم “لانچ هویء تو اس کے لیے دل کیا که کچھ لکھوں تو میں نے تین کتابیں پڑھیں پھر اس موضوع په لکھا ۔زرافشاں نے بتایا که اس وقت ابلیس گھات لگا کر عورت کا شکار کر رها هے۔دینی گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی الجھایا جا رها هے۔آج همارے خاندان اور گھر داٶ پر هیں ۔آج بھی اگر هم نه لکھیں گے تو بهت نقصان اٹھاییں گے۔شکر هے که جماعت اس یلغار کے آگے بند باندھنے کے لیے موجود هے ۔ارکان ،کارکنان ،قلکار ،میڈیا پرسنز سب اپنے محاذ پر کھڑی هوجاتی هیں ۔اهل قلم نے یه محاذ سنبھالے رکھنا هے۔الله سے امید رکھیں که یه صلاحیتیں همارے لیے حجت بن جاییں ۔میرا لکھا هوا ایک لفظ کسی کے دل کی دنیا بدل دے اور میرے لیے توشهء آخرت بن جاےء۔

مشهور ادیبه فرزانه چیمه نے گفتگو کا آغاز کرتے هوےء کها که مجھے صرف لکھنا آتا هے ،بولنا نهیں ۔بهرحال میں اپنی بھو عایله کے ساتھ اس محفل میں ڈاکٹر شگفته کے لیے آیء هوں۔ایک اچھا لکھاری اپنے مرنے کے بعد بھی هزاروں افراد تک اپنا پیغام پهنچا سکتاهے۔بنت الاسلام 1979 ءمیں وفات پاگییں مگر آج بھی ان کا لٹریچر موجود هے جس سے سب استفاده کرتے هیں ۔اچھا کھانا کھاییں ،اچھا پهنیں اور اچھا ادب لکھیں۔همارے لکھنے کے سفر کا آغاز اس طرح هوا که اخبارات هماری تحریریں پھینک دیتے تھے تب هم نے اسلامی پرچے بتول ،خواتین میگزین نکالنے کا فیصله کیا۔

مدیره چمن بتول صایمه اسماء نے نوآموز لکھاریوں سے مخاطب هوتے هوے اپنے احساس کا اظهار کیا که جیسے هی شگفته نقوی کے آنے کا علم هوا ، میں خوشی سے چلی آیء۔یه بهت فایده مند محفلیں هوتی هیں۔لاهور میں اگر آپ حریم ادب کو اٹھاییں گے تو عصمت کے ساتھی مل کے بهت اچھا کام کرسکتے هیں۔انھوں نے لکھاریوں سے کھا که اگر آپکی تحریر شایع نه بھی هوسکے تب بھی لکھتے رهنا هے۔ مشق اور تصحیح کرواتے رهیں ۔اسی تحریر کو اچھے الفاظ اور نیے پیراےء میں دوباره لکھیں۔جب آپ معیاری ادب کا مطالعه کریں گی تو هی معیاری تحریریں لکھ سکیں گی۔صایمه نے حاضرین کی فرمایش په اپنا کلام
؎یه هے خدا کی مشیت که هر زمانے میں
جھاں میں جادهءحق کو بھم رهے کچھ لوگ

پڑھ کے سنایا ۔انکی قلمی مهارت کے بارے میں دی گیء ٹپس سے لکھاریوں کو مستفید کیا۔
اس کے بعد بلاگر شاذیه عبد القادر نے نو آموز لکھاریوں کو اپنی تحریریں پڑھ کے سنانے اور ادیبات کو اصلاح کرنے کی دعوت دی۔یوں چراغ سے چراغ جلتا رها ,روشنی سے روشنی جلا پاتی گیء۔تقریب کے اختتام میں ڈاکٹر عایله نے اس خوبصورت کلام کے ساتھ محفل کو گرمادیا
؎اے جذبهء دل گر میں چاهوں ,هر چیز مقابل آجاےء
منزل کی طرف دو گام چلوں
اور سامنے منزل آجاےء !

دعا سے اس خوبصورت مهکتی ،جذبوں سے جگمگاتی محفل کا اختتام هوا۔عصمت اسامه نے شرکاےء محفل کا شکریه ادا کرتے هوےء مذید ایسی محفلوں کے عزم کا اعاده کیا۔