تحریر و ترتیب۔امیر خا کسار تحر یک انجینئر نثا ر خا ن
19مارچ کا دن ہر سا ل آتا ہے اور گز ر جا تا ہے لیکن نئی نسل کو اس دن کی
اہمیت کا کو ئی علم نہیں وہ نہیں جا نتے کہ اس دن کیا ہو ا 19مارچ 1940ء کے
دن 313خا کسا ر مجاہدوں کو نما ز کے لئے جا تے ہوئے راستے میں کیو ں رو کا
گیا ؟ پنجا ب کے مسلما ن وزیراعظم سر سکند ر حیات اپنے انگریز آقا یا ن ولی
نعمت کے اقتدار کو بچا نے کے لئے کلمہ گو خا د ما ن خلق خا کساروں کے خلا ف
مسلح طا قت کا مظا ہرہ کیو ں ضرو ری سمجھا ؟ گلستا ن خا کسار کے معطر اور
مہکتے ہو ئے پھو ل ظلم کے ہا تھو ں کیو ں مسل دئیے گئے ؟اﷲ کے خا کسا رسپا
ہیوں نے کس عزم و استقلال کے سا تھ بر طا نوی گما شتوں کا غرور خا ک میں
ملا دیا ؟ سلطنت انگلیشیہ جس پر سورج غروب نہیں ہو تا تھا اس کی بنیا دیں
ہلا کر کس نے آزادی وطن کی را ہیں ہمو ار کیں؟غلا موں نے پہلی اور آخر ی با
ر فرنگی حکمرا نو ں کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈا ل کر ان کے ۔ صد۔ سا لہ ظا
لما نہ دور اقتد ار کا جنا زہ کس طر ح نکالا ؟ مر شد آبا د اور سر نگا ہم
میں جعفرو صادق نے جو کھیل کھیلا ان کی معنو ی ا ولاد نے محا ذ لا ہو ر پر
اس کھیل کو کس طر ح دہرا یا ؟ایو ان سیا ست کی کر سی نشین با بو ؤں نے صلح
کی آڑ میں سیا سی با رگا ہوں سے ان شہیدانہ اسلام کے خو ن کی قیمت کسں طر ح
وصول پا ئی؟ آج ہم اپنی نو جو ا ن نسلوں کو یہ بتا ئیں گے کہ 19مارچ 1940ء
کے خا کسا ر سر فر وش ہما ری قوم کے سپوت تھے ۔وہ کلمہ گو مسلما ن تھے وہ
محمد ﷺ کے امتی تھے ۔ وہ اپنے گھر سے کھا کر اﷲ کے دین کو دو سرے تما م
دینوں پر غا لب کر نے کے لئے کھڑے تھے ۔وہ باطل کے مقا بلے میں خا مو شی سے
جا ن دینے کی بجا ئے جرا ت و مر دانگی کے سا تھ جا نیں لڑانے کو تر جیح
دیتے تھے۔ انہوں نے با د شا ہی مسجد کے فرش پر ما تھار گڑ کر قو م کو دھو
کا دینے والے ملت فروش وزیر اعظم پنجاب کی آگ اگلتی ہو ئی مشین گنوں کا
مقابلہ کیا اور نہتے ہو نے کے با وجود اپنے دشمنوں کو جس طر ح پسپاہو نے پر
مجبو ر کیا اس سے فر نگی سا مرا ج کو یہ احسا س ہو گیا کہ بر صغیر میں اس
کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں ۔ حضر ت علا مہ المشرقی ؒکے تر بیت یا فتہ
خا کسا ر مجا ہدوں نے ’’سر وادنہ دادوست درد دست یزید‘‘کی حسنیی سنت تا زہ
کر وی اور اپنے زور با زو سے ر چڑ ڈ اور لا رنس عر یبیہ کی فلا سفی کو گہر
ی قبر میں دفن کر دیااور چشم نیلی فا م نے 1857ء کے بعد پہلی با ریہ نقشہ
دیکھا جب دنیا کی سب سے عظیم سلطنت کی مسلح قو تو ں کے مقا بل 313غا زیا ن
اسلا م ڈٹ گئے وہ الصلوۃکی منزل طے کر نے جا رہے تھے لیکن وہا ں پہنچنے سے
قبل تمنا ئے مو ت کی منزل سا منے آگئی ۔اور ان غا زیا ن اسلا م نے رضا ئے
الہی کی خا طر اس کی آغو ش شگفتگی میں آکر جا م شہا دت نو ش کر لیا اور
مسلما ن قوم پر یہ راز آشکا رکر دیا کہ الصلو ۃکا تمنا ئے مو ت سے کتنا
گہرا تعلق ہے !انہوں نے لا ہو ر کی کر بلا میں اپنی جا نوں کی قر با نی دے
کر یہ ثا بت کر دیا کہ قو موں کی مو ت وحیا ت کا دار ومدار ان کے قوت ایما
ن پر ہے ۔اگر انہیں اپنے مسلک حیا ت کی صدا قت پر پختہ اورکا مل یقین ہے
اور وہ یقین دما غ تک بلکہ دل کی گہر ا ئیو ں میں پیو ست ہے تو دنیا کی کو
ئی طا قت انہیں بلندیو ں سے نیچے نہیں گرا سکتی اگر مسلمانان بر صغیر
اجتماعی طو رپر ان سر فروشوں کے خو ن کا قصا ص لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے
اور سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار کی طر ح ڈٹ جا تے تو ان کا1145سا لہ جا ہ
وجلال پھر واپس پلٹ سکتا تھا ۔تا ریخ کا دھا را بدل جا تا اور وطن عز یز کی
جغر افیا ئی سر حد یں آج سے کا فی مختلف ہو تیں ۔19مارچ1940ء کا سانحہ محض
سر سکندر حیا ت و زیر اعظم کی ہٹ دھر می کی وجہ سے منصۂ شہود پر آیا اس نے
تحریک پر پا بندیا ں عا ئد کر نے کے سا تھ ساتھ رسالہ ’’اکثر یت یا خون‘‘کے
صفحہ اول کی قرآنی آیت کو بھی غلط قرار دے دیا جس کا ترجمہ یہ تھا کہ’ایما
ن والے وہ لوگ ہیں جو میدان جنگ میں جا کر دشمن کو قتل کر تے ہیں اور خود
قتل ہو تے ہیں‘‘فیقتلون ویقتلون‘‘اس ر سا لے میں مسلما نوں کے سا منے مسلما
ن کی خو ن کی قیمت ہندوستا ن پر سلطنت کے الفا ظ سند کے طور پر پیش کیئے
گئے تھے ۔جبکہ سر سکند رانگریزوں کے اقتدار کو بچا نے کیلئے اپنے ہم وطنوں
کوآٹھ آٹھ د س دس روپے میں بھرتی کرا رہا تھا۔تا کہ یہ قر با نی کے بکرے بن
کرانگر یز کے اقتدارکے لئے استحکام اور دوا م کا با عث بن سکیں۔سر سکندر کے
نا روااور قوم کش سا زشوں کے پیش نظر حضر ت علامہ المشر قی ؒنے اس سے
اسمبلی ہا ل میں ملاقات کی اور اس ظلم سے باز رہنے اور مسلما نوں کے سا تھ
اس کے تعلق کا ذ کر کیا تو نشہ اقتدار میں بد مست سر سکندر نے جو اب دیا کہ
’’مسلما ن جد ھر جا تے جا ئیں مجھے ان سے کو ئی سر وکار نہیں مجھے اپنی
وزارت سے غرض ہے‘‘ سر سکندر کے خو فنا ک عزا ئم کو بھانپ کر علامہ المشرقی
نے وا ئسرا ئے اور دیگر ز عما ملت کو تا ریں دے کر صورت حا ل سے آگا ہ کیا
اور خود بھی گئے ۔ملا قا توں کا سلسلہ جا ری تھا سر سکندر حیا ت کی دہلی
آنے کی اطلاع ملی ۔9مارچ 1940کو نوا ب ابراہیم آف کنج پو رہ کی قیا دت میں
خا کسار سا لا روں کے ایک وفد نے سر سکند ر سے ملا قا ت کی۔ نوا ب صا حب (جو
عمر کے لحا ظ سے بزرگ تھے)نے سر سکند رکو کہا تم اس ظلم کے بدلے جو تم کر
رہے ہو قیا مت کے دن ہما را ہا تھ اور تمہا راگریبا ن ہو گا ۔ سر سکندر نے
قیا مت کے متعلق کہا کہ اس وقت جو میں چا ہو ں گا وہ ہو گا ۔قیامت کے متعلق
قیامت کے دن دیکھا جا ئے گا ،(بحو الہ جر یدہ الا اصلاح 15مارچ1940ء)وفد کے
اراکین نے حضرت علامہ المشرقی ؒکو اطلا ع دی کہ سر سکندر بہت خو نخوار اور
غضب نا ک معلوم ہو تے ہیں اور ان کے ارادے بڑے خو فنا ک ہیں با لا آخر وہ
ہی ہو اجس کا خدشہ تھا ۔نما ز کے لئے مسجدکوجانے والے مسلما نوں کو گو لی
کا نشا ن بنا دیا گیا اور محمد عربیﷺکے ان امتیوں کو خود انہی کے خو ن سے
وضو کر نے پر مجبو ر کر دیا 19مارچ 1940ء کو کر بلا لا ہو ر میں قص بسمل کا
جو کھل کھیلا گیاوہ خا کسار تحر یک کے اس دعو ے کی ایک زندہ مثال ہے۔ ایک
زندہ شہا دت ہے ۔خا کسا ر قرن اول کے نبو یﷺ اسلا م کو زندہ کر نے اٹھے ہیں
قر ن اول کے نبوی اسلام کی قیمت تو صحابہ اکرام سے نقد ا نقد قیمت جنگ کے
میدان میں وصول کی گئی تھی۔لیکن جب کاروان ملت نے اس راہ سے روگر دانی
اختیا ر کر لی اور اپنی تا ریخ کے زندہ جا وید واقعا ت سے آنکھیں بند کر
لیں تو پھر خا کسار سر فروشوں نے قرن اول کی گم گشتہ راہوں پر اپنے خون شہا
دت سے رشد وہدا یت کے چراغ روشن کر نے کی کو شش کی ۔وہ313تھے ان کے پا س
صرف مزدور کا ہتھیا ر ’’بیلچہ ‘‘ تھا جو وہ خدمت خلق کیلئے استعما ل کر تے
تھے لیکن ان کے مقا بلہ پر تر بیت یا فتہ سپا ہ آتشیں اسلحہ سے لیس تھی ۔ان
کے شہرآفا ق قا ئد حضر ت علامہ محمد عنا یت اﷲ خا ن المشرقی ؒ نے انہیں یہ
سبق خو ب از بر کر ا رکھا تھا کہ ’’لو ہو ں کے ہتھیا روں کے سا تھ ساتھ
ایما ن اور یقین عزم اور ارادہ اتحا د اور ولولے کے ہتھیا ر ہمیشہ سے مدر
جہا ز کا ر آمد رہے ہیں ۔جن کے ذریعے سے کمزور لا زماًس ابھر تا رہا ہے۔۔۔۔اسی
لئے 313 خا کی جسد نہیں بلکہ ایمان کی قو تیں تھیں ۔ان 313مقدس پیکران کے
سینوں میں جو قلب متحرک تھے ان کی دھڑ کنوں میں کتنی قیا متیں پو شیدہ
تھیں۔جن کی قو توں کا مقیا س ایمان کی حرا ت تھی اور اس حرات کے سا منے بڑی
سے بڑی قوت بھی نہیں ٹھہر سکتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ خا کسا ر سپا ہی کو ختم
کر نے کی سا زش بروے کا ر لا ئی گی تو بدر و حسنین اور قا د سیہ ور مو ک کی
راہوں پرچلنے والے قو ت ایما نی سے سر شا ریہ خاکسار سپا ہی میدان میں ڈٹ
گئے اور انہوں نے فر نگی سا مرا ج کو قصہ خو انی با زار اور جلیا نوالہ با
غ کی پر فر یب دلدل سے نکا ل کر یہ ثا بت کر دیا کہ اب برصغیر میں ان کی
حکمرانی کے دن پو رے ہو چکے ہیں بیلچہ اور یو نین جیک اکٹھے نہیں رہ سکتے
خا کسار سر رفرو شوں نے اپنے آب دار بیلچوں سے بر طا نیہ کا شہنشا ہی
اقتدار چور چور کر کے ارض لاہو ر کے ذرے ذرے کو لا فا نی عظمتوں سے سر فرا
ز کر ڈالا جس طر ح میدان بدر میں مٹھی بھر مسلمانوں نے اپنی کم تعد اد اور
بے سر و سا ما نی کے با وجو د کفا رمکہ سے ٹکر لے کر انہیں تا ریخی شکست فا
ش دی۔ احد کی پہا ڑی خود رسول خدا ﷺکے خون سے رنگیں ہو ئی ۔نوا سہ رسول ﷺ
نے میدان کر بلا میں اپنی ننھے بچونکی جا نوں کانذرانہ پیش کیا تو قو م کو
یز یدیت سے نجا ت ملی ۔صلاح الدین ایوبی کی تلوار اور لاکھوں مسلمان
مجاہدوں کی قربا نیوں نے یو رپ کے ٹڈ ی دل عسا کر کی یلغا ر کو روکا اور
مسلما ن قوم کو نیست و نا بو د ہو نے سے بچا لیا ۔ محمود غز نو ی نے جہا
دفی سبیل اﷲ کے بدولت بر صغیر میں مسلمان مملکت کی داغ بیل ڈالی ظہیرالدین
بابر کی فوجوں نے پانی پت کے میدان کو لالہ زار بنایا تو مسلمانوں کے قدم
ہندوستان میں جمے۔ ٹیپو سلطان علیہ الرحمتہ نے جام شہادت نوش کر کے
مسلمانوں کو زندہ رہنے کا ڈھنگ سکھایا ۔اسی طرح19مارچ1940ء کے دن خاکسار
سرفروشوں نے سابقوں اور اولوں کے نقوش قدم پر چل کر فرنگی سامراج سے ٹکرلی
اور اپنی بے مثال مردانگی اور جرات سے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں ۔خاکسار
شہیدوں کے مقدس لہو کی دہشت سے ــ’’یو نین جیک‘‘کے جاہ جلا ل پر ہیبت ناک
لرز ہ طا ری ہو گیا اور وہ صرف سا ت برس کے اندر اندرہی پیو نز مین ہو کر
رہ گیا ۔یقینا19مارچ1940ء بر صغیر کے مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے کاآخری دن
تھا اس رو ز علامہ المشرقی ؒکے تر بیت یا فتہ جا نثا ر وں اور اﷲ کے خا
کسار سپا ہیوں نے اپنے ہم وطنوں پر یہ ثا بت کر دیا کہ دینا میں آزا دی کی
تا ریخ کا سر عنوان ہمیشہ خون کی سر خی سے لکھا جا تا کیو نکہ خریدیں نہ ہم
جس کو اپنے لہو سے مسلما ں کو ہے ننگ وہ با دشا ہی 19مارچ1940ء سا ل ہا ئے
گز شتہ کی طر ح پھر آز ما نا ہے غلبہ اسلام کی خاطرشہید ہونے والے 159
خاکسار تحریک کے ان مجاہدوں کو ، اپنے بھا ئیوں کو خراج تحسین پیش کر نے کے
لئے بڑا اہم ہے۔ لیکن یہ حقیقت ذہین نشین رہنی چا ئیے کہ زندہ قو میں اپنے
قو می دنو ں کی یا د میں اپنی تا ریخ کے تحفے وقت کے اندھیروں میں تمغے
روشنی کے چرا غ بن کر آئندگان نسلوں کو راستہ دکھا تے اور منز ل کی جا نب
ان کی رہنما ئی کر تے ہیں ۔۔۔۔۔جو قو میں اپنے سینوں پر اپنی عطا کر دہ
تمغے سجا نے کو ہی کا ر نا مہ سمجھنے لگ جا ئے تو ان کے تہوار چپ چا پ گزر
جا تے ہیں۔تہوار چپ چا پ ہو ۔ تو تا ریخ کی آواز بھی سنا ئی نہیں دیتی ۔تا
ریخ کی آواز نہ سنا ئی دے تو پھر حا ل اور مستقبل بھی اپنا اعلان نہیں کر
سکتے اپنا آپ منوا نہیں سکتے ۔ بے زبان لمحے کو بے زبان رکھ کر قو میں ڈیہٹ
بن جا تی ہیں ۔یا د رکھو !آواز نہ ہو وہا ں زندگی کہا ں ہو تی ہے ز ندہ
رہنے کے لئے اپنے آپ کو منو اؤاور اس عزم کو تا زہ کر وکہ ہم صرف دوسروں کی
یا د منا نے کے لئے نہیں بلکہ ان کی قر با نیوں کو اپنی جا نفرو شیوں سے
نئی آب وتا ب عطا کر نے کے لئے ہیں ۔جب تک ہزاروں اور لا کھو ں کی تعداد
میں جا نیں لڑا نے اور سر دھڑ کی با ز ی لگا نے والے پیدا نہ ہو ں گے نو ع
انسا نی کو اسلا م کی قیض بخشیوں سے ما لاما ل نہیں کیا جا سکے گا ۔اور جب
تک لا کھو ں کی تعد امیں سر وں پر کفن با ندھ کر بے دھڑ ک میدا ن میں نہیں
نکلے گے اسلام کی گا ڑی آگے نہیں بڑ ھ سکے گی ۔19مارچ 1940ء کے خا کسا ر
شہدیوں کی روحیں یہ مطا لبہ کر رہی ہیں کہ آج کے دن ہم یہ عہد کریں جب بھی
اسلام کے تقا ضے ہم سے جا ن کی قر با نی کا مطا لبہ کر یں تو اس پر لبیک
کہتے ہو ئے ہم لا کھو ں کی تعد اد میں قطا ردر قطا ر آگے بڑھیں گے ا ور
اپنی جانوں کی صفیں بچھا کر نہ صر ف اسلام کا نا م بلند کر یں گے بلکہ اپنے
لئے بھی حیا ت ابدی کا وہ انعام حا صل کر لیں گے جس کی بہا ریں خزا ں کے
اندیشوں سے پا ک ہوں گی ۔
|