عبرتناک حقیقی واقعہ : ہر انسان لازمی پڑھیں
(Asif Jaleel, All Cities)
|
ابن آدم کی اوقات
وہ خود میجر جرنل تھا اس کے تین بیٹے تھے ، تینوں سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے اور شاہانہ زندگی گزرتی رہی
وقت تیزی سے گزرا میجر جرنل کے ساتھ (ریٹائرڈ ) لگ گیا عہدے کی مدت ختم ہوئی ریٹائرڈ ہو گئے اور اب زندگی کا سفر انتہاء کی طرف چل پڑا۔۔۔۔
بیٹوں نے باپ کے عہدے سے خوب لطف اٹھایا..
کہتے تھے ہمیں کیا فکر ہے ہمارا باپ میجر جنرل ہے... ہمارے کام خود بخود بنیں گے اور بنتے بھی رہے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ قدموں میں حاضر ہو جاتا تھا
پھر وہ دن آ گیا جب بیٹے یہ بھول گئے کہ یہ وہی باپ ہے جس کے نام و عہدے کی وجہ سے لوگ ہمیں سر سر کہتے تھے
باپ کسی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے اور بولنے سے معذور ہو گیا بیٹے کہنے لگے اب تو باپ کی کمزوری دیکھی نہیں جاتی
ایک بیٹے نے کہا کہ ابا کی جائیداد و مال کی تقسیم کرتے ہیں نہ جانے کب مر جائے
اب تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے جب دوست آتے ہیں تو سامنے یہ بوڈھا ہوتا ہے
چلو ایک نوکر مستقل ان کے ساتھ رہنے کے لیے رکھ لیتے ہیں جو ان کا خیال رکھے بیس ہزار ماہانہ دے دیں گے
نوکر آ گیا اور اسی گھر کے ایک کمرے میں باپ کو فرش پر گدا لگا دیا گیا اور نوکر کو کہا کہ اس کا پورا خیال رکھنا ہمیں کوئی شکایت نہ ملے
بیٹوں کی شادیاں ہوئیں
ایک نے گرمی کی چھٹیاں گزارنے فرانس کا پروگرام بنایا اور دوسرے نے لندن اور تیسرے نے پیرس کا
اور ہر جگہ اپنا تعارف میجر جنرل کے بیٹے ہونے سے شروع کرتے۔۔۔۔
نوکر کو تاکید کی کہ ہماری تین ماہ کے بعد واپسی ہو گی تم بابا کا پورا خیال رکھنا اور وقت پر کھانا دینا جی اچھا صاحب جی !
سب چلے گئے وہ باپ اکیلا گھر کے کمرے میں لیٹا سانس لیتا رہا نہ چل سکتا تھا نہ خود سے کچھ مانگ سکتا
نوکر گھر کو تالا لگا کر بازار سے بریڈ لینے گیا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا لوگوں نے اسے ہاسپٹل پہنچایا اور وہ قومے سے ہوش میں نہ آ سکا
بیٹوں نے نوکر کو صرف باپ کے کمرے کی چابی دے کر باقی سارے گھر کو تالے لگا کر چابیاں ساتھ لے گئے تھے
ملازم اس کمرے کو تالا لگا کر چابی ساتھ لے کر گیا تھا کہ ابھی واپس آ جاؤں گا اب بوڑھا ریٹائرڈ میجر جنرل کمرے میں لاک ہو چکا تھا اور وہ چل پھر نہیں سکتا تھا کسی کو آواز نہیں دے سکتا تھا
لہذا تین ماہ بعد جب بیٹے واپس آئے اور تالا توڑ کر کمرہ کھولا گیا تو لاش کی حالت وہ ہو چکی تھی جو تصویر میں دکھائی دے رہی ہے
محترم خواتین و حضرات عبرت کا مقام ہے یہ واقعہ ہم کس طرح اپنی اولاد کے لئے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ان کا مستقبل سنوارنے کے لئے تن من دھن کھپاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دولت جائیدادیں بنا کر ان کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اور سوچتے ہیں کہ یہ اولاد کل بڑھاپے میں میری خدمت کرے گی
اعلیٰ ترین غیر ملکی سکولوں میں دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں اور دین اسلام کی تعلیم دلوانے کو توہین سمجھتے ہیں جس میں سکھایا جاتا ہے کہ والدین کی خدمت میں عظمت ہے
ہر انسان جو بوتا ہے اسی کا ہی پھل پاتا ہے
ہمیں بھی سوچنے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کو کیا تعلیم دلوا رہے ہیں کہیں ہمارا حال بھی ایسا تو نہیں ہونے والا
سوچئے گا ضرور
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا
نوٹ: منسلک تصویر حقیقی واقعے کی تصویر ہے۔۔۔ منقول |