کورونا وائرس: لاک ڈاؤن میں کراچی کے صبح و شام کیسے گزر رہے ہیں؟

image


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں جیسے دوپہر ڈھلتی ہے تو گلیوں اور محلوں میں چہل پہل اور محفلیں جم جاتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے میں 15 روز کے لیے کاروباری مراکز، مارکیٹیں اور دفاتر بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگ آپس میں سماجی فاصلہ رکھیں اور کورونا وائرس تیزی کے ساتھ پھیل نہ پائے، لیکن روایات اور سماجی و ثقافتی رابطے اس کے درمیان دیوار ہیں۔

شہر کا صنعتی علاقہ لانڈھی میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی زیادہ ہے۔ مقامی سماجی کارکن سرتاج خان نے بی بی سی کو بتایا کہ عام دنوں میں بچے اسکولوں، مدرسوں میں جاتے ہیں جبکہ بڑے مِلوں اور کارخانوں میں کام کاج پر ہوتے ہیں۔

لیکن آج کل یہ سارے لوگ اپنے اپنے گلی محلوں میں موجود ہیں کیونکہ دو دو کمروں کے مکانات میں سارا دن کیسے بند رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی گلیوں میں میلے جیسا سماں ہے۔

رنچھوڑ لائن اور آس پاس کی گلیوں میں خواتین باکڑوں (صندل) جبکہ مرد سڑکوں پر دائرے لگا کر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ راجستھانی سلاوٹ کمیونٹی ہے۔ ان کا مکان عموماً ایک کمرے پر مشتمل ہوتا ہے اور اسی میں کچن اور واش روم بھی موجود ہوتا ہے۔
 

image


عام طور پر یہ لوگ مستری، پلمبر وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ کراچی میں برطانوی راج کے زمانے کی زیادہ تر پتھر کی عمارتیں بھی ان ہی کے آباؤ اجداد نے تعمیر کی ہیں۔

گلیوں میں باکڑوں پر رات گئے تک بیٹھنا اور مردوں کا رات کو باہر سونا یہاں کی روایت ہے اور کورونا وائرس کے خدشات سے بھی ان کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

شہر بندی سے قبل پولیس نے ہوٹلوں کے علاوہ تندور بھی بند کروا دیے تھے جو مقامی مزاحمت کے بعد کھول دیے گئے۔ مقامی صحافی شکیل سلاوٹ کے مطابق سالن گھروں میں بنتا ہے جبکہ چپاتی باہر سے آتی ہے۔

لیاری کے چاکیواڑہ چوک اور آٹھ چوک سے لے کر شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ اور کھڈا مارکیٹ کے علاقوں میں بھی ایسے ہیں مناظر ہیں۔ یہاں کے مرد بندرگاہ، ٹمبر مارکیٹ، فرنیچر مارکیٹ اور سپیئر پارٹس مارکیٹ میں کام کرتے ہیں جبکہ خواتین گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔
 

image


مردوں کا کام تو لاک ڈاؤن کے بعد سے ٹھپ ہے لیکن خواتین صبح نو بجے سے گھروں میں کام کاج کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں اور ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔

کراچی میں رہائشی علاقوں کی درجہ بندی

اگر دیکھا جائے تو کراچی کے شہری چار اقسام کے علاقوں میں رہتے ہیں۔

ایک وہ ہیں جو ڈیفینس، کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس جیسے پوش علاقوں میں آباد ہیں جہاں گلیاں اور سڑکیں بھی خوشحال اور کشادہ ہیں اور مکانات بڑے ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو فلیٹوں میں رہتے ہیں جن میں گلشن اقبال، گلستان جوہر، صدر کا علاقہ خاص طور پر شامل ہے جہاں دو بیڈ اور ایک ڈرائنگ کی صورت میں تین کمرے موجود ہیں۔

تیسرا علاقہ پسماندہ کچی آبادیوں کا ہے جن میں سے کچھ گجر نالے سمیت مختلف نکاسی آب کے نالوں کے قریب بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو شہر نے گود لے لیا ہے یعنی ریگولرائیز کر دیا گیا ہے۔

چوتھا علاقہ وہ ہے جو کسی کھاتے میں شامل نہیں۔ یہ لیاری ندی کے کنارے، فلائی اوورز کے نیچے یا سبزی منڈی کے قریب بسنے والے لوگ ہیں۔ ان میں سیلاب یا حالات کے ستائے ہوئے لوگ شامل ہیں جو مختلف علاقوں سے نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔
 

image


انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار انوائرمنٹ کا کہنا ہے کہ ایشیا میں لاکھوں لوگ عارضی بستیوں اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ سہولیات کا فقدان ان کے غیر محفوظ ہونے میں اضافہ کر دیتا ہے، اور ان علاقوں میں امراض پھیلنے کے زیادہ خدشات موجود ہوتے ہیں۔

ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور صوبائی حکومت نے غریب آبادیوں میں صابن کی تقیسم کا اعلان کیا ہے لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومتی اعلان پر عملدرآمد میں وقت درکار ہوتا ہے۔

سرکاری اداروں کی چھٹیوں اور شہر بندی سے کراچی کے کئی مقامات پر کچرا بڑھنے لگا ہے۔ چند ماہ قبل تک کچرا اٹھانے پر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور کے ایم سی میں کشتی جاری تھی جس کے بعد کچرا اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن اب اس میں ایسے دنوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب عوام میں صفائی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
 

image


کراچی میں تعلیمی ادارے سب سے پہلے طویل مدت کے لیے بند ہوئے جس کے بعد امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے، اسی دوران پی ایس ایل کا سیمی فائنل اور فائنل بھی ملتوی کروا دیا گیا، لیکن ہر اب ہر محلے میں ’پی ایس ایل‘ جاری ہے۔

خالی سڑکیں ان دنوں کرکٹ کی پچ بن چکی ہیں، جہاں بچے اور نوجوان ٹولیوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان جوشیلے جوانوں کو کورونا کی جیسے کوئی فکر نہیں۔

کراچی آنے والی تمام بس سروسز اور ٹرینوں کو معطل کردیا گیا ہے، سمندر کنارے آباد صوبائی دارالحکومت تک صوبے اور ملک کے کونے کونے سے کئی وجوہات کی بنا پر لوگ آتے ہیں جن میں روزگار، تفریح، خریداری، صوبائی محکموں میں کام کاج اور یہاں دستیاب صحت کی بہتر سہولیات ہیں۔
 

image


فاطمید فاؤنڈیشن اور حسینی بلڈ بینک میں کئی شہروں سے تھیلیسمیا کے شکار بچے خون کی منتقلی کے لیے آتے ہیں تو دوسری جانب ایس آئی یو ٹی ڈائیلائسز کی سہولت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں سندھ کے دیگر شہروں کے علاوہ بلوچستان سے بھی مریض لائے جاتے ہیں۔ بس سروس معطل ہونے سے ان مریضوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور اس پر قائم جامع کلاتھ، بولٹن مارکیٹ، پلاسٹک مارکیٹ سمیت درکن بھر مارکیٹوں میں ان دنوں سناٹا ہے، صرف میڈیسن مارکیٹ میں لوگوں کی چہل پہل نظر آتی ہے۔

اس شہر کے باسیوں کے لیے شہر بندی کوئی نئی بات نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کراچی آپریشن سے قبل سیاسی جماعتیں ہڑتال کرواتی تھیں یا لسانی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے شہر بند ہوجاتا تھا لیکن اس بار ریاست نے شہر بند رکھنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔
 

image


ہڑتال اور کشیدگی کے دنوں میں بھی وسطی شہر کی مارکیٹں بند رہتیں اور مختلف کمیونٹیز کے علاقے کھلے رہتے جبکہ شام کو فوڈ اسٹریٹ یا پھر ساحل سمندر پر آکر لوگ اپنا غم اور پریشانی دور کرلیتے۔ ان میں سے کچھ لوگ پاس ہی واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دینے چلے جاتے لیکن موجودہ وقت میں یہ سب کچھ بند ہے۔

ایم اے جناح روڈ پر جامع کلاتھ کے سامنے ایک مزار واقع ہے جو محکمہ اوقاف کے زیر انتطام ہے۔ اس مزار کے دروازے بند ہیں لیکن گذشتہ شب یعنی جمعرات کو کئی درجن لوگ رات تک جمع تھے اور انھیں آسرا تھا کہ دروازہ کھلے گا جبکہ بعض نے بالاخر باہر ہی دعائیں مانگیں، لنگر تقسیم کیا اور روانہ ہوگئے۔

کورونا وائرس نے کراچی کی معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

معشیت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی اور اب کراچی میں واقع پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل منفی رجحان ہے۔
 

image


مزدور رہنما ناصر منصور کے مطابق کورونا کی وجہ سے یورپ میں لاک ڈاون ہے جس وجہ سے آرڈر کینسل ہو رہے ہیں جبکہ اب کراچی میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والوں کو فارغ کیا جارہا ہے۔ بقول ان کے شہر میں ایک ہزار بڑے صنعتی یونٹ ہیں اور ہر یونٹ میں تقریباً ایک ہزار لوگ ملازمت سے وابستہ ہیں۔

ریڑھی پر مکئی فروخت کرنے والے ایک مزدور سے میں نے معلوم کیا کہ اس پر گذشتہ دو روز سے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں تو اس نے بتایا کہ ویسے اس کی دیہاڑی 800 سے 900 روپے بن جاتی تھی لیکن دو دنوں میں مشکل سے 300 روپے کمائے ہیں۔ اس نے شکایت کی کہ دوپہر کو ہوٹل پر کھانا نہیں مل رہا۔

یوں تو حکومت سندھ نے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے کھانا لینے پر پابندی عائد نہیں کی تھی تاہم پولیس نے تمام ہوٹل بند کروا دیے ہیں، جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: