کورونا وائرس۔ احتیاط لازمی .(قسط 1)

کورو نا وائرس جس نے نومبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں جنم لیا تھا پھیلتے پھیلتے عالمی صورت اختیار کرگیا ہے۔ آج یعنی 21مارچ کی اطلاع کے مطابق یہ خطرناک وائرس دنیا کے 178ممالک تک پھیل چکا ہے۔ اب تک اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ دنیا کو اپنی پلیٹ میں لینے والا یہ کوئی پہلا وائرس نہیں، اس سے قبل بھی کئی وائرس وقفہ وقفہ سے آتے رہے ہیں جنہوں نے دنیا میں تباہی برپا کی لیکن کورو نا وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں غفیہ طریقہ سے منتقل ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بنیادی طور پر جانوروں خاص طور پر چمگادڑ، سانپ، کتا، بلی وغیرہ سے پھیلا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو حرام اور حلال کی واضع ہدایت ہیں، جب کہ غیر مسلم وہ چیزیں کھاتے ہیں جنہیں اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، ان لیے حرام اور حلال کوئی چیز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔چین جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا، وجہ کچھ بھی رہی ہو، وہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں، افرادی قوت بھی بے پناہ ہے۔ اس نے ووہان شہر کو لاک ڈاؤن کردیا، چینی ماہرین، حکومت، عوام اس موزی وائرس کو ختم کرنے میں لگ گئے اور نومبر 2019ء میں شروع ہونے وائرس کو کوئی تین چار ماہ میں ہلاکتوں کے باوجود کنٹرول کر لیا گیا۔ آج ہی کی رپورٹ ہے کہ چین میں کورو نا وائرس کا کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

چین سے یہ پاکستان کے پڑوسی ملک ایران کیسے پہنچا اور ایران کو خبر نہ ہوئی، ادھر چین ہی سے کورو نا وائرس اٹلی کیسے پہنچا، اٹلی کو خبرنہ ہو ئی، اگر ہو بھی گئی تو وہ خواب غفلت میں پڑے رہے اور کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جس کا نتیجہ اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ چین میں کم اٹلی میں کورو نا وائرس نے زیادہ ہلاکتیں کیں۔ زندگی کے بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں یا آجاتے ہیں کہ اگر بروقت درست قدم نہ اٹھایا جائے، سستی، لاپروائی، لاتعلقی سے کام لیا جائے تو نقصان زیادہ ہوتا ہے،خاص طور پر کوئی ایسا مسئلہ جس میں انسانی جان جانے کا خطرہ ہواس میں سستی، لاپروائی، تسائلی، یا اسے ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ اٹلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ایران کی صورت حال سے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ایسا ہی رہا۔ ایران سے تفتان اور دیگر راہداریوں سے کورو نا وائرس میں مبتلا لوگ پاکستان میں داخل ہوئے، جب معلوم ہوا تو اقدامات تسلی بخش نہ تھے، یعنی ایک قرنطینہ میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو ایک ساتھ رکھا گیا، آج ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ”ایک کمرے میں 4 مریض‘ کورونا کیسے کنٹرول ہوگا“۔ایسی صورت حال سے ایک سے دوسرے کو یہ وائرس لگتا چلا گیا، پھر وہ لوگ شہروں میں بھی داخل ہوئے جس کے نتیجے میں کورونا سندھ اور بلوچستان، سندھ میں پہلے کراچی پھر سکھر میں حملہ آوار ہوگیا۔ یہاں بھی بروقت اقدامات نہ کرنا، تسائلی، لاپروائی ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ کراچی شہر پھر سکھر کورو نا وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ سندھ حکومت نے اب اقدامات کرنا شروع کردیے ہیں۔ فوج کو بھی مدد کو بلا لیا گیا ہے۔ آج سے تین دن کے لیے کراچی شہر بند کردیا گیا ہے، کرفیوتو نہیں کہا جاسکتا البتہ وزیر اعظیٰ سندھ کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ تین دن گھر میں رہیں۔ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں قرنطینہ قائم کردیا گیا ہے جس کی نگرانی فوج کر رہی ہے۔

کورو نا وائرس سے بچاؤ صرف احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا ہی ہے۔ جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ لوگ کسی جگہ زیادہ تعداد میں جمع نہ ہوں، باہم گلے نہ ملیں، ہاتھ نہ ملائیں، بار بار ہاتھوں کو دھوئیں، سینی ٹائیزر استعمال کریں، ماکس کا استعمال کریں، غیر ضروری طو رپر گھر سے باہر نہ جائیں، خاص طور پر بچے اور عمر رسیدہ افراد کو زیادہ احتیاط کرنے کی ہدایت ہے۔ اس لیے کہ ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ اب تک اس وائرس سے ہلاک ہونے والے عمررسیدہ لوگ ہی ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا کہ پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ، شادی کی تقریبات میں جارہے ہیں، شاپنگ مال میں خوب خوب شاپنگ کر رہے ہیں، یہاں تک کہ ساحل سمندر اور دیگر تفریحی مقامات پر خود بھی جارہے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی لے جارہے ہیں، اس صورت حال کے پیش نظر حکومت کو ان سب پر پابندی لگانا پڑی۔ اچھا یہ صورت حال ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ جرمنی جو ایک ترقی یافتہ ملک ہے وہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہوئی، اسکول بند کردئے گئے تو لوگ شام کے اوقات میں بچوں کو تفریحی مقامات پر لے جانے لگے، وہاں بھی سختی کی گئی۔ کورو نا وائرس کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا، آج کے لیے صرف اتنا ہی۔ (21مارچ2020)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437040 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More