کورونا سے خطرناک این پی آر،سی اے اے اور این آر سی
جیسے قوانین ہیں،ان قوانین کو ختم کرنے کیلئے ملک میں پچھلے تین مہینوں سے
احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے،جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو،ڈی یو اور اے ایم
یو جیسی یونیورسٹیوںمیں ان قوانین کے خلاف ابتدائی آوازیں اٹھی تھیں،اس کے
بعدشاہین باغ سے جو احتجاج شروع ہوا وہ ملک کی حکومت کو ہلا کر رکھی دیا
ہے۔ملک میں دلتوں،سکھوں اور پسماندہ طبقات کی ایک بڑی تعداد اس قانون کے
خلاف آواز اٹھا رہے مسلمانوں کے ساتھ ملنے لگی ہے۔ڈسمبرکے آواخر تک ان
قوانین کو لیکرمسلمانوں کی مذہبی قیادت دس قدم پیچھے ہی تھی،لیکن جب ملک
بھر میں شاہین باغ کی شاخیں شروع ہونے لگی تو علماء کا ایک بڑ اطبقہ اپنے
آپ کو پیش پیش رکھنے کی کوشش میں لگااو راتحادالمسلمین کے علاوہ اتحاد بین
الامذاہب کے مقصد کو لیکر آگے بڑھنے لگا۔سی اےاے،این آر سی اور این پی
آرکے خلاف جو تحریک طلباء،خواتین اور عام مسلمانوںکی جانب سے چلائی جارہی
تھی،اس تحریک سے اپنے آپ کو جوڑنے کیلئے علماء کا ایک طبقہ آگے آیا،جس
کے مثبت نتائج کم آتے بلکہ منفی نتائج سے تحریک کو نقصان اٹھانا پڑا۔یقیناً
یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔اتحاد قائم کرنے کانعرہ بلند ہوا
تو علماء کے درمیان باہمی ربط پیدا ہوا اور اتحاد کے نام پر اسٹیجوں پر ہر
مسلک کے علماء کی قیادت ہوئی۔ہر جلسہ میں ترازو رکھا گیا،جس پر ہر مسلک کے
عالم کو رکھ کر وزن برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک بھی مسلک یا مکتب فکر کے
عالم کی غیر موجودگی کو ناانصافی قرار دیاجانے لگااور ایسی مجسلوں و
نشستوںمیں اختلافات پیدا ہوئے۔دراصل ملک کے جو حالات ہیں،ان حالات میںقیادت
تو مسلمانوں کے مذہبی پیشوائوں کوہی کرنی ہے،لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر
اسٹیج پر علماء کاطبقہ تخت نشیں ہوںبلکہ علماء کو کم ازکم اب تو قربانی
دیتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظرمیں صاحب علم،قانونی ماہرین اور اقتصادی
سیاسی اور معاشی ماہرین کو اسٹیج پر بیٹھنے کاموقع دیتے۔لیکن اتحاد کے نام
پر اسٹیج کو ہائی جیک کرلینے سے سی اےاے،این پی آر اور این آر سی کی
تحریکیں بہت بُری طرح سے متاثرہوئی ہیں۔ابتداء میں جس رفتارکے ساتھ سی
اےاے،این آر سی اور این پی آرکی مخالفت والی تحریکیں چل رہی تھیں وہ اب
بہت کمزور حالت پر پہنچ چکی ہیں۔کئی علاقوں پر علماء کو نظراندازکئے جانے
کے الزامات کے تحت تنظیمیں بکھر گئیں،کچھ حامیوںنے اپنے اپنے مسلکوں کے
علماء کو دور رکھنے کی بات کا حوالہ دیتےہوئے تحریکوں سے کنارہ کشی کرلی ہے
اور بعض مقامات پر تو ایک دوسرے کے مسلک کے علماء کی موجودگی کو دیکھتے
ہوئے توبہ استغفار کا سلسلہ بھی چلا ہے۔جس مقصد کو لیکر لڑائی شروع ہوئی
تھی وہ مقصداب ناپید ہوتاجارہا ہے اور پھر ایک مرتبہ مسلمان اپنے اپنے وجود
کی لڑائی کیلئے کمربستہ ہورہے ہیں۔ملک میں ہم بھارت کے شہری، سوراج
انڈیا،سوراج،اے آئی ایس ایف،سی پی آئی جیسی جماعتوںنے دستور بچائو مہم کا
نعرہ لیکر میدان اترےتھے،جن کی آواز پر سارا ملک ایک ہونے لگا تھااور
حکومت لڑکھڑانے لگی تھی،لیکن اب دہلی میں بیٹھے ہوئے کچھ علماء اپنے اپنے
ماتحت آنے والے علماء کو قیادت کیلئے آگے آنے کی اپیل کررہے ہیںجس کی
وجہ سے اُمت تذبذب کا شکا ر ہورہی ہے کہ آخر ہم کس کی بات مانیں،کیا ہم
سابق آئی اے ایس افسر ششی کانت سندھیل،ہرش مندر،گوپی
ناتھن،کنہیاکمار،پرشانت بھوشن،یوگیندریادوجیسے ماہرین کی بات مانیں،یا پھر
ندوی،قاسمی،رضوی،عمری ومدنی کی بات مانیں؟۔ہر طرف اس بات کا ڈنکابجایا
جارہا ہے کہ مسلمان اب بیدار ہوچکے ہیںاور وہ ملک کو بچانے کیلئے ہر طرح کی
قربانی دینے کیلئے تیار ہوچکے ہیں،لیکن ایک اسٹیج پر ایک مکتب فکر کے عالم
کو کم کرکے دیکھیں کہ کس طرح سے اتحاد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائینگے۔آج ہندوستان
کے ٹکرے ہورہے ہیں،مسلمانوںکے ٹکڑے ہورہے ہیں،دستور کے ٹکڑے ہورہے ہیں،مگر
اب بھی لوگ ملک میں ایک رائے قائم کرنے سے محروم ہوچکے ہیں۔ |