کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریاں

ہمیں اس بحث سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا کہ کرونا کی ابتداء چائینا سے ہوئی تھی یا امریکہ سے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہے یا انسان کا بنایا ہواوائرس۔اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو اس شخص کے قریب ہونے سے پھیلتا ہے جو اس سے متاثر ہو۔اس وائرس سے خود کو بچاناہمارے اوپر فرض ہے۔ لیکن اس کے حوالے سے خوف اور سراسمیگی پھیلانا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کرونا سے جو دو فیصد ہلاکتیں ہوئی ہیں ان میں سے ذیادہ تراس کے خوف کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سانپوں کی جتنی بھی اقسام موجود ہیں ان سب میں زہر نہیں ہوتا لیکن سانپ کے کاٹنے کا خوف ہی اتنا ذیادہ ہوتا ہے کہ انسان اسی خوف سے مرجاتا ہے۔ جو لوگ اس وائرس سے خوف ذدہ نہیں ہوئے وہ صحت یاب بھی ہوئے ہیں اور صحت یاب ہونے والوں کی تعداد اٹھانوے فیصد ہے۔
اس کی تشخیص محض نزلہ زکام نہیں ہے۔ بلکہ ٹائیفائیڈ بخار اور دست لگنا بھی اس وائرس کی اہم نشانیاں ہیں۔اس سے متاثر مریض کو آئسولیشن میں چودہ دن تک رہنے کامقصد بھی اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ باربار ہاتھ دھونے اور دن میں پانچ وقت وضو کرنے والے افراد اس موذی مرض سے بچ سکتے ہیں۔
تمام معاملات زندگی میں انسان کی سوچ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان جس طرح سے سوچتا ہے زندگی اسی طرح سے اپنا رخ بدلنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر ہم لوگ اس مرض سے بچاؤ کے بارے میں سوچیں گے اور اپنے اردگرد کے لوگوں اور عزیز رشتہ داروں کا خیال بھی رکھیں گے تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم اس وباء سے بچ سکیں۔ موت کے خوف سے اشیاء کو ذخیرہ کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ توکل ہمارے مذہب اسلام کا ایک اہم جزو ہے۔ جو لوگ اشیاء کو ذخیرہ کرکے دوسرے لوگوں کے لیئے مشکلات پیدا کررہے ہیں وہ اپنے عارضی فائدے کے لیئے قیمتی انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ وائرس تو شاید ہمارے لیئے اتنا خطرناک ثابت نہ ہو لیکن عام انسانوں کے لیئے اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی اور اس کی مہنگے داموں فروخت ہمارے لیئے بہت ذیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں موجودہ صورت حال میں اتنی ہلاکتیں کرونا وائرس سے نہیں ہونگی جتنی خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔

بحثیت مسلمان ہمارا ٓخرت ،رزق اور موت پر کامل یقین ہے۔ کرونا وائرس بھی دوسری عام وجوہات کی طرح موت کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ موت تو ایک دن آنی ہے۔ موت کے خوف سے زندگی گزارنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے انسان اپنی موت سے پہلے ہی مر گیا۔ جب تک اﷲ نے آپ کو زندگی دی ہے اس کو بھر پور طریقے سے گزارنا آپ پر فرض ہے اور آ پ کی زندگی اور موجودگی کا دوسرے لوگوں کو فائدہ ہونا چاہیے نہ کہ نقصان۔ موت آنے کے تو کئی اسبا ب ہیں ۔ جب انسان کا مقررہ وقت آجائے گا تو کسی بھی سبب سے آپ کو موت آسکتی ہے۔ کرونا ان تمام وجوہات میں سے ایک وجہ تو ہو سکتی ہے لیکن کرونا سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ کو خدانخواستہ موت کبھی نہیں آسکتی۔ اس موذی مرض سے نجات کے لیئے اﷲ سے دعا کریں اور اشیائے ضروریہ کی قلت کرنے کی بجائے صاحب ثروت سے میر ی گزارش ہے کہ لوگوں میں یہ اشیاء مفت بانٹیں اور اپنی آخرت کو بہتر بنائیں۔ اس دنیا میں چند ٹکوں کی خاطر اپنی دنیا اور آخرت کو خراب نہ کریں۔ فیس ماسک اور سینیٹائزرز سب لوگو ں کے لیئے اتنے ضروری نہیں ہیں جتنے ٖضروری مریضوں اور ڈاکٹرز کے لیئے ہیں تاکہ مرض آگے نہ پھیلے اور ڈاکٹرز اچھے طریقے سے مریضوں کا علاج کر سکیں اور اپنی زندگیوں کو محفوظ بنا سکیں۔

عالمی معیشت اگر کساد بازاری کا شکا ر ہے اور پاکستانی سٹاک ایکسچینج اگر کریش کرگئی ہے تو اس کا نقصان صرف ان لوگوں کو ہے جن کے مفاد ان سے وابستہ ہیں ۔ جن لوگوں کا ان معاملات سے کوئی سروکا رنہیں ان کو بلاوجہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جن لوگوں کو نقصان کا اندیشہ ہے وہ لوگ انہی کاروباروں سے اربوں کھربوں روپے کما بھی چکے ہیں اور وہ یہ پیسے ہمیں نہیں دینے والے ہیں اس لیے اس غم میں اپنی زندگی کو روگ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان کا رزق اﷲ نے پہلے سے ہی لکھ دیا ہے اس لیے اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس وباء سے بچنے کے لیئے مناسب قسم کے حفاظتی اقدامات کئے جائیں اور جو لوگ پریشان حال ہیں ان کی دل جوئی کی جائے۔ جن کو خوراک کی قلت ہے ان تک خوراک پہنچائی جائے۔ اﷲ ہمارے ملک کو اس آفت کے سنگین خطرات سے محفوظ رکھے !۔ آمین۔ لیکن اس کے لیئے ہمیں اپنے دل سے لالچ کو نکالنا پڑے گا۔ انسانی زندگی کی قدرومنزلت سے انکار نہیں لیکن جتنی قیمتی آپ کی اپنی زندگی ہے اتنی ہی قیمتی آپ کے اردگرد لوگوں کی بھی زندگی ہے۔ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے کی بجائے اپنے اردگرد کے لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔دنیا کا مال یہیں رہ جانا ہے آجتک کوئی اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکا ۔ اس لیئے جتنی آسانیا ں آپ دوسروں میں تقسیم کرسکتے ہیں ضرور کریں۔

کرونا اور اس کے حفاظتی اقدامات کے بار ے میں سن کر میرے ذہن میں ایک دم خیال آیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اﷲ نے انسان کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بچانے کے لیئے حفاظتی اقدامات کر سکتا ہے۔ ہمارے اردگرد موجود جانور اور پرندے بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں جوآج بھی آذادی سے بلند فضاؤں میں اڑتے ہیں اور بغیر ماسک سے سڑکوں پر پھر رہے ہیں ۔ کیا ان کے پاس اپنی زندگیوں کو بچانے کا شعور نہیں یا ان کا اﷲ پر توکل اتنا ذیادہ ہے کہ ان کو حفاظتی اقداما ت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انسان تو اپنے لیئے سالوں کا ذخیرہ خوراک جمع کرتا ہے لیکن اس کو کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ پرندے تو روز اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں اور کچھ بھی ذخیرہ نہیں کرتے اور ہم سے شاید ذیادہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو خود ہی مشکل بنا یا ہوا ہے۔ اس میں کسی اور کا کوئی قصور نہیں ہے۔

بارڈرز بند کرنے اور سکول اور مارکیٹیں بند کرنے کا یورپی ماڈل تو ہم فالو کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ غریب مزدور جس کے گھر کا چولہا اس کی روز کی دیہاڑی سے چلتا ہے وہ کیا کرے گا۔ کیا ہماری گورئمنٹ اس قابل ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ان کے گھر پر راشن پہنچائے گی۔ مارکیٹ سے اشیائے ضروریہ کا غائب ہونا اور اس کی مہنگے داموں فروخت تو آج تک کنٹرول نہ ہوسکی تو ہماری حکومت موقع پرستوں پر کیا کنڑول کرے گی۔ خدارا لوگوں کو ان کی موت سے پہلے نہ ماریں بلکہ اس طرح کے اقداما ت کریں کہ لوگ اپنی زندگیاں خوشی سے گزار سکیں۔

باقی تما م اقداما ت کی طرح میڈیا کا مثبت کردار بھی بہت اہم ہے۔ اس طرح کی خبروں کو بار بار نشر کرنا جس سے لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہو کسی بھی غیرجانبدار میڈیا کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ اپنے شوز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے لوگوں کو پریشان کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ چند اشتہارات کے حصول کے لیئے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا ہر گز مناسب نہیں ہے۔ میڈیا کا مقصد لوگ میں جینے اور مشکلات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش ہونا چاہیے۔ نہ کہ لوگوں میں اتنا خوف و ہراس پھیلا دیا جائے کہ ان کا سڑک پر نکلنااور چلنا پھرنا ہی دوبھر ہوجائے۔ آپ سے ملنے والا ہر شخص کرونا کا شکار نہیں ہوسکتا۔ مرض سے بچاؤ کی آگاہی پھیلانا سب سے ضروری ہے۔ لیکن اس خبر کو لے کر اور اس کو بار بار نشر کرکے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دینا ہر گز مناسب نہیں۔ موجودہ ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات سے آگاہی پہنچانا میڈیا کا فرض ضرور ہے ۔ لیکن اس کی مدد سے خوف اور ڈر کی فضاء پیدا کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ باربار وباء کا تذکر ہ کرنا اور اس سے متاثرہ افرادکی تعداد کو بتانا ایک ظلم عظیم ہے۔
میڈیا کا مثبت کردار ہمیں بہت سی مشکلوں سے نجات دے کر پرسکون زندگی گزارنے میں مدد دے سکتاہے۔
 

Tanvir Ahmed
About the Author: Tanvir Ahmed Read More Articles by Tanvir Ahmed: 71 Articles with 81049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.